سیاسی طوفان کی دستک

37

اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لانے نہ لانے، جانے کب لانے کا ٹنٹا ختم ہوا۔ تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی گئی۔ گیند حکومت کے کورٹ  میں سپیکر قومی اسمبلی 14 دن کے اندر اجلاس بلائے جس کے بعد تین یا سات دنوں میں تحریک پر ووٹنگ کرا دی جائے قومی اسمبلی ہال میں او آئی سی اجلاس کے انتظامات، اسمبلی اجلاس کہاں ہو گا۔ آئین کے تحت کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ تحریک کو کامیاب یا ناکام بنانے کے سلسلہ میں باہمی رابطوں، مشوروں، ملاقاتوں اور روٹھنے منانے کا سلسلہ تیز ہو گیا۔ سیاسی طوفان کی دستک سنائی دینے لگی ہے۔ مارچ ہی میں تخت یا تختہ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مقابلے کا بگل بج گیا۔ کھیل کا فائنل راؤنڈ یا سپر اوور شروع، حکومت تحریک کو ناکام بنانے اپوزیشن کامیاب کرنے کے لیے پُر عزم، کمال ہے اپوزیشن کو یقین حکومت بھی مطمئن۔ تحریک کی منظوری کے لیے 342 کے ایوان میں 172 ووٹوں کی ضرورت دعووں کے مطابق حکومتی ارکان اور اتحادیوں کی تعداد 179 جبکہ اپوزیشن کے  162 ارکان موجود، 10 کہاں سے آئیں گے۔ اپوزیشن کے تینوں بڑوں مولانا فضل الرحمان، آصف زرداری اور شہباز شریف کو مکمل یقین ہے کہ انہوں نے حکومت کے اندر سے 24 ارکان توڑ لیے ہیں۔ ن لیگ نے 16، پی پی نے 6 اور جے یو آئی نے 2 ارکان کو رام کر لیا۔ رانا ثناء اللہ کے مطابق تحریک کے حامی ارکان کی تعداد 202 ہو گئی۔ تحریک پر ووٹنگ سے قبل سب ہوائی باتیں تجزیے اور با خبر ذرائع کے اندازے، شاہد خاقان عباسی کے مطابق جس کا ضمیر جاگے گا وہ اپوزیشن کو ووٹ دے گا۔ انجم بارہ بنکوی نے کہا تھا ’’زمین کے سارے خداؤں کو ٹوک دیتا تھا، میرا ضمیر تھا زندہ یہ بات ہے تب کی‘‘۔ ہماری جمہوریت میں ٹوکنے کا رواج نہیں شوکاز نوٹس مل جاتے ہیں ایسے لوگوں کی بنیادی رکنیت ختم کر دی جاتی ہے۔ اس لیے لوگوں کا ضمیر اکثر و بیشتر پارٹی سے نکالے جانے کے بعد ہی جاگتا ہے۔ ندیم افضل چن پیپلز پارٹی چھوڑ کر حکومتی پارٹی میں چلے گئے تھے شاید ضمیر جاگ گیا تھا ساڑھے تین سال معاون خصوصی رہے اس دوران اپوزیشن پر جی بھر کر تنقید کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ پچھلے دنوں پھر ضمیر نے انگڑائی لی اور بلاول بھٹو کے گلے لگ گئے بلاول نے بھی گلے شکوے کیے بغیر گلے لگا لیا۔ یہی جمہوریت کا حسن اور مخالفین سے انتقام ہے۔ شنید ہے کہ ن لیگ نے 16 ارکان کا ضمیر جگا لیا۔ اپنے ہی ہوں گے ضمیر سونے پر ادھر چلے گئے تھے اب واپس آنے کو ہیں جو تیری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا۔ دونوں جانب امید کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ اپوزیشن کے تینوں بڑوں کو یقین ہے کہ یقینا اب کوئی ٹھوکر لگے گی بہت مغرور ہوتے جا رہے ہیں، یہی زعم میں تحریک لے آئے ہیں۔ اتحادیوں سے کتنی ملاقاتیں ہو گئیں۔
تینوں بڑے آ جا رہے ہیں اتحادیوںکی آمد و رفت بھی جاری ہے۔ مولانا کا خیال ہے کہ ’’لے تو آئے ہیں انہیں گھیر کے ہم باتوں میں اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں‘‘، تاہم ابھی کوئی اتحادی نہیں کھل رہا۔ شکایات سب کو ہیں سب کے تحفظات جوں کے توں لیکن پتا نہیں کیوں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ اسلام آباد کے چلمنوں سے لگے بیٹھے ہیں۔ لاکھ یقین دلایا گیا کہ امپائر نیوٹرل ہو گئے ہیں لیکن یاروں کا کہنا ہے کہ امپائر کرکٹ میں نیوٹرل ہوتے ہیں۔ سیاست میں حالات دیکھے جاتے ہیں۔ حکومت کے اندر ٹوٹ پھوٹ کے علاوہ اپوزیشن کی نظریں جہانگیر ترین گروپ پر لگی ہیں۔ 26 یا 36 ارکان پر مشتمل اس گروپ میں کئی ایم این ایز بھی شامل ہیں یہ گروپ عرصہ دراز سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا مخالف چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں علیم خان کی شمولیت سے گروپ کو خاصی تقویت ملی۔ علیم خان شمولیت کے فوراً بعد لندن چلے گئے۔ صرف جہانگیر ترین سے ملیں گے یا اوروں سے بھی ملاقاتیں ہوں گی۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے گزشتہ بدھ کے روز ایون فیلڈ فلیٹس میں نواز شریف سے 3 گھنٹے ملاقات کی واللہ اعلم، کہتے ہیں تحریک عدم اعتماد پر بات چیت ہوئی۔ اس کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں 14 ناراض ارکان کا گروپ بھی ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ اپوزیشن کے مطابق خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے تین ایم این ایز نے حمایت کا یقین دلایا ہے۔ بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے جام کمال اور سردار یار محمد رند ہتھے سے اکھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم فی سبیل اللہ سیاست نہیں کر رہے، ہمیں ہمارا حق چاہئے رویوں میں تبدیلی آ رہی ہے۔ اتحادی اب تک حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ان کے ارکان کھڑے کھڑے تھک گئے ہیں۔ ق لیگ اور ایم کیو ایم سے وزیر اعظم نے بلا شبہ ملاقاتیں کیں لیکن کسی نے بھی با آواز بلند حمایت کا یقین نہ دلایا۔ جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگارا نے تو علالت کے باعث ملاقات سے معذرت کر لی۔ اپوزیشن کا یقین دو چند ہو گیا کہ تحریک کی کامیابی یقینی ہے جبکہ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ گیدڑوں کی موت انہیں اسلام آباد لے آئی ہے، تحریک ان کی سیاسی موت ہو گی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ جو کروں گا یاد رکھیں گے۔ سب کو جیل میں ڈال دوں گا۔ تحریک کی ناکامی کے بعد مجھے 2028ء تک کوئی نہیں ہٹا سکے گا۔ وزیر اعظم کا اطمینان خالی از علت نہیں لیکن اسلام آباد سمیت شہروں میں تو بہت سے گیدڑ موجود ہیں جو حالات دیکھ کر بھاگ لیتے ہیں۔ شاید ان ہی کی نگرانی کے لیے حکومتی پارٹی نے زبردستی حکمت عملی طے کی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے دن حکومتی پارٹی اور اتحادیوں کا کوئی رکن اجلاس میں شریک نہیں ہو گا۔ صرف پی ٹی کا ایک رکن (غالباً سپیکر) شرکت کرے گا۔ سو سنار کی ایک لوہار کی کیا دھوبی پٹڑا مارا ہے۔ ’’گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘ ایوان میں ارکان آئیں گے تو تحریک کے حق میں یا مخالفت میں ووٹ ڈالیں گے۔ ایوان سے پی ٹی آئی کے ارکان کی غیر حاضری کے باعث اپوزیشن مزید دس بارہ ارکان کہاں سے لائے گی۔ اس کا فائدہ حکمران جماعت کو ہو گا کہ جو حکومتی رکن ایوان میں داخل ہو گا اسے باغی تصور کیا جائے گا اور سپیکر اسے ووٹ ڈالنے سے روک سکے گا۔ اعتزاز احسن سمیت ماہرین قانون کہتے ہیں کہ یہ خلاف قانون اور غیر آئینی حکم ہے۔ کسی بھی رکن کو ایوان میں داخلے یا ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جا سکتا البتہ مخالف ووٹ پر بعد میں کارروائی ہو سکتی ہے۔ سیاسی شطرنج کی بساط بچھی ہے۔ چالیں چلی جا رہی ہیں۔ پیادے بے چارے ہیں مہرہ ناچیز۔ وفاقی دارالحکومت میں ملاقاتوں، مشوروں اور ظہرانوں عشائیوں کے سوا کوئی بے چینی بے اطمینانی، بظاہر نظر نہیں آتی۔ بلاول بھٹو بڑا لانگ مارچ لے کر اسلام آباد آئے ڈی چوک پر کنٹینر لگے دیکھ کر فیض آباد میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ وزیر داخلہ نے کنٹینر ہٹا دیے لانگ مارچ کے شرکا جھنڈے لہراتے اور دھمال ڈالتے ڈی چوک میں داخل ہوئے، تقریریں سنیں آصف زرداری کے ہوائی بوسوں سے روحانی تسکین حاصل کی اور پارلیمنٹ ہاؤس کی زیارت کر کے واپس لوٹ گئے۔ بلاول بھٹو نے اتنا طویل اور کٹھن سفر کیوں کیا؟ بس کر لیا کسی کو کیا، شیخ رشید کو اعتراض نہیں تو کسی اور کیا پریشانی ہو سکتی ہے۔ چند سال بعد اس قسم کے لانگ مارچ ہوتے رہنے چاہیے کارکنوں کی سیاسی تربیت اور نعرے لگانے کی پریکٹس ہوتی ہے۔ جمعہ کی رات اسلام آباد پولیس نے پارلیمنٹ لاجز پر دھاوا بول کر مولانا کی محافظ تنظیم انصار الاسلام کے 18 ارکان کو گرفتار کر لیا۔ یہ ارکان اپوزیشن کے ایم این ایز کو اغوا سے بچانے کے لیے وہاں موجود تھے۔ خاصی دھما چوکڑی ہوئی وزیر داخلہ خود آ کر مولانا سے بات کر لیتے تو ہنگامہ آرائی نہ ہوتی۔ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں وزیر اعظم نے جو دھمکیاں دی ہیں۔ ان سے اپوزیشن والے کیوں خوفزدہ نہیں یہ تو وہی جانیں لیکن مقدمات کی سماعت میں تیزی آئے گی، مزید ریفرنس منظر عام پر آئیں گے، فیصلے تو جب آئیں گے دیکھا جائے گا اپوزیشن کے تینوں بڑوں کو مصروف ضرور کر دیا جائے گا۔ البتہ تحریک کامیاب ہو گئی تو… اس وقت دیکھا جائے گا۔ اپوزیشن جوں کی توں رہے گی۔ عمران خان بقول ان کے خطرناک ہو جائیں گے، ’’ڈینجرس مین‘‘ پتا نہیں عمران خان یا بلاول بھٹو کے لیے اک نجومی نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے، کس کے لیے ہے یہ سوال اچھا ہے۔ کچھ بھی ہے اپوزیشن تبدیلی کو تبدیل کرنے کے مشکل مشن پر نکلی ہے۔ اپنوں اور غیروں سمیت پوری قوم کی نظریں تحریک عدم اعتماد پر لگی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.