تاریخ کا قصہ

68

انسانی زندگی تین حصوں میں منقسم ہے۔ بچپن ، جوانی اور بڑھاپا۔ باقی اتار چڑھاؤ ان تینوں سے جْڑے رنگ ہیں۔ جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی ہے تو زندگی میں پیش آنے والے واقعات خوشگوار اور ناخوشگوار یادوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ گزرے ان واقعات سے متعلق احساسات میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ یہ رد عمل دراصل آپ کے علم اور تجربات میں اضافے کی وجہ سے تغیر پذیر رہتا ہے۔ چند روز قبل میٹرک کے ایک پرانے ہم جماعت سے طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی۔ وقت اور حالات کے دھارے میں بہتے بہتے ہم دونوں کی وہ نوجوانی والی شکلیں کہیں کھو گئی تھیں۔ گفتگو کا آغاز تو بڑی رسمی بات چیت سے ہوا۔ لیکن آہستہ آہستہ سکول اور بچپن کی یادیں تازہ ہونا شروع ہوئیں تو لگا ہم ایک بار پھر اپنے سکول کے کلاس روم میں جا بیٹھے ہیں۔ اپنی کلاس کے لائق اور نالائق ہم جماعتوں کا ذکر ، مستی بھری شرارتیں ، اساتذہ کرام سے پٹنے پٹانے کے قصے۔ دل ایک بار پھر بچہ بننے کو مچلنے لگا۔ ہمارے اردو کے استادطفیل صاحب کا ذکر بھی ہوا۔طفیل صاحب اکثر سبق پڑھاتے پڑھاتے گفتگو کا رخ معاشرتی مسائل کی جانب موڑ دیتے تھے۔ ہمیں کچھ عجیب تو لگتا تھالیکن ہم اسی میں خوش رہتے کہ چلو سبق سے توجان چھوٹی اور ہم ان کی گپ شپ سنتے رہتے۔ ان میں سے اکثر باتیں ہمارے اوپر سے گزر جایا کرتیں۔ استاد محترم علامہ اقبال کا ایک شعر اکثر سنایا کرتے تھے۔ جوآج بھی ازبر ہے۔
واع ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
آج چالیس برس بعد بھی لگتا ہے کہ یہ شعر میرے شعور کی منزلیں طے کرتا کرتا میرا ہمسفر بن چکا ہے۔ اور ایک عجیب احساس ہے جو ہر وقت گھیرے رکھتا ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم 74 برس پہلے ایک سفر کا آغاز کیا۔ حضرت قائد اعظم کو میر کاررواں بنایا۔ پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ ہم نے قائد کے دکھا ئے راستے کو چھوڑ کر خود کو اجنبی مسافتوں کا راہی بنا لیا ہے۔ایسے راستے جو ہمیں خود مختاری ، آزادی، خوشحالی اور باعزت قوم کی منزل سے دور سے دور تر کرتے چلے جارہے ہیں۔ بحیثیت قوم ہمارے دل سے اس عظیم
زیاں کا احساس ذاتی خواہشات کے نیچے دب ساگیا ہے۔ سب سے بری چیز جو کسی قوم کے ساتھ ہو سکتی ہے تو وہ زیاں کااحساس ختم ہوجانا ہے۔ بڑھتے طبقاتی نظام نے متاع کارواں کے اس احساس کو ختم کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس ملک میں ایک مخصوص طبقہ وسائل اور اختیارات کا مالک بن چکا ہے۔ اس طبقے کی خیالات ، عادات اور فرمودات سماج کی روش بن گئے ہیں۔ اس نظام سے جنم لینے والی اشرافیہ کو تمام گناہ معاف ہیں۔ جبکہ عام آدمی کو ایک روٹی چرانے پر مار مار کو لہو لہان کر دیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک دونوں چوریاں گنا ہ ہیں۔ لیکن اربوں کی چوری اور ایک روٹی کی چوری کو ایک ساتھ ملا کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ کوئی شخص روٹی صرف بھوک کی وجہ سے چوری کرتا ہے۔
لیکن کروڑوں اربوں کی چوری اس لئے کی جاتی ہے کہ اپنی ، ہوس ، لالچ اور طاقت کی بھوک مٹائی جا سکے۔ ملک بننے سے لے کر آج تک اربوں کھربوں کے گھپلے ہوئے۔ اس ملک کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے نہایت بے دردی سے لوٹا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ آج بھی روٹی کپڑا اور مکان جیسے بنیادی حق سے محروم ہے۔ اس سے بھی بڑا دکھ یہ ہے کہ ہم بطور قوم لٹ جانے کے اس احساس سے عاری ہو چکے ہیں۔ حکومت او ر ریاست عام آدمی کو بھول کر صرف ایک مخصوص طبقے کے مفادات کی نگہبانی میں مصروف عمل نظر آتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ 74 برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک ہم تھانہ اور پٹوار کلچر تک نہیں بدل سکے۔ ہر حکومت اصلاحات کی دعویدار ہے۔ آئے دن اشتہارات اور پریس کانفرنسز کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ تھانوں اور زمینوں کا نظم و نسق کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیا ہے۔ لیکن انسانی رویہ جو اصل بدلنے والی چیز ہے اسے بدلنے کی جانب کسی کی توجہ ہی نہیں۔ آج بھی تھانوں میں اور پٹوار خانوں میں رشوت اور عوامی ذلت کا بازار ویسا ہی گرم ہے جیسا پہلے تھا۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی موجودہ حکومت بھی کرپشن فری پاکستان کے نعرے کے ساتھ بر سراقتدار آئی تھی۔ لیکن ساڑھے تین برس سے زائد گزر جانے کے باوجود بھی کرپشن میں کمی نہیں لائی جا سکی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق 2021 میں پولیس اور عدلیہ پاکستان کے سب زیادہ کرپٹ ادارے قرار پائے۔ کمزور احتساب کا نظام ، طاقتور لوگوں کی اداروں میں مداخلت ، ملازمین کی کم تنخواہیں اور زیادہ اختیارات کرپشن کا سبب بن رہے ہیں۔ آج کل دلیل دی جاتی ہے کہ اگر وزیر اعظم ایماندار ہو تو کرپشن رک جاتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کسی ایک شخص کے ایماندار ہونے سے چاہے وہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو کرپشن کیسے رک سکتی ہے ؟ یہ 22 کروڑکا ملک ہے۔ وزیر اعظم ہر کام اپنے ہاتھ سے نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے اداروں کا نظام کو درست اور متوازن کرنا ضروری ہے۔ تنخواہوں اور اختیار میں توازن لانا ہوگا۔ اس کے لئے انھیں اپنی ٹیم میں اہل افراد کو جگہ دینا ہو گی جو درست پالیسیاں بنا سکیں۔ عمران خان ایسے افراد کا چناؤ کریں کہ جب وہ ریاستی پالیسیاں بنائیں تو ان کے مفادات کا ٹکراؤ سامنے نہ آئے۔ میعار صرف اور صرف اہلیت رکھیں۔ وزیر اعظم عمران خان کرپشن فری پاکستان کی جو امید لے کر آئے تھے وہ دم توڑ رہی ہے۔ اگر یہ باقی ڈیڑھ برس کا عرصہ بھی ایسے ہی گزر گیا تو مہنگائی ، بے روزگار ی اور کرپشن سے الجھتے عوام اپنا غصہ بیلٹ کے ذریعے نکالیں گے۔ پھر خان صاحب بھی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔ یاد رکھیں تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔

تبصرے بند ہیں.