کچھ برس پہلے تک دنیا بھر میں ٹیلی ویژن کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔اگرچہ آج بھی ٹی۔وی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس کا اپنا مقام ہے اور اثر انگیزی بھی ۔ لیکن آج کا دور ڈیجیٹل میڈیا کا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا نے اخبار، ریڈیو،ٹی۔وی اور دیگر میڈیمز کی جگہ لے لی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی رفتار سے اس کی وقعت بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا ہماری زندگیوں کا ایک ناگزیر حصہ بن چکا ہے۔کسی زمانے میں دوسرے شہروں اور ملکوں میں مقیم دوست، احباب سے روابط کے لئے خط لکھنے کا رواج تھا۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں ترقی ہوئی تو ای۔میل کا استعمال شروع ہوا۔ ای میل کے ذریعے چند سیکنڈ میں پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے لگا ۔ سوشل میڈیا نے پیغام رسانی اور روابط کو کئی گنا تیز رفتار بنا دیا ہے۔ آج یہ عالم ہے کہ فقط چند لمحوں میں ہر قسم کا تحریری اور تصویری پیغام دنیا جہان کے لاکھوں ، کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے اور وہ بھی انتہائی سستے داموں۔ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا ایک کما ل یہ ہے کہ دنیا جہان کی معلومات تک ہمیں رسائی حاصل ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک، کسی بھی شہر، کسی بھی جگہ، کسی بھی ادارے، کسی بھی قانون کے بارے میں معلومات لینے کیلئے چند منٹ اور گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ نہایت سہولت کیساتھ اہم دستاویزات، تصاویر اور ویڈیوز ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائی جا سکتی ہیں۔ نئے اور پرانے زمانے کی فلمیں، ڈرامے، موسیقی اور دیگر تفریحی مواد بھی ڈیجیٹل میڈیا پر دستیاب ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ فی زمانہ ابلاغ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہے۔ ہم سب اپنی روزمرہ زندگی میں جدید ٹیکنالوجی اور خاص طور پر سوشل میڈیا کے اسقدر عادی ہو چکے ہیں کہ بسا اوقات محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ اس احساس کی شدت اس وقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے جب ہمیں کسی مجبوری کے تحت انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس کے تعطل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے فوائد اور مثبت پہلووں سے قطع نظر، کچھ برس سے اس کے منفی اثرات اور ثمرات کے بارے میں بہت کچھ سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔ ایک محاوہ ہے کہ ہر شے کی زیادتی بری ہوتی ہے۔ اندازہ کیجیے کہ ہمارے مذہب اسلام نے عبادت میں بھی توازن اور اعتدال کا حکم فرمایا ہے۔ اپنی ہمت اور استعداد کار سے بڑھ کر کئے جانے والے کاموں کی ممانعت کا حکم ہے۔ جب عبادت میں بھی میانہ روی اور اعتدال کی ہدایت ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کا حد سے بڑھا ہوا استعمال انسان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب نہ کرئے۔ کئی برس سے ماہرین اس امر کی جانب توجہ دلا رہے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال انسان کی جسمانی ، ذہنی اور نفسیاتی صحت کو منفی طور پر متاثر کرتا ہے۔ گھنٹوں کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، آئی۔پیڈ، موبائل اور دیگر مشینوں کا استعمال بصارت کو متاثر کرتا اور آنکھوں کی کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ گردن اور کمر کے بیشتر عوارض بھی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اندھا دھند استعمال کی دین ہیں۔ بہت سے دماغی، اعصابی، جذباتی اور نفسیاتی مسائل بھی جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے پھیل رہے ہیں۔
تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں نوجوان نسل ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ ایک وجہ یہ کہ سوشل میڈیا کا استعمال نئی نسل میں بہت عام ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال طالب علموں کو کسی نشے کی لت طرح اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ طالب علم جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے لکھنے کی عادت سے دور ہوگئے ہیں۔ ہاتھ سے لکھنے کے بجائے وہ کمپیوٹر پر کمپوزنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی معاملہ تحقیق کے حوالے سے درپیش ہے۔ کسی زمانے میں لائبریریاں کھنگالنے اور کتابیں پڑھنے کا رواج تھا۔ اب جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ زمانہ لد چکا۔ آج کل گوگل کی مدد سے کاپی پیسٹ کرنے کے عمل کو تحقیق کا نام دے دیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال صرف نوجوانوں اور طالب علموں تک محدود نہیں ہے۔ کالجوں اورجامعات کے پروفیسروں تک کا یہی عالم ہے۔ ابھی حال ہی میں عالمی سطح پر سینکڑوں تحقیقی مضامین (research articles) کو اس وجہ سے رد کر دیاگیا کیونکہ وہ چربہ شدہ مواد پر مشتمل تھے۔
یہ معمول بھی ہمارے سامنے کی بات ہے کہ کم وبیش ہر عمر اور طبقے کے افراد، فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام، یو ٹیوب، اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارموں کے ساتھ روزانہ گھنٹوں کے حساب سے وقت گزارتے۔ اس عادت کی وجہ سے وقت کا بیحد زیاں ہوتا ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گھریلو اور پیشہ وارانہ زندگی کے اہم کام تعطل کا شکار رہتے ہیں۔ یہ رویہ جب معمول بن جاتا ہے تو تناؤ، اضطراب، بے چینی،احساس کمتری، بے خوابی جیسے مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔
یہ تحقیق بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر افراد صبح اٹھتے ہی سوشل میڈیا کا جائزہ لیتے ہیں۔اداکار، اداکاراؤں، ماڈلز اور مشہور شخصیات کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر ان جیسا بننے کی آرزو کرتے ہیں۔ اس خواہش کی تکمیل میں رنگ گورا کرنے والی کریمیں، وزن کم کرنے والی ادویات، سٹیرائڈ،وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ نتیجتاً جلد کی خطرناک بیماریوں، جگر اور گردوں کے عوارض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ایک تازہ ترین رپورٹ سعودی عرب کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں سعودی عرب میں طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2020 میں سعودی عرب میں 57 ہزار 595 طلاقیں رجسٹرڈ ہوئیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ اعداد و شمار 2019 کے مقابلے میں 12 فیصد سے زیادہ ہیں۔ تاثر ہے کہ چند برسوںسے حکومتی سطح پر عورتوں کے حوالے سے جو روشن خیال پالیسیاں متعارف کروائی گئی ہیں، وہ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ ہیں۔
ایک دوسرا پہلو اور نقطہ نظربھی موجود ہے۔ سعودی عرب کی ایک خاتون قانون دان رباب المعبی کا مشاہدہ اور تجزیہ ہے کہ طلاق کی بڑھتی شرح کا سبب جدید ٹیکنالوجی اور سمارٹ دیوائسز ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال اور رابطے کی سہولت نے میاں بیوی کے تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے۔ مردو ں اور عورتوں نے سوشل میڈیا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ اس رجحان نے میاں بیوی کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے ،رنجشوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اور طلاق کی شرح بڑھ گئی ہے۔
پاکستان میں ایسے اعداد و شمار مرتب کرنے کا رجحان کم کم ہے۔ البتہ ایسی خبریں اور تجزئیے ہم سنتے رہتے ہیں کہ یہاں بھی طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کاش کوئی محقق یہ تحقیق کرے کہ اس صورتحال کی وجہ کیا ہے۔نہایت ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا کے تاریک پہلووں سے بچاؤ کی تدابیر کریں۔ اس ضمن میں والدین کا کردار بے حد اہم ہے۔ سکول ، کالج کی سطح پر بھی اساتذہ کو اس ضمن میں آگاہی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.