پی سی بی کے اعلیٰ عہدیداروں کی تنخواہوں کی تفصیلات قائمہ کمیٹی میں پیش، کون کتنی تنخواہ لے رہا ہے؟

78

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کے اجلاس میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ عہدیداران کی تنخواہوں کی تفصیلات پیش کر دی گئیں جبکہ چیئرمین رمیز راجہ کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار بھی کیا گیا۔ 
تفصیلات کے مطابق چیئرمین نواب شیر وسیر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بین الصوبائی رابطہ کا اجلاس ہوا جس میں رمیز راجہ نے شرکت نہ کی۔ اجلاس کے شرکاءکا کہنا تھا کہ رمیز راجہ کو اجلاس میں شریک ہونا چاہئے تھا جس پر انہیں بتایا گیا کہ چیئرمین وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ساتھ ملاقات کے باعث کراچی میں ہیں جہاں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی تیاریوں کے حوالے سے ملاقات بہت اہمیت کی حامل تھی۔ 
ذرائع کے مطابق پی سی بی میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات افسران کی تنخواہوں کی تفصیلات بھی قائمہ کمیٹی کو پیش کی گئیں جس میں بتایا گیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) وسیم خان 26 لاکھ ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے تھے جبکہ ہیڈ آف انٹرنیشنل پلیئرز ڈویلپمنٹ ثقلین مشتاق 12 لاکھ 77 ہزار روپے لے رہے تھے۔ 
قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان کرکٹ ٹیم کے فزیوتھراپسٹ اینڈریو ڈیکان کی تنخواہ 21 لاکھ ، ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس محمد ندیم خان 13 لاکھ 15 ہزار روپے، چیف ایگزیکٹو آفیسر سلمان نصیر 12 لاکھ 45 ہزار، چیف فنانشل آفیسر جاوید مرتضیٰ 12 لاکھ 40 ہزار، چیف میڈیکل آفیسر نجیب اللہ سومرو 12 لاکھ 15 ہزار اور چیئرمین سلیکشن کمیٹی محمد وسیم 10 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔ 
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ڈائریکٹر ہیومن ریسورس سرینا آ غا 8 لاکھ 65 ہزار، ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ آپریشن ذاکر خان 8 لاکھ 44 ہزار، ڈائریکٹر سیکیورٹی آصف محمود 6لاکھ 50 ہزار، سینئر جنرل منیجر آپریشنز و لاجسٹکس اسد مصطفی 6 لاکھ 13 ہزار اور جی ایم فنانس عتیق رشید 6 لاکھ سمیت لے رہے جبکہ متعدد شخصیات پانچ، پانچ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لے رہی ہیں۔ 
کمیٹی چیئرمین نواب شیر وسیر نے کہا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ محترم ہیں لیکن چیئرمین پی سی بی کو کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہونا چاہئے تھا جبکہ کمیٹی رکن اقبال محمد علی نے کہا کہ پی سی بی کے آڈٹ کے حوالے سے معاملات حل نہیں ہو سکے ، اگر پی سی بی کے آڈٹ معاملات حل نہ ہوئے تو کیس ایف آئی اے کو بھیج دیں گے۔ 

تبصرے بند ہیں.