تریوی کا فوارہ اورفواروں کا باطن

68

ہر خطے کی اپنی کہانیاں، اپنے اساطیراور تصورات ہوتے ہیں جس طرح دریائے نیل کے بارے میں مشہورہے کہ جو ایک بار نیل کاپانی پیتاہے نیل اسے دوبارہ ضرور بلاتاہے اسی طرح روم کے تریوی فوارے کے بارے میں کہاجاتاہے کہ جو اس میں تین سکے ڈالے گا روم اسے دوبارہ ضرور بلائے گا۔تریوی علاقے کانام ہے جہاں فوارہ بنانے کا فیصلہ کیاگیا تو فن کاروں کواس کا ڈیزائن بنانے کی دعوت دی گئی جس کے نتیجے میں اطالوی ماہر تعمیرات نکولوسالوی Niccolò Salvi (6 August 1697 – 8 February 1751 کا بنایاہوا ڈیزائن منظورہوا ۔سالوی نے اسے سترھویں اور اٹھارویں صدی میں یورپ میں مقبولیت حاصل کرنے والے Baroque اندازمیں ڈیزائن کیالیکن اس کی تکمیل سے پہلے ہی دنیاسے رخصت ہوگیااور اسے مکمل صورت میں نہ دیکھ سکا ۔یہ روم کے ایک تراہے پر واقع ہے پس منظر میں جو عمارت ہے اس پر انسانوں اور طیورکے چنددرچندمجسمے آسمان کی وسعتوں کی جانب ہمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مجسمے بھی اسی Baroque آرٹ کے نمونے ہیں جس کا پہلے ذکرہوا۔فوارہ، داخلی توانائی کااستعارہ ہوتاہے اس کا زورِدروں، پانی کو بلندی کی سمت اچھال دیتاہے۔ فردبھی اگر باطنی طورپر مضبوط ہوتو بلندیوں کو چھونے میں کامیاب ہوسکتاہے ورنہ وہ گلی کے موڑ پر نالی میں بہتے پانی کی طرح ہوتاہے جو تڑپتاہے ،تلملاتاہے لیکن اس کا مقدرمحض زدِجاروب کھاناہی ہوتاہے۔فرد اور فوارے کی یہی مناسبت ہے جس نے مجھے بہت بچپن سے فواروں کا شیدابنایا۔ میں پرائمری اسکول میں تیسرے یا چوتھے درجے کا طالب علم تھا جب میں نے اپنے گھرکے صحن میں ایک باغ بنایا،اس کے دروازے پر سڑکوں کے ایک چوک سے اس میں گاڑیاں داخل ہوتی تھیں۔ چوک میں اشارہ نصب تھا اور دروازے پر ایک چرخی جسے گھمانے پر تین سڑکوں پر موجودکھلونا گاڑیاںچل پڑتی تھیں اور اشارے پر آکررک جایاکرتی تھیں ۔ اندر کی روِش، گلستان کے وسط تک لے جاتی تھی جہاں ایک فوارہ نصب تھا۔ فوارہ کیاتھا ایک کم سن کے تخیلات کی تصویرتھی ۔اس زمانے میں بچوں کے پاس اتنے وسائل تھے نہ ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کی تھی کہ طرح طرح کی سہولتیں میسرہوں ۔گھرکے ازکارافتادہ برتنوں میں سے تام چینی کا ایک بڑاساپیالہ لے کر اس میں سوراخ کرلیاتھا جس میں پائپ گزارکر اس کے اوپرپائوڈر کے ڈبے کے ایک ڈھکن سے ایک اورمنزل بنالی تھی اور ان دونومیں سے باریک پائپ گزارکر اس کے اوپرایک سوراخ دارسوئی لگالی تھی۔ اوندھے پیالے اور پائوڈرکے ڈبے کے ڈھکن کی اساس پر سیمنٹ سے دائرے بنادیے تھے اور ان دائروں کی بنیاد زمین پر بنائے گئے ایک بڑے دائرے کو ٹھہرایاگیاتھا۔یوں سیمنٹ
سے بنایاگیاتین درجوں کا ایک فوارہ وجودمیں آگیاتھاجس کی بنیاد بننے والے پیالے اور ڈھکن، سیمنٹ کی تہوں میں گم ہوگئے تھے ۔فوارے کا وجود تو مکمل ہوگیا لیکن اس کی حقیقت یعنی اس میں اس زورِدروں کا پیدا کرنا جس کے باعث پانی اچھل کر بلندہوجائے ابھی باقی تھا۔ اسکول جاتے آتے، کھاناکھاتے، سوتے جاگتے ایسی تدبیریں سوچتارہتاتھا جن کے باعث اس فوارے میں پانی جاری ہوجائے اور کسی خارجی مددکے بغیراپنی داخلی توانائی سے بلندہونے لگے ۔بالآخر اس کی تدبیرسوجھ گئی۔ ہوایوں کہ ہمارے گھر کے نزدیک ڈاکٹرسلیمان کا کلینک تھا،وہاں میںنے پہلی بارکسی مریض کو ڈرپDrip لگی دیکھی۔ ایک بوتل سے محلول باریک نالی سے گزرکر مریض کے جسم میں منتقل ہورہاتھااور اس کی رفتارکو کنٹرول کرنے کے لیے نالی پر بٹن نماایک ریگولیٹربھی تھا۔یہ منظردیکھ کر مجھے اپنے فوارے میں پانی اچھالنے کے خواب کی تعبیردکھائی دینے لگی ۔جب ڈرپ مکمل ہوجانے کے بعد ضائع کردی گئی تو میںنے اسے اٹھالیاور گھرلے آیا …گھرلاکر چپکے چپکے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے سیمنٹ کے فوارے میں اس پائپ کو یوں نصب کیاکہ پائپ کہیں دکھائی نہ دے۔ فوارے سے نکلتے ہوئے اسے زمین میں دباکر اس پر بھی سیمنٹ کردیا۔اس گلستان کے دروازے پر شیشے کا ایک بورڈ بھی نصب کردیاتھا جس کے لیے شیشے کا ٹکڑا انگوٹھیوں کی ایک ڈبی کے ڈھکن سے حاصل کیاگیاتھااور جس پر محلے کے ایک پینٹر سے جو ہمارے کرائے داربھی تھے ’’گلستان عامر‘‘کے الفاظ بھی لکھوالیے تھے ۔رات کو اس بورڈ میں بجلی کا ایک ننھا بلب بھی جلایاجاتاتھا ،یہ گلستان، گھر کے صحن میں جس جگہ بنایاگیااس کے عقب میں چھت کی جانب جانے والازینہ تھا۔زمین میں چھپایاہوا پائپ اس زینے تک پہنچاکر چھت تک لے جانے کا منصوبہ بنایا لیکن پائپ اتنا طویل نہیں تھاکہ چھت تک پہنچ سکتا ،ناچار ڈاکٹرسلیمان کے کلینک پر کسی اور ایسے مریض کی آمد کا انتظارکھینچنا پڑا جسے ڈرپ لگانا ضروری قرارپائے اور اس کے بعداس ڈرپ کا فاضل پائپ اپنے لوازم کے ساتھ مجھے مل جائے ۔چونکہ زینہ اونچا تھا اور ایک ڈرپ میں استعمال ہونے والا پائپ کم طویل، اس لیے مجھے ایسے کئی مریضوںکا انتظارکرناپڑا لیکن بہ ہر حال ایک ایساوقت آہی گیاجب مجھے چھت تک پہنچانے کے بہ قدرپائپ میسرہوگیااور میںنے اسے فوارے سے لے کر چھت تک پہنچاکر دم لیا۔ چھت پر پہنچ کر پہلے تو گلوکوزکی وہ بوتل اس پائپ سے جوڑی گئی جس سے یہ پائپ جداکیاگیاتھا لیکن اس میں چونکہ پانی کی معمولی مقدار سماسکتی تھی اس لیے جلد ہی اسے ترک کرکے میںنے چھت کی دیوارپر سیمنٹ سے ایک ننھاحوض بناکرپائپ کواس کی بنیاد میں پیوست کردیا۔ اب جب اتنی بلندی سے پانی آتا تو اس میں خاصی توانائی ہوتی اور فوارے میں لگی ہوئی سوراخ دار سوئی سے نکل کر پانی بہت بلندی تک جاتا،۔طرہ یہ کہ پانی کی رفتاراور آمدوشدکو کنٹرول کرنے کے لیے زمین میں ریگولیٹر بھی نصب تھااور اس کے پیچھے کارفرما پائپ کا کہیں کوئی نشان نہیں تھا۔اب گھر میں آنے والے مہمان اس فوارے کو دیکھ دیکھ کرحیران ہوتے اورمجھ سے پوچھتے کہ یہ پانی کہاں سے آرہاہے …؟ بھائی صاحب کے ایک اوورسیر دوست خالدحسن بلوچ صاحب کا اس معمے کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوجانااور یہ کہنا کہ آج میں اس پانی کی آمدکا راز دریافت کیے بغیر نہیں جائوں گا، مجھے بلکہ سب گھروالوں کواب تک یادہے ۔یہ تو ان سطور کے ناچیز راقم کے فوارے کا حال تھاجو تکمیل کو پہنچنے کے بعد اس کے دورطالب علمی ہی میں اپنی بہاردکھاکر ٹوٹ پھوٹ بھی گیا۔روم میںتریوی کے فوارے کابانی ۱۷۵۱ء میں اس وقت دنیاسے رخصت ہوگیا جب کہ ابھی فوارہ نامکمل تھا ۔فوارہ ۱۷۶۲ء میں مکمل ہوااور اسے دیکھنے کے لیے میں اور حذیفہ ۲۰۱۸ء میں روم پہنچے ۔
پرائمری اسکول کے زمانے سے فواروں سے میری دلچسپی کا جو سفرشروع ہواتھاوہ جاری رہااورپھر میںنے بہت فوارے دیکھے۔شالامار باغ کے فوارے،جلوپارک لاہور کے رقص کرتے فوارے ، مشرق ومغرب کے فوارے، یورپ اور مشرق بعیدکے فوارے، ماریشس جیسے دوردراز جزیرے کے فوارے، یونان کے فوارے، مصر کے نافورے ، سوئٹزرلینڈ کے دارالحکومت جنیواکے فوارے Jet d’Eau, Geneva اور جاپان کے شہر اوساکاکے فوارے Floating Fountains, اور اصفہان کے نقش رستم اوردوبئی میں برج خلیفہ کے فوارے جنھیں روشنیوں اوررنگوں نے ایسا رقص سکھایاہے کہ انسان بھی اس پر رشک کریں، خودتریوی کایہ فوارہ جسے دوسرے بہت سے فواروں پر فوقیت حاصل ہے ۔تریوی کا فوارہ روم کی پہچان ہے اور متعدد یورپی فلموں میں ظہورکرچکاہے ۔اس فوارے میں تین سکے پھینکنے کی روایت پر ۱۹۵۴ء میں الگ فلم بھی بن چکی ہے جس کانام ہی فوارے میں تین سکے (Three Coins in the Fountain)تھا۔جہاں تک تریوی کا تعلق ہے توخودیہ لفظ بھی تین کا مفہوم رکھتاہے۔ یہ اس ڈسٹرکٹ کا نام بھی ہے اورروم میں جس جگہ یہ فوارہ بنایاگیاہے وہاں تین سڑکیں مل رہی ہیں لیکن یہ تو ایک ظاہری بات ہے۔ کون کہہ سکتاہے کہ یہ نام رکھتے ہوئے دانایان فرنگ کے نزدیک اس لفظ کا مذہبی پس منظر نہیں ہوگا۔بہ ہر حال اسلام پورہ سرگودھامیں ’’گلستان عامر‘‘ کے فوارے سے تریوی کے اس فوارے تک ،فواروں سے میری دلچسپی ہنوزقائم ہے اور لاہورمیں میرے گھرکے لان میں روشنیاں اور پانی بکھیرتا فوارہ آج بھی اس کا ثبوت فراہم کررہاہے ۔
ادھر نہ دیکھ ادھردیکھ اے جوان عزیز
بلندزورِدروں سے ہواہے فوارہ

تبصرے بند ہیں.