غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ ……

166

عرصہ دید سے وقفہئ نیند کو منہا کر کے جو بچتا ہے وہ تخلیقی جوہر ہے۔ لفظ جب تک آب بیتی کے دریا میں تربتر نہ ہو جائیں معافی کا پیراہن نہیں بن سکتے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ عبوری دور ملتا ہے جس میں ایک نظام کے تہہ وبالا ہونے کے سرے پر اور دوسرے نظام میں داخل ہونے سے قبل والی اُتھل پتھل ہے۔ ایک چیز جو مستحکم ہے وہ قلم کا رکی بے قدری ہے اسے کسی زمانے میں زوال نہیں آیا، یہ ہمیشہ عروج پر رہتی ہے۔ یہ سطحی سوچ کو رنگین کاغذ کے پُرزوں پر اُڑائے پھرتی ہے اور تخلیق کار کا گلہ گھونٹ کر اس کی میت کو اشتہاروں کے بقیہ جات میں چسپاں کر دیتی ہے۔
غالب نے صحت کا نوحہ لکھتے ہوئے کہا تھا کہ ”ناتوانی“ بہت طاقتور ہورہی ہے تو یہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ جس قدر اس تخلیق کار کی اپنے زمانے میں ناقدری ہوئی وہ آج بھی جاری ہے۔ اسے نہ سمجھنے کا مرثیہ اپنی جگہ مگر اس کے عہد کے دیگر شعراء کو اس پر سبقت دینا اجتماعی بدذوقی کا بھی امین تھا۔
ایک یونیورسٹی میں جانا ہوا، وہاں کے وی سی صاحب کہہ رہے تھے سارا کلام میرے سر سے گزر جاتا ہے جو اباً ان کے طلباء قہقہے لٹا رہے تھے۔ موصوف کو حکومت نے اس سر سے گزر جانے والی ادا کے سبب تمغات سے مزین کیا ہوا ہے۔ ایوارڈ دینے والے بھی ویسے لینے والے بھی ویسے ایسے میں کوئی کوئی ہم مزاج قدردان قلم وحرمت دکھائی دے جائے تو غنیمت لگتا ہے۔
چراغ سحری چند ہیں وہ بھی بجھنے کو آگے ماشاء اللہ مکمل اندھیرا ہے۔ کوئی طرح مصرعہ کہنا تو دور کی بات جملہ مکمل املاء کے ساتھ درست لکھنا اور گرائمر کا ٹھیک ہونا بھی ناپید ہے۔ ایک جریدے کے موقر عہدے دار مجھ سے کہہ رہے تھے آپ کی تحریر پڑھنے اور پروف دیکھنے والا بندہ نہیں آیا۔ میرے استفسار پر بتایا گیا کہ کوئی بزرگ ہیں، محض وہ میری ادبی تحریری پڑھ سکتے ہیں۔ خود کو کافی کم کر کے لکھتی ہوں مگر بندہ الٹا زینہ اُترے بھی تو آخر کتنا؟
تحریروں میں کسی نثرپارے کا تماشا بن جانا ایسا ہی لگتا ہے جیسے غالب کو دوبارہ سفر کلکتہ کرنا پڑ گیا ہو، وہی ساڑھے سات سو مشاہرہ سالانہ وراثت میں زبردستی کے حصہ دار مشاعروں میں چشمک اور چوٹیں
جیسے ہر غم کو ہم غم حسین میں چھپا دیتے ہیں ویسے ہی بے توقیریئ غالب میں اپنی تذلیل کو بھی دھو لیتے ہیں۔
اس بار ربیع الاول کی شان میں نعت مبارک لکھتے ہوئے پنجابی میں (باقی صفحہ 5بقیہ نمبر1)
بھی اذنِ نعت ہوا جو بہت آسودگی کا باعث ہوا۔
”کالی کملی دے چانن نال شجرے میرے دھل جاندے نیں“ یہ جو حرف صوت کا حسب نسب ہے اسے حسب نسب والے سمجھتے ہیں۔ دیگری کو دلبستگی سے بھی معاملہ رہتا ہے۔ کوئی ایک آشنا آواز والا پرندہ کوئی دلپذیر داد کوئی محترم نظر سارے ازالے کر دیتی ہے۔
اہل سیاست آج کل الجھے پڑے ہیں۔ بڑے بڑوں کے پاس جواب نہیں بن پاتا۔ ہر لفظ واپس منہ کو آتا ہے۔ کہتے ہیں اپوزیشن کے پاس کچھ نہیں، درست تو ایسے میں آپ کو زیادہ توانا دکھنا چاہیے تھا۔ اپوزیشن مری مُکی ہے تو اس کی مکمل شکست پر بھی فتح کا محل نہ تعمیر ہوسکا۔
مکمل سرنڈر کی صورتحال ہے نہ کوئی جلسہ ہوا نہ جلوس، نہ وہ کل جماعتی دعوے نہ لانگ مارچ لیڈر باہر اور مقدموں میں اب تو مرزا صاحباں والی صورتحال ہوئی چاہتی ہے۔
گلیاں ہو جاؤن سنجیاں
وچ مرزا یار پھرے
سب اہتمام میسر ہیں مگر مجبوریاں ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آئیں، بیڑیاں ہیں کہ کٹتی نہیں دن ہیں کہ گزرتے نہیں کہانیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ قصہ گو کہانی میں کوئی نیا موڑ بھی تو نہیں ڈال رہا۔
ہمہ وقت خبروں کی شوقین محفل آرائی کی تمنائی عوام بور ہورہی ہے۔ مہنگائی اس کے علاوہ ہے۔ شاپنگ ہمارے ایسے بھی بند کر گئے، لوگ تو دال سبزی کو ترستے ہیں ابھی آئیڈیالوجی اور ان کی نوجوانی باتیں باقی ہیں۔ ہر مسئلے کے جواب میں گزشتہ والوں کی جو تم پیزا جب وہ بل میں منہ چھپا گئے آپس میں لڑ لیے تو اب کیا کیجئے……!
لہٰذا مسائل کا حل اپنی زندگی کی کہانیوں اور مختلف کمیٹیاں بنا کر کیا جارہا ہے۔ اگر یہ کمیٹیاں اور کمیشن بھی تھک گئے تو آئندہ وقت کو کِل (Kill) کرنے کے لیے ان کمیشنوں / کمیٹیوں پر بالا نشیں کمیٹیاں بٹھائی جاسکتی ہیں۔ گھبرانا نہیں۔
زندگی میں پیچھے جھانک کر دیکھیں تو ایسا کوئی کام نہیں کیا جس کی حسب توفیق سزا نہ ملی ہو ایسا لگا جیسے کسی امتحان گاہ میں بٹھا دیا گیا ہو اور ممتحن کی محض ہماری خامیوں پر نظر ہو۔ خوبیاں تو یوں نظرانداز ہوئی ہیں کہ بس خیر اس کی رمز ہم یہ ڈھونڈتے ہیں کہ پروردگار کو معلوم ہے تخلیقی کاموں کے لیے غم کس قدر ضروری ہیں اور ہر رنگ ونسل کے غم اور مزیدبراں ان رنگوں کے شیڈ پھر ان شیڈز سے بننے والے گھلے ملے رنگوں والے دکھ ایک قلمکار کے لکھنے کے لیے کس قدر ضروری ہیں۔
ہنجو ہنجواں دے وچ رلدے
غم غماں وچ گھل جاندے نیں
سب مسئلوں کا ایک ہی حل …… نواب ٹیوب ویل یعنی غالب کی ایک غزل جو ان کے دیوان میں شامل نہیں، ان کے زمانے کے معروف گویّوں کے بیاض سے دستیاب ہونے والی دلی کے گلی کوچوں میں گائی جانے والی غزل جس کی تحقیق پر حکیم چند نیئر نے گہرا خلاصہ کیا ہے۔
ہر جستجو عبث جو تری جستجو نہ ہو
دل سنگ و خشت ہے جو تری آرزو نہ ہو
وہ آہ رائیگاں ہے نہ لگ جائے جس سے آگ
ان آنسوؤں پہ خاک کہ جن میں لہو نہ ہو
ممکن نہیں ہے حسن حقیقت کا دیکھنا
آئینہ مجاز اگر روبرو نہ ہو
جی بھر کے خوب حسرت وارماں کو رو چکا
اب آرزو یہ ہے کہ کوئی آرزو نہ ہو
غالب نماز عشق کی مقبولیت محال
جب تک کہ اپنے خونِ جگر سے وضو نہ ہو
صوفیہ بیدار

تبصرے بند ہیں.