واشنگٹن: امریکی سپریم کورٹ میں آج ایک انتہائی اہم کیس کی سماعت ہونے جا رہی ہے۔ اس کیس میں گوانتاناموبے کے قیدیوں پر بہیمانہ تشدد کی تفتیش کا کہا گیا ہے، تاہم امریکی حکومت اسے قومی راز قرار دے کر اس سے جان چھڑانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے انڈیپینڈنٹ اردو کے مطابق یہ کیس گوانتاناموبے کے سابق قیدی ابوزبیدہ کی جانب سے دائر کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی درخواست میں امریکی عداکت عظمیٰ سے کہا ہے کہ اس قید خانے سے منسلک ماہرین نفسیات کو بطور گواہ پیش ہونے کا پابند کیا جائے کیونکہ انہیں کے بیانات کی روشنی میں دنیا پر آشکار ہوگا کہ امریکا کس طرح بے قصور افراد کیساتھ انسانیت سوز سلوک کرتا رہا۔
خیال رہے کہ ابوزبیدہ نامی اس قیدی کو 2002ء میں پاکستان سے گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس قیدی کو سی آئی اے کے اہلکار دنیا بھر میں قائم اپنے اڈوں پر لے جا کر بدترین تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ اس کا تعلق القاعدہ سے ثابت کیا جا سکے اور سانحہ نائن الیون میں ملوث افراد کی کڑیاں مل سکیں۔ مگر سالوں تک محبوس رکھنے کے باوجود یہ قیدی دہشتگرد ثابت نہ ہو سکا۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ امریکی مظالم کا شکار رہنے والا یہ قیدی دراصل سعودی نژاد فلسطینی شہری ہے اور اس کا اصل نام زین العابدین محمد حسین ہے تاہم سی آئی اے کی قید میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یہ شخص القاعدہ کا رکن ابو زبیدہ ہے، اس کی عمر اب لگ بھگ پچاس سال ہو چکی ہے۔ اسے چار سال تک بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر 2006ء میں گوانتاناموبے جیل میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ابوزبیدہ کو نائن الیون حملوں کا اہم منصوبہ ساز قرار دے کر سخت تکنیکوں سے اذیت ناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان میں جسم پر گولی مارنا اور واٹر بورڈنگ کی سخت ترین تفتیش بھی شامل تھی۔ بعد ازاں سی آئی اے نے تسلیم کیا ابوزبیدہ القاعدہ کا رکن ہی نہیں ہے لیکن اس کی قید پھر بھی جاری رہی۔
ادھر امریکی حکومت چاہتی ہے کہ گوانتاناموبے سے تعلق رکھنے والے دو ماہرین نفسیات کی عدالت پیشی کو جہاں تک ممکن ہو روکا جائے، اس معاملے کو ملکی سلامتی اور راز افشا ہونے سے جوڑا جا رہا ہے۔
تبصرے بند ہیں.