ابھی جاں باقی ہے!

188

میرے لڑکپن کی بات ہے ایک دوست نیاز خان عرف لالو کی سیٹلائٹ ٹاؤن مارکیٹ گوجرانوالہ میں نان کلچے کی دکان تھی۔ایک دبلا پتلا جگراتوں کا مارا ہوا جوان آدمی آیا۔ اس نے کہا میری مدد کیجیے برابر میں مارکیٹ میں معروف ڈاکٹر کا ہسپتال ہے جس میں اس کا بیٹا دم توڑ گیا۔ چند دن ہسپتال میں رہا جو کچھ تھا وہ لگا بیٹھا ہوں، چند ہزار کا بل باقی ہے،میرے بیٹے کی میت پڑی ہے مگر ڈاکٹر صاحب اور ہسپتال انتظامیہ کہتی ہے پہلے واجبات ادا کریں پھر آپ کو میت ملے گی۔
باغی مزاج تو میں بچپن سے ہی تھا اس وقت اتنے پیسے میرے پاس تو نہیں تھے اور چندہ کر کے مدد کرنا مجھے پسند نہیں تھا پھر ایک مجبور اور دکھی باپ کو بیٹے کی موت کے صدمے میں مبتلا پا کر مدد مانگنے کی ذلت سے دوچار کرنا بھی گوارا نہیں تھا میرے ذہن میں اس وقت کوئی اور تدبیر نہ آئی میں ڈاکٹر صاحب کے کار خاص طفیل کمپاؤڈرکے پاس گیا۔ بچے کا باپ اور لالو خان بھی ساتھ تھا۔ میں نے کمپاؤڈر سے کہا طفیل اس مسکین کے پاس جو تھا وہ آپ لوگوں کو دے چکا ہے اب اس کے بیٹے کی میت آپ کے پاس ہے یہ میرے پاس آیا ہے کہ میں واپس اپنے گھر جانا چاہتا ہوں۔ میرے پاس کرایہ نہیں ہے جبکہ بیٹے کی میت یہ یہیں چھوڑے گا۔ آپ لوگ اس کو دفنا دینا۔ طفیل فوراً ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا اور واپس آ کر کہنے لگا کہ آپ شہزادہ صاحب (حاجی صاحب) کے بیٹے ہیں اور ڈاکٹر صاحب سے آپ کے ابا جی کے برادرانہ تعلقات ہیں۔ آپ مہربانی کریں، ہسپتال کی شہرت خراب ہو گی میں نے متوفی کے والد کو کلائی سے پکڑا اور کہا کہ ہم جا رہے ہیں متوفی کو آپ دفنا دینا اور آپ لوگوں کے لیے بہتر ہو گا ان مریضوں اور مسکینوں سے زندگی کی آخری پونجی تک نچوڑ لیں جن میں ”ابھی جاں باقی ہے“۔ انہوں نے منت سماجت کر کے میت واپس کر دی، لالچیوں کی رگ رگ سے واقف ہوں کہاں واجبات مل نہیں رہے اور الٹا ان کو تدفین کا خرچہ اٹھانا پڑ جائے پھر بدنامی کہ کوئی گالی کے بغیر نام نہ لیتا۔ یہ واقعہ اس لیے یاد آیا کہ ہماری پاکباز ”نیک و کار“ حکومت عوام کے حالات سے واقف نہیں یا عوام کے دکھوں سے واقف بھی ہو گی مگر زخموں پر نمک چھڑکنے کی حرکات سے باز نہیں آتے۔ بے حسی، ظلم کا اگلا درجہ ہے۔ چائنہ کے صدر سے20 ماہ سے بات چیت نہ ہو سکی، امریکی صدر فون نہیں کر رہے، مودی فون سنتا نہیں، افغان حکومت سازی میں مداخلت برداشت نہیں کرتے، مغرب ناراض ہے جس کے ساتھ ہماری تمام ایکسپورٹ ہے اور گلف خود مغرب کے تابع ہے، اِدھر ٹی ٹی پی سے مذاکرات جاری ہیں، دنیا میں تنہائی کا شکار ہیں، ضد طوالت اقتدار آئین اور قانون بن گئی، ملک کے اندر اپوزیشن سے حکومت پارلیمانی نظام میں بھی بات کرنے کو تیار نہیں جبکہ بعض کاروبار حکومت اور فیصلہ جات میں اپوزیشن رہنما کی رائے وزیراعظم کے برابر ہوا کرتی ہے۔ شاید وزیراعظم بادشاہ کے اختیارات چاہتے ہیں۔
ان لوگوں کے ساتھ انقلاب لانا تھا جو اس وقت حکومتی کے اتحادی ہیں؟ پوری دنیا میں 330 اور وطن عزیز سے 700 محبان وطن (جو اقتدار میں ہیں اور رہے ہیں) جبکہ دیگر 29 ہزار محبان وطن پنڈورا لیکس میں اعلیٰ مقام حاصل کر پائے اب دیکھتے ہیں حکومت، عدلیہ،نیب، ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیاں یعنی ریاست کیا کرکرشمہ سازی کرتی ہے اور احتساب کی صورت گری کیا ہوتی ہے؟ میاں محمد نواز شریف تو اپنے سابقہ دور حکومت میں ہی بے اثر بلکہ ملزم اور مجرم ہو گئے تھے۔ 2014ء سے وطن عزیز کی سیاست میں وہی ہوا جو عمران خان نے چاہا اور جو عمران خان کے مخالفین کے خلاف جاتا تھا۔
2013ء میں انتخابات میں یہ تیسرے نمبر پر بھی نہ تھے مگر دھرنے، دعوے، بھنگڑے، دشنام طرازی اس طرح کی جیسے یہ پہلے نمبر پر ہوں۔ 2018ء، 25جولائی انتخابات دراصل 5 جولائی 1977ء کا ہی تسلسل تھا مگر ہائبرڈ نظام کے تحت۔ نہیں جانتا کہ وطن عزیز کی حاکمیت کس کے پاس ہے مگر بیروزگاری، بیماری، اشیائے خورنی اور ادویات، پٹرول ہو یا کوئی اور چیز سامنے ہوتے ہوئے پہنچ سے ایسے دور ہیں جیسے قحط کے زمانے چل رہے ہوں۔ وطن عزیز کی تاریخ میں سب سے زیادہ بولنے والے وزیراعظم فرماتے ہیں مہنگائی عارضی ہے۔ حضور! ویسے تو یہ زندگی ہی عارضی ہے اور آپ کی حکومت تو خیر بالکل ہی عارضی ہے۔ اس کو دائمی کرنے کے لیے بیرون ممالک پاکستانیوں کے جذبات سے کھیلنا، EVM مشینوں کے ذریعے انتخابات،
چیئرمین نیب کی تقرری یا توسیع، ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہی قوت کا سرچشمہ ٹھہرے۔ وطن عزیز کی گاڑی پر تو آپ ڈرائیونگ نہ سیکھیں۔
جے ناں اترئیے یار دے نال پورے
ایڈے پٹنے ناں سہیڑیئے نی
وارث شاہ جے پیاس نہ ہووے اندر
شیشے شربتاں دے نہ چھیڑئیے نی
اگر وعدے نہ نبھا پائیں اور اہلیت اور شعور نہ ہو توگلاس توڑا بارہ آنے والا معاملہ نہ کریں جو کام نہیں آتا اس کی خواہش نہیں کرنی چاہیے بندہ جتنے جوگا ہو جیسا ہو اس کو اس سے بڑھ کر بڑھک نہیں مارنی چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ اس میں ہم عوام کا بھی قصور ہے۔ ہمیں پتہ تھا کہ 1977ء کی تحریک گریٹ بھٹو کی مخالفت میں دھاندلی کا بہانہ بنا کر چلائی اور تحریک نظام مصطفی کا نام استعمال کر کے گرمائی گئی۔ ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کا کردار اپنی جگہ تاریخ کا سیاہ باب ہے مگر عوام بھی تو سمجھدار تھے۔ ظاہر تھا نواز شریف محترمہ بے نظیر بھٹو شہیدؒ کا کسی طور متبادل نہ تھے مگر بنا دیا گیالیکن جب وقت نے میاں نواز شریف کو مسلمہ رہنما بنا دیا تو دربدر کر دیئے گئے۔ اس ملک میں جو کچھ ہوا عوام و میڈیا واقف تھے اورجانبدار بھی۔ خوبیوں خامیوں حق اور باطل سے بھی بخوبی واقف تھے اور اب بھی ہیں۔مگر کیا کریں وطن عزیز دنیا کا واحد ملک ہے جس میں سیاست، نفرت، الزام تراشی، دشنام طرازی، کردار کشی پر ہوتی ہے۔ پالیسیوں، طرز عمل اور منصوبہ سازی پر نہیں۔ اقتدار کی رسہ کشی، اختیارات میں تجاوز و طوالت نے اب وطن عزیز اور اس کے عوام کی وہ حالت کر دی ہے کہ احتجاج کی قوت بھی باقی نہیں رہی۔ ظلمتوں، ذلتوں، بربریتوں کی دلدل میں گھرے عوام حکمران طبقوں، قذاقوں، کذابوں کے ہاتھوں اس طرح ادھ مونہے ہو گئے کہ ان میں احتجاج کی سکت نہیں بالآخر اس متوفی کے والد کی طرح میت کی واپسی کے لیے در بدر ہوں گے وہ تو مر گیا مگر جو زندہ ہیں وہ سکولوں، کالجوں کی فیسوں، پٹرول، ادویات، اشیائے خورنی حتیٰ کہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو حسرتوں میں بدلتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ زندگی اور موت کا فرق مٹ چکا، دیکھتے ہیں توشہ خانہ، فارن فنڈنگ، مالم جبہ، بی آر ٹی، پنڈورا لیکس کا کیا بنتا ہے،جو بھی حکمران ہے عوام کہتے ہیں تم اپنی ظلمتوں، بے حسیوں، موج مستیوں،دروغ گوئیوں اور عوام پر ستم ظریفیوں کی حد سے آگے گزر جاؤ کیونکہ ”ابھی جاں باقی ہے!“

تبصرے بند ہیں.