مادر ملت ثانی کلثوم نواز

128

محترمہ بیگم کلثوم نواز 1950 ء میں لاہور کے کشمیری گھرانے میں ڈاکٹر حفیظ بٹ کے ہاں پیدا ہوئیں ۔ڈاکٹرصاحب حافظ قرآن اور دین دار شخصیت تھے ۔کلثوم نواز کی تربیت اسلامی ماحول میں ہوئی اور بچپن ہی سے اسلامی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ البنات سے حاصل کی جس کے بعد انہوں نے میٹرک لیڈی گریفن سکول سے کیا ۔میٹرک کے بعد انہوں نے اسلامیہ کالج سے پری میڈیکل جبکہ ایف سی کالج سے بی ایس سی اور پنجاب یونیورسٹی سے اُردو آدب میں ماسٹر کیا ۔ بیگم کلثوم کی 2اپریل 1971ء کو محمد نواز شریف کے ساتھ شادی ہو ئی ۔ شادی کا یہ بندھن دونوں کے لئے بڑا مبارک ثابت ہوا ۔ اس بندھن میں بندھتے ہی محمد نواز شریف پرکامیابی اور ترقیوں کے دروازے کھلتے چلے گئے ۔محمد نواز شریف اور کلثوم نواز کے دوبیٹے حسین ، حسن اور دوبیٹیاں مریم اور اسماء ہیں۔ 1981ء میں پہلی مرتبہ جب محمد نواز شریف وزیر خزانہ بنے تو تقریر بیگم کلثوم نوازصاحبہ نے لکھی تھی اس کے بعد بھی تقریریں بیگم صاحبہ لکھتی تھیں اور اُنہیں ریہرسل بھی کرواتی تھیں۔ بیگم کلثوم نواز کو تین مرتبہ خاتو ن اول بننے کا اعراز حاصل ہے ۔محمد نواز شریف سے شادی کے بعد اور تین بار خاتون اول رہنے کے بعد بھی ان کی طبیعت میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ شفقت ، محبت ،شرافت، قناغت ،سخاوت ،تحمل اور برداشت مرحومہ کی زندگی کی قیمتی اثاثہ تھے۔ حاجت مندوں کی مالی معاونت کرتی تھیں۔بیگم کلثوم نواز کے سیاست میں آنے کا فیصلہ ان کے سسر میاں محمد شریف کا تھا اور ان کا یہ فیصلہ درست اور دوراندیش ثابت ہو ا ۔ کلثوم نواز کی سیاسی جدوجہد کارکنوں کیلئے مشعل راہ ہے۔
12اکتوبر 1999ء کو جب ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے منتخب حکومت پر شب خون مارا اور اس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف کو خاندان سمیت نا صرف نظر بند کیا گیا بلکہ ان کے خلاف بے بنیاد مقدمات درج کرکے انہیں سزا بھی دلوائی ۔ یہ وہ دور تھا جب ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے نیب کے ذریعے مسلم لیگ سے ہم خیال لیگ بنائی جس کے بعد مسلم لیگ کے اہم لیڈر اپنے قائد محمد نوازشریف کا ساتھ چھوڑکر پرویز مشرف کے ساتھ مل گئے اور ہم خیال لیگ میں شامل ہوگئے ۔ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا خیال تھا کہ محمد نواز شریف کی سیاست کو ختم کردیا گیا ہے لیکن یہ اُس وقت اُن کی خام خیالی ثابت ہو ئی جب بہادر خاتون بیگم کلثوم نواز کو جون 2000ء میں مسلم لیگ (ن) کا قائم مقام صدر بنا دیا گیا ۔محمد نواز شریف کے وفادار ساتھیوں نے کلثوم نواز کا بھر پور ساتھ دیا اورہر قسم کی مشکلات برداشت کرکے جیلیں بھی کاٹیں لیکن اپنے قائد محمد نوازشریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کیا ۔جب ڈکٹیٹر کے ایماء پر محمد نواز شریف کو سزائیں دلوائی گئیں تو ان انتقامی کارروائیوں کے خلاف کلثوم نواز نے لاہور سے تحفظ پاکستان ریلی نکالی۔ جی او آر ون میں پولیس نے اُنکی گاڑی کو کرین کے ذریعے اُٹھایا اور انہیں ریلی کی اجازت نہیں دی ۔ بیگم صاحبہ کئی گھنٹے تک گاڑی میں محصور رہیں لیکن آمریت کے خلاف گھٹنے نہیں ٹیکے۔ لاہور کے چودھری برادران نے انکا ساتھ دینے سے انکار کیا اور ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ گئے۔ اس دوران خود کو فرزند پاکستان کہنے والے شیخ رشید نے بھی محترمہ کو اپنے گھر لال حویلی میں جلسہ کرنے کی اجازت دینے سے معذرت کی ۔ ایسے حالات میں جب راولپنڈی میں ان کا پروگرام کرانے کو کوئی تیار نہیں تھا تو پنڈی کے مرد مجاہد چودھری تنویر نے بیگم صاحبہ کو اپنا گھر پیش کردیا اور آمر کے خلاف جلسہ کیا جس کی پاداش میں انہیں نیب کے ذریعے گرفتار کیا گیا اور دوسال تک قید وبند کی سزا کاٹی ۔گوجر خان میں چوہدری محمد ریاض نے بیگم صاحبہ کا تاریخی استقبا ل کیا اور ان کی رہائش گا ہ پر جلسے سے خطاب کیا چو ہدری تنویر اور چوہدری محمد ریاض کے کامیاب جلسوں کے بعد بیگم صاحبہ کی حوصلے بڑھ گئے ۔بیگم صاحبہ کیساتھ سخت وقت میں مخدوم جاوید ہاشمی اور بیگم تہمینہ دولتانہ نے بھر پور ساتھ دیا ۔ جب دسمبر میں کلثوم نواز اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ پشاور گئیں تو اس وقت مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر پیر صابر شاہ نے بیگم صاحبہ کا فقید المثال استقبال کیا ۔کلثوم نواز صاحبہ نے خود اپنی کتاب ــ’’جبر وجمہوریت ‘‘ میں صفحہ نمبر33میں تحریر کیا ہے 7دسمبر کو پشاور گئی صابر شاہ اور سرانجام خان کی طرف جانا ہوا ۔ ان دونوں کے ثابت قدم رہنے کے عزم نے مجھے بڑا حوصلہ دیا جب مسلم لیگ سرحد کے اجلاس میں صابر شاہ نے میرے سر پر دوپٹہ رکھنے کی پختون رسم ادا کی تو اس وقت انہوں نے کہا کہ ہم نے سر پر دوپٹہ رکھ کر مرنے کی قسم کھائی ہے ۔ ان تمام افراد کا جذبہ اور عمل میری توقعات سے کہیں بڑھ کر تھا ۔ بیگم صاحبہ نے پورے ملک میں مشرف آمر یت کے خلاف عوام کو متحرک کرنے کے لئے لاہور سے چاغی کا سفر کیا ۔چاغی کا راستہ ویران اور دشوار گزار بھی تھا ،سخت گرمی کا موسم تھا ،چاغی کے صحرائی اور پہاڑی علاقے میں آگ برس رہی تھی لیکن اس کے باوجو د لوگوں نے ہر جگہ پر بیگم صاحبہ کا استقبال کیا اور حکومتی رکاوٹوں کے باوجود بھی لوگ بیگم صاحبہ کے استقبال کیلئے چاغی پہنچے تھے ۔
جب سپریم کورٹ نے وزیراعظم محمد نواز شریف کو نااہل کر دیا اور انہیں قومی اسمبلی کی نشست NA-120سے بھی محروم کر دیا گیا تواس کے بعد بیگم کلثوم صاحبہ کو NA-120سے الیکشن لڑنے کیلئے سیاست کی میدان میں اتار دیا گیا اور ان کی بیٹی مریم نواز نے انکی انتخابی مہم چلائی جس کے نتیجہ میں بیگم صاحبہ الیکشن جیت گئیں ۔ بیگم صاحبہ علیل ہو نے کی وجہ سے لندن میں زیر علاج تھیں۔ وہ لندن کے ہارلے سٹریٹ کے کلینک میں کینسر کے خلاف طویل جنگ لڑ رہی تھیں۔ محمد نواز شریف اور فرمانبردار بیٹی مریم نواز اور بیٹے حسین نواز اور حسن نواز بھی ہسپتال میں بیگم صاحبہ کی تیمارداری میںمصروف تھے لیکن جب احتساب عدالت نے محمد نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر)محمد صفدر کے خلاف سزا کا فیصلہ سنایا تو محمد نواز شریف اور مریم نواز نے بیگم صاحبہ کو سخت بیماری کی حالت میں وینٹی لیٹر پر لندن میں چھوڑ کر وطن واپس آئے اور جیل گئے۔ جوانمردی اور بہادری کے ساتھ جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے ۔محمد نواز شریف کو زندگی سے بڑا دکھ یہ پہنچا کہ انہیں اپنی بیمار بیگم کے ساتھ آخری دن گزارنے کا موقع نہیں ملا۔11ستمبر 2018ء کو لند ن میں بیگم کلثوم نواز خالق حقیقی سے جا ملی ۔ مرحومہ کو جاتی امرا رائے ونڈ لاہور میں میاں محمد شریف مرحوم کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ بیگم کلثوم نواز کی تیسری برسی گزشتہ روز انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی ۔لیگی کارکنوں کی جانب سے ان کی مغفرت اور بلند درجات کیلئے قرآن خوانی و فاتحہ خوانی کی گئی ۔

تبصرے بند ہیں.