خیال تو تھا کہ پانچ چھ عشرے قبل کے لاہور کے بارے میں اپنے ذہن کے نہاں خانے میں موجود بھولی بسری یادوں اور باتوں کو تازہ کروں گا لیکن آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج سُخن گسترانہ کے طور پر بیچ میں آگئے ہیں۔ ان کا ذکر بھی ضروری ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی کی 45نشستوں کے انتخابی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کو 26نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں 11 اور پاکستان مسلم لیگ ن کو تحریک انصاف کے مقابلے میں ایک چوتھائی سے بھی کم اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں تقریباً آدھی یعنی 6نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کی تاریخی ریاستی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس صرف ایک نشست حاصل کر سکی ہے اور ایک ہی نشست جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی ہے۔ یہ انتخابی نتائج کوئی ایسے چونکا دینے والے نہیں ہیں کہ بعض تجزیوں، تبصروں اور گیلپ سروے میں بھی اسی طرح کے نتائج کی پیشن گوئیاں کی جا رہی تھیں۔ تاہم مسلم لیگ ن کی قائد محترمہ مریم نواز کے بڑے بڑے اور پُر ہجوم انتخابی جلسوں اور بھرپور انتخابی مہم کو سامنے رکھتے ہوئے بعض حلقوں اور مسلم لیگ ن کے حامی تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ نتائج غیر متوقع، پری پول رگنگ، یا پولنگ ڈے پر پولنگ سٹیشنز پر کی جانے والی مبینہ دھاندلی یا مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک مخصوص سیاسی جماعت (پاکستان تحریک انصاف) کی پشت پناہی کا نتیجہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت ان انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر محترمہ مریم نواز نے واضح لفظوں میں کہہ رکھا ہے کہ انتخابی نتائج تسلیم کئے ہیں نہ کروں گی۔ مسلم لیگ ن کے دوسرے قائدین جن میں سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی، سیکرٹری جنرل چودھری احسن اقبال اور آزاد کشمیر کے وزیرِ اعظم راجہ فاروق حیدر وغیرہ شامل ہیں بھی ان انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک کشمیر کا الیکشن عالمی ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ اس میں جمہوری اقدار تباہ کی گئیں اور منی لانڈرنگ کا پیسہ استعمال ہوا ہے۔ زبردست دھاندلی ہوئی ہے جس کے خلاف کشمیر اور بیرونِ ملک تحریک چلائیں گے۔ پیپلز پارٹی جسے مسلم لیگ ن کے مقابلے میں مجموعی طور پر دو لاکھ ووٹ کم پڑنے کے باوجود مسلم لیگ ن کی چھ نشستوں کے مقابلے میں تقریباً دوگنی 11نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ ان انتخابی نتائج کے حوالے سے کسی حد تک مطمئن ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ دھاندلی کے باوجود 11نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزراء فواد چودھری اور علی امین گنڈا پور تواتر سے کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کی پالیسیاں جیتی ہیں اور کشمیریوں نے مودی کے یار کو اور دولت کو شکست دی ہے۔ اپوزیشن اپنی شکست تسلیم کرے اور اگر دھاندلی کا ثبوت ہے تو عدالت میں جائیں۔ بد ترین شکست پر مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو سیاست چھوڑ دینی چاہیے۔
آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج کے بارے میں سیاسی جماعتوں کے قائدین کے یہ بیانات اور میڈیا پر آنے والے مثبت اور منفی تبصرے، تجزیے اور جائزے اپنی جگہ اہمیت کے حامل گردانے جا سکتے ہیں۔ تاہم انتخابات کے حوالے سے انتہائی نچلی سطح یا گراس روٹ لیول پر کچھ ایسے پہلو یا عوامل ہوتے ہیں جن کو تجزیے اور تبصرے کرتے ہوئے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج کے حوالے سے بھی میرے خیال میں کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ یہاں یہ کہنا کچھ ایسا غلط نہیں ہوگا
کہ ان انتخابات کے ضمن میں آزاد کشمیر میں پچھلے پانچ برس سے برسر اقتدار جماعت کی ناقص کارکردگی، تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے اس کے غیر نمایاں کردار، وفاقی حکومت اور مقتدد اداروں سے اس کے رسمی سے بھی کم تر تعلقات نے جہاں اپنا کردار ادا کیا ہے وہاں علاقائی روایات، برادری ازم اور خاندانی سطح پر اثر و رسوخ، روپے پیسے اور سرمائے کی کارفرمائی اور اس کے ساتھ کشمیری ووٹرز کا روایتی طور پر وفاق میں برسر اقتدار جماعت کے امیدواروں کو پذیرائی بخشنا ایسے عوامل اور برسرزمین حقائق ہیں جو یقینا آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوئے ہیں۔
یہاں اس پہلو کا اظہار بھی کچھ ایسا غیر متعلق نہیں ہوگا کہ پولنگ ڈے پر الیکشن کا پورا عمل جس میں ووٹرز کا پولنگ اسٹیشنزپر آنا یا ان کو پہنچانا ان کا آزادانہ، اپنی مرضی سے حق رائے دہی کا استعمال کرنا، پولنگ ایجنٹس کا تقرر، دن بھر کے پورے انتخابی عمل کی نگرانی، بیلٹ پیپرز کا حساب کتاب، بیلٹ باکس سے برآمد ہونے والے بیلٹ پیپرز یا ووٹوں کی گنتی اور مخصوص فارموں پر اُمیدواروں کے ناموں کے سامنے صحیح اندراج، پولنگ سٹیشن کے نتیجے کی ریٹرننگ آفیسر کو بر وقت ترسیل اور اسی طرح کے دوسرے معاملات وغیرہ ایسے ہیں جو اب چھپ کر نہیں بلکہ سب کے سامنے سر انجام پاتے ہیں۔ اسی طرح ہر پولنگ اسٹیشن پر ہر بڑی سیاسی جماعت کے ایک یا دو پولنگ ایجنٹ موجود ہوتے ہیں جو اس سارے عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ پولنگ سٹیشن پر ووٹ ڈالنے میں کوئی دھاندلی ہوئی ہے یا گنتی میں کوئی ہیر پھیر کی گئی ہے تو سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ماضی میں ایسا کچھ ہوتا رہا ہے لہٰذا اب بھی ایسا ہی ہو ا ہو گا۔ چلئے اگر ایسا ہوا بھی ہو تو اس کے شواہد سامنے لائے جانے چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ آزاد کشمیر کے الیکشن کے حوالے سے ان نکات کو سامنے رکھتے ہوئے نہایت ادب سے یہ گزارش کی جا سکتی ہے کہ خواہ مخواہ کی الزام تراشی، اپنی کمزوریوں، خامیوں، کوتاہیوں اور ناقص کارکردگی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی ناکامی کے لیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانا یا اسٹیبلشمنٹ یا مقتدر حلقوں کو ہر معاملے میں ذمہ دار قرار دینا یا بغیر سوچے سمجھے یا جان بوجھ کر اسٹیبلشمنٹ یا مقتدر حلقوں (جس سے کھلے یا دبے لفظوں عسکری قیادت کی طرف اشارہ ہوتا ہے) کے بارے میں کہہ دینا یا کہتے رہنا کہ ہار جیت ان کی وجہ سے ہوئی ہے کوئی ایسی مناسب بات نہیں اور نہ ہی اس سے ملک و قوم اور جمہوریت کی کوئی خدمت ہوتی ہے البتہ اس سے ملک و قوم اور ریاست کے مستقل اداروں کی بدنامی اور جگ انسائی ضرور ہوتی ہے۔
”ووٹ کو عزت دو“مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کے بیانیے کا مرکزی نقطہ ہے۔ یقینا اس کی پذیرائی ہونی چاہیے اور اس پر عمل بھی ہونا چاہیے۔ تاہم اس سے جڑی یہ حقیقت بھی ہے کہ اس کا سبھی کو خواہ ان کا تعلق مسلم لیگ ن کے سیاسی مخالفین سے ہو یا اسٹیبلشمنٹ یا مقتدر حلقوں سے ہو یا خود مسلم لیگ ن کے اپنے قائدین اوریمین و یسار سے ہو وہ یہ کہ سب کو ہر صورت میں ووٹ کو عزت دینی چاہیے۔ یہ نہیں کہ اپنے حق میں ووٹ پر جائیں تو آمنا و صدقنا اور سب کچھ قبول ہے اور اگر مخالفین کے حق میں ووٹ پڑیں تو اسے قبول نہ کیا جائے اور الٹا دھاندلی دھاندلی کا شور شرابا اور ووٹ کی عزت کی پامالی کا رونا شروع کر دیا جائے۔ آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اب سیالکوٹ میں بھی صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے میں ضمنی انتخاب ہوا ہے جہاں تحریک انصاف کے اُمیدوار نے مسلم لیگ ن کے اُمیدوار کے مقابلے میں تقریبا ً7000 ووٹوں کی برتری سے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کامیابی پر اگر دھاندلی کا لیبل چسپاں کرکے رونا شروع کر دیا جائے تو یہ قرین انصاف نہیں ہوگا اس لیے کہ اسی سیالکوٹ کے ڈسکہ کے قومی اسمبلی کے حلقے میں چند ماہ قبل ضمنی انتخابات ہوئے تو وہاں مسلم لیگ ن کے اُمیدوار کے خلاف دھاندلی کے واضح ثبوت سامنے آئے تو الیکشن کمیشن نے ان ضمنی انتخابات کو کالعدم قرار دے کر وہاں دوبارہ الیکشن کا حکم جاری کر دیا جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کے اُمیدوار کو کامیابی ملی۔
آزاد کشمیر کے ان انتخابی نتائج کے بارے میں انتہائی سینئر، معتبر، مستند اور باوقار اخبار نویس، تجزیہ نگار اور کالم نگار محترم سہیل وڑائچ کے کالم ”آزاد کشمیر سے اشارے“کا مختصر حوالہ دیکر بات ختم کر دیتے ہیں۔ جناب سہیل وڑائچ لکھتے ہیں ”آزاد کشمیر سے تحریک انصاف کے لیے مثبت اشارے آئے ہیں۔ ن لیگ کے لیے آنے والے اشارے تشویش ناک ہیں۔ اسے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ دو بیانیوں والی روش آئندہ انتخابات میں کارگر ہوتی نظر نہیں آتی۔۔۔“ آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آزاد کشمیر کے ان انتخابات میں مجھے ذاتی طور پر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے قائد سردار عتیق احمد خان کی 27000ووٹوں کی برتری سے کامیابی کی خوشی ہے تو اس کے ساتھ مسلم کانفرنس کی مجموعی طور پر ناکامی کا دکھ بھی ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.