”جوٹوٹ کر بکھرا نہیں“ ……!

285

ملک کے علمی، ادبی، صحافتی اور معاشرتی حلقوں میں جبار مرزا ایسا نام نہیں ہے جو کسی تعارف کا محتاج ہو۔ آپ بیک وقت مصنف، شاعر، صحافی، وقائع نگار، کالم نگار اور مزاح نگار ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ آپ ایک مورخ اور محقق بھی ہیں تو یہ بھی کچھ ایسا غلط نہیں ہوگا۔ کہنا آسان ہے لیکن بیس کتابوں کا مصنف ہونا، بلا شبہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے، جو جناب جبار مرزا کو حاصل ہے۔ "جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں "،  آپ کی بیسویں تصنیف ہے۔ خوبصورت گیٹ اپ، پر کشش سر ورق، مضبوط جلد، سفید آفسٹ پر معیاری  اور دیدہ زیب طباعت سے مزین 360صفحات پر مشتمل یہ کتاب جس میں مجموعی طور پر تقریباً225 کے لگ بھگ کلر اور بلیک اینڈ وائٹ نادر تصاویر بھی شامل ہیں، حال ہی میں چھپ کر آئی ہے۔ مرزا صاحب کی یہ تصنیف اتنی ہمہ جہت ہے کہ اس کے بار ے میں یہ فیصلہ کرنا کہ اسے ان کی آپ بیتی سمجھا جائے، جگ بیتی خیال کیا جائے، اپنی مرحوم رفیقہ حیات محترمہ شائستہ جبار رانی سے انکی پر خلوص اور وفاء و ایثار میں گندھی محبت، عقیدت اور گہرے لگاؤ کا اظہار تصور کیا جائے، ایک واقعاتی اور حقیقی کرداروں پر مشتمل ناول سمجھا جائے، محترمہ شائستہ جبار رانی مرحومہ اور مرزا صاحب کا اپنا شخصی خاکہ تصور کیا جائے، ہمارے موجودہ متعفن معاشرتی نظام میں حرص و ہوس کے پجاریوں کا جلب زر کو اپنا زندگی کا مشن بناتے ہوئے اس کے لئے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈہ استعمال کرنے کی روداد سمجھا جائے، روحانی پیشواؤں، معالجوِں اور دم درود کرنے والوں کے جھوٹے دعووں کا پوسٹ مارٹم سمجھا جائے یا جناب جبار مرزا کی پر اعتماد، مضبوط اور اجلی شخصت کا پرتو سمجھا جائے یا ان کے وسیع تر تعلقات اور ان سے گہری عقیدت اور لگاؤ رکھنے والے مخلص اور مہربان عزیزوں، رشتہ داروں اور دوست احبات کا تذکرہ سمجھا جائے، غرضیکہ کسی بھی پہلو اور زاویے سے پر کھا جائے تو جبار مرزا صاحب کی یہ تصنیف "جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں ” اس میں پوری طرح فٹ یا سمائی ہوئی نظر آتی ہے۔
یہاں مجھے اردو کے صاحب طرز ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ کے دو شخصی خاکوں "مولوی نذیر احمد
کی کہانی، کچھ میری، کچھ میاں دانی کی زبانی”  اور "ایک وصیت کی تعمیل ”  جو اردو ادب میں شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں کا خیال آرہا ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کو اردو کے مشہور ناول نگار (نثر نگار) مولوی ڈپٹی نذیر احمد کا شاگرد ہونے کا شرف حاصل تھا۔انہوں نے مولوی نذیر احمد کی وفات کے بعد ان کے بارے میں ” مولوی نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری، کچھ میاں دانی کی زبانی”کے عنوان سے ان کے بارے میں مضمون یا شخصی خاکہ لکھا جسے بڑی شہرت ہی نہ ملی بلکہ مولوی نذیر احمد کا نام بھی مزید روشن ہوا۔ مولاناوحید الدین سلیم جو عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن میں اردو کے پروفیسر اور ایک بڑی علمی اور ادبی شخصیت تھے، ان کی مرزا فرحت اللہ بیگ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حسر ت سے اس بات کا ذکر کیا کہ کاش ہمیں بھی آپ ہی کی طرح کا کوئی شاگرد مل جاتا جو ہماری موت کے بعد ہمارے بارے میں کوئی مضمون یا شخصی خاکہ لکھ کر ہمارے نام کو روشن کرنے کی کوشش کرتا۔ اس پر فرحت اللہ بیگ نے ان سے کہا کہ مولانا مر جائیے، مضمون ہم لکھے دیتے ہیں۔ اتفاق کی بات کہ کچھ ہی عرصہ بعد مولانا وحیدالدین سلیم کا انتقال ہو گیا۔ اس پر مرزا فرحت اللہ بیگ نے ” ایک وصیت کی تعمیل”کے عنوان سے ان کے بار ے میں مضمون یا شخصی خاکہ لکھ کران)مولانا وحید الدین سلیم مرحوم)کے نام کو روشن کر دیا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ محترم جبار مرزا کو ان کی وفا کیش اور سراپا خلوص اہلیہ محترمہ شائستہ جبار رانی مرحومہ نے اپنے بارے میں کوئی مضمون یا کتاب لکھنے کی وصیت کی تھی یا نہیں، تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ جبار مرزا نے  "جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں ” کتاب لکھ کر اپنی وفا کیش اہلیہ محترمہ کے نام کو روشن کیا ہے تو ساتھ ہی اپنی شخصیت کی مضبوطی، اعتماد اور پر یقین ہونے کا اظہار بھی سامنے لے کر آئے ہیں۔
"جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں ” کا اردو ادب میں کیا مقام طے ہوتا ہے یا اسے کیا مقام ملتا ہے، اس کے بارے میں صحیح رائے کا ا ظہار کو ئی مستند موقر اور ماہر نقاد ہی کر سکتے ہیں۔ تاہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس کتاب کو وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں جو حوصلہ افزا خیالات اور تبصرے آرہے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ یہ کتاب مقبولیت اور پذیرائی کے نئے ریکارڈقائم کر رہی ہے۔ جناب جبار مرزا وسیع حلقہ ارباب اور حلقہ یاراں رکھتے ہیں۔ پورے ملک میں ان کے قارئین کا حلقہ موجود ہے۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ یہ کتاب زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ محترم جبار مرزا کے حلقہ احباب میں سے بہت سارے مردو خواتین ایسے ہیں جو بڑی تعداد میں اس کتاب کی جلدیں خرید کر آگے تعلیمی اداروں یا اپنے حلقہ احباب  یا اپنے جاننے والوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ یقینااس سے کتاب کی وسیع پیمانے پر پذیرائی کا اظہار ہوتا ہے۔
"جو ٹوٹ کر بکھرا نہیں ”  کے اندرونی سر ورق کا فلیپ مشہور نقاد اور مصنف پروفیسر فتح محمد ملک کا لکھا ہوا ہے۔بیک ٹائٹل کے اندر ” سپاس تشکر و عقیدت کے عنوان سے راقم (ساجد حسین ملک) نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ بیک ٹائٹل پر جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر احمد کے قیمتی خیالات بطور فلیپ موجود ہیں۔ دیباچہ مشہور ادیب جناب محمد احمد ترازی کا لکھا ہوا ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک "جبار نہیں دلدار” کے عنوان سے اپنے فلیپ میں رقم طراز ہیں "میں گزشتہ نصف صدی سے جبار مرزا کو جانتا پہچانتا آرہا ہوں۔اپنے تجربات اور مشاہدات نے مجھے ان کی پہچان عطا کی ہے کہ وہ جبار نہیں دلدار ہیں۔ اپنے اسی حسن ِ کردار سے وہ آج تک اردو ادب اور صحافت کو ثروت مند بنانے میں منہمک چلے آرہے ہیں۔اپنی ذاتی زندگی میں انہوں نے اپنی رفیقہ حیات کی طویل علالت کے دوران جس طرح علاج کا ہر نسخہ آزمایا ہے وہ ان کی وفاداری بشرط استوار ی کی نادر وکمیاب مثال ہے” ۔راقم نے "سپاس تشکر و عقیدت "کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے "جناب جبار مرزا نے اپنی رفیقہ حیات محترمہ رانی مرحومہ کے حوالے سے اپنی یادوں کا جو ذکر کیا ہے، یہ محض ایک آپ بیتی نہیں بلکہ ایک روح فرسا لیکن دلگداز داستان بھی ہے۔ اس میں جہاں اپنی مرحومہ رفیقہ حیات سے ان کی قربت، محبت اور اپنائیت سے بھرپور قلبی لگاؤ کا سچا اظہار سامنے آتا ہے وہاں ان کے قلم کی روانی، بر جستگی، تحریر کے بے ساختہ پن اور تحقیق و جستجو کے انداز کا پرتو بھی جھلکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔بلا شبہ یہ ایک خوبصورت اور اپنے انداز کی منفرد تصنیف ہے کہ جس میں جبار مرزا نے اپنی ذات کی نفی کر کے رانی مرحومہ کو خراج عقیدت و تحسین پیش کیا ہے۔ ”

تبصرے بند ہیں.