سمت کا تعین

154

بدھ 30 جون کو آئندہ مالی سال کے بجٹ کا عمل مکمل ہونے پر عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بیرونی حوالے سے پاکستان کی ترجیحات کا جو اعلان کیا ہے وہ اندازوں اور توقعات کے بر عکس نہیں کیونکہ اقتدار میں آنے سے قبل بھی وہ امریکی جنگ میں شراکت داری کے سخت ناقد تھے اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے رہے ہیں اقتدار کے تین برس گزارنے کے بعدتک بیرونی تعلقات کا جائزہ لینے اور نظر ثانی کا عمل کیوں التوامیں رہا اِس کا جواب وہی دے سکتے ہیں مبصرین تو پہلی دو حکومتوں کے دوران ہی امکان ظاہر کرنے لگے تھے کہ پاکستان کا چین کی طرف جھکاؤ بڑھنے لگا ہے اِس لیے عمران خان کا بدلا لہجہ کسی کو چونکانے کا باعث نہیں بنا البتہ پاک امریکہ تعلقات کے بارے پایا جانے والامعمولی سا ابہام بھی دور ہو گیا ہے ڈرون حملے کئی برس قبل بند ہو چکے اب لندن میں قیام پذیر الطاف حسین کو نشانہ بنانے کی اجازت کا ذکر سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہے ہر ذی شعور بخوبی واقف ہے کہ پاکستان جنگ کے خاتمے اور افغانستان میں امن کا شدت سے خواہاں ہے وہ نیٹو انخلا کے بعد پسند کی حکومت کا بھی متمنی نہیں پھر وزیرِ اعظم کیوں اچانک گرجے اور بر سے اِس کی وجوہات سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں۔
امریکی وعدہ خلافیوں اور چالاکیوں نے پاکستان کو دور کیا ہے اور بھارت و امریکہ بڑھتے مراسم نے چین کو پاکستان مضبوط کرنے کاخیال آیا ہے بھارت و امریکہ ایکے سے پاک چین کو یکجاہوئے ہیں اورپاکستان نے بیرونی تعلقات کی سمت تعین کرتے ہوئے چین کو ترجیحی حیثیت ملی ہے سمت کی تبدیلی کا تعین اچانک نہیں ہوا بلکہ کئی برس سے کام ہو رہا ہے یکم جولائی کو خطے کی بدلتی صوتحال کے تناظر میں فوج کی بریفنگ غیر معمولی ہے جس سے سیاسی وعسکری قیادت ایک پیج پر آگئی ہے لیکن سرحدوں اور فضاؤں میں دیدہ و نادیدہ خطرات کا ادراک کرتے ہوئے سمت کے تعین میں جذباتی ہونے کے بجائے ہوش کامظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت ٹکراؤ کے خدشات کے ایام میں لداخ اور ڈوکلام میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان ہونے والی ہاتھا پائی اور دوبدو لڑائی سے پاکستان پر نہ صرف دباؤ کم ہوا بلکہ بھارت کی دنیا بھر میں شرمندگی ہوئی جب امریکہ کی طرف سے بھارت کو اتحادی بناتے ہوئے غیر معمولی مراعات سے نوازنا شروع کیا گیا تو پاکستان نے چین کا تذویراتی اتحاد ی بننے میں عافیت محسوس کی جو لوگ سی پیک کو محض ایک معاشی منصوبہ سمجھتے ہیں یہ خیال جزوی طور پر درست ہے لیکن سی پیک اصل میں دفاعی منصوبہ ہے جس نے دونوں ممالک کو باہم جوڑ دیا ہے اب ایک ملک کو نقصان دونوں کا نقصان تصور ہو گا جنوبی ایشیاکے دونوں ایٹمی ممالک میں بظاہرجنگ کے آثار کم ہیں اگر کبھی ایسی نوبت آتی ہے تو پاک چین ایک صفحے پر ہوں گے۔
اِس میں کوئی ابہام نہیں پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی سمت تبدیل اور کئی دہائیوں سے امریکہ پر انحصار کا سلسلہ ختم کر رہا ہے لیکن یہ سب کچھ اچانک نہیں آصف زرداری نے بطور صدر ہی نئی سمت کے تعین پر کام شروع کر دیا تھا انہی کے دور میں ایران سے معاہدے ہوئے اور چین سے قائم سفارتی تعلقات کوہر شعبے تک وسعت دی گئی بعدمیں قائم ہونے والی حکومت نے بھی اسی پہلو پر کام کیاجس کا نتیجہ عمران خان کے لہجے میں موجود ہ تلخی سے ظاہر ہورہا ہے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف صدقِ دل سے کام کیا جس کے دوران 75ہزار سے زائد انسانی جانیں لقمہ اجل بنیں جبکہ بھاری بھرکم نیٹو ٹینکرز نے شاہراہیں اور پُل الگ شکستہ کردیے اِس نقصان کا تخمینہ ماہرین ایک کھرب ڈالر سے زائدلگاتے ہیں بم دھماکوں سے ہونے والے مالی نقصان کا اندازہ بھی لگ بھگ اتنا ہی ہے لیکن مداوے کے طور پر بہت کم ادائیگی کی گئی نقصان کے باوجود پاکستان کے ثابتِ قدم رہنے پر تحسین کی بجائے اُلٹاالزامات لگائے گئے اور ڈو مور کا تقاضا کیا جاتا رہاکابل تک گرفت رکھنے والی حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسی کٹھ پتلیاں بھی پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتی رہیں اور پاکستان کی نیت پر شک کرتے ہوئے کچوکے لگانے کا عمل جاری رکھا گیاہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران امرتسر میں سرتاج عزیز کو ایک قسم کا محبوس رکھا گیااِن حالات میں وفا پر ثابت قدم رہنا ممکن نہیں رہتا۔
سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا گیا ڈرون حملوں کی بات کریں تو سابق فاٹا سمیت کے پی کے بندو بستی علاقوں اوربلوچستان تک کو نشانہ بنایا گیا اسامہ بن لادن کی تلاش کی آڑ میں ہونے والے آپریشن سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کو بدنام کر نے کی کوشش کی گئی امریکی اخبارات وال سٹریٹ جنرل اور نیو یارک ٹائمز ڈرون حملے حکومت کی اجازت سے ہونے کا پراپیگنڈہ کرتے رہے تاکہ ملک سیاسی افراتفری کا شکار ہوجائے اب بھی پاکستان کی طرف سے انخلا میں مکمل تعاون کے باوجود میامی ہیرالڈمیں چھپنے والے مضمون میں پاکستان کا تعلق دہشت گردی اور منشیات سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے یہ پاکستانی خلوص پر شک کی انتہا ہے عین ممکن ہے پاکستان کچھ عرصہ مزید خاموش رہتا لیکن دونوں ملکوں میں عسکری تربیتی تعاون ختم ہونے اور ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی نے فرنٹ لائن اتحادی کو قبل ازوقت متبادل کی طرف جانے پر مجبور کر دیا انجام کار دونوں ممالک میں جاری تعاون میں تعطل بڑھ گیاہے۔
پاکستان اور بھارت میں کے درمیان سفارتی تناؤ پہلی بار نہیں آیا قبل ازیں بھی ایسے حالات بنے جس سے دونوں ممالک میں سفارتکاری محدود ہوئی لیکن بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے یکطرفہ خاتمے پر پاکستان کو امید تھی کہ امریکہ نہ صرف بھارت کی مذمت کرے گا بلکہ مودی کو یکطرفہ اقدام واپس لینے پر دباؤ ڈالے گا لیکن توقعات کے بر عکس ٹرمپ نے دونوں ممالک کو ثالثی کی پیشکش کی جسے پاکستان نے قبول کر لیا لیکن بھارت نے امریکی پیشکش رَد کر دی پیشکش رَد ہونے پرنتیجہ خیز اقدام کی بجائے ٹرمپ نے خاموشی اختیار کر لی جس کا مطلب تھا کہ امریکہ کو جنوبی ایشیا کا دیرینہ مسئلہ حل کر انے سے نہیں بلکہ بھارتی خوشنودی سے دلچسپی ہے بھارت کی طرف سے دوسری بار ایٹمی دھماکوں اور پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کے باوجود سخت ردِ عمل دینے کے ایام میں بھی امریکہ نے نوازشریف کو ہی ٹھنڈا رہنے اور جواب میں دھماکے کرنے سے بازرہنے کا مشورہ دیا جس سے پاکستان بدظن ہوتا گیا اور اُسے خارجی سمت پر نظر ثانی کرنے اور سمت بدلنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
کوشش کے باجود پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نہیں نکل سکاجس کی وجہ امریکہ،بھارت اور فرانس کا اتحاد ہے تینوں مل کر یورپی یونین کی طرف سے پاکستان پر پابندیاں عائد کرانا چاہتے ہیں جس کا پاکستانی قیادت کو مکمل ادراک ہے کیونکہ سری لنکا چالیس میں سے ستائیس نکات پر عمل کرتا ہے تو ایف اے ٹی ایف مطمئن ہوجاتا ہے لیکن پاکستان ستائیس میں سے چھبیس مطالبات پورے کرنے کے باوجود گرے لسٹ سے نہیں نکل پاتا اگر پاکستان نے سمت کا تعین کرتے ہوئے امریکی دباؤ سے گلو خلاصی حاصل کر نے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پاکستان کو جو ش کے ساتھ ہوش کا دامن چھوڑنا نہیں چاہیے سمت کے تعین میں حکمت و تدبر سے کام لینا ہی ملک کے لیے سود مندہے۔

تبصرے بند ہیں.