وَلا یغتب

132

میں نے پڑھا کہ سورۃ الحجرات کو سورۃ آداب بھی کہتے ہیں۔ فی الواقع سورۃ الحجرات میں ایک خوش گوار معاشرت قائم کرنے کے بنیادی اخلاقی اصول تعلیم کر دیے گئے ہیں۔ گزشتہ کالم”لاتجسسو“ کے بعدخیال وارد ہوا کہ اِس سے اگلے حکم ”ولایغتب“(اور غیبت نہ کرو)  پربھی غور کرنا چاہیے۔ پہلے ہمارے خیال میں کوئی چیز دَر آتی ہے، اِس کے بعد وہ ہماری نیت  اور پھر عمل کی صورت میں ڈھلتی ہے۔ اگر نیت کے بغیرکوئی عمل کیا جائے تو وہ عمل نہیں‘ بلکہ محض ایک فعل ہے…… سبب اور نتیجے کی دیواروں سے ٹکراتا ہوا، شور و غوغا کرتا ہوا، اچھلتا ہوا ایک بچگانہ فعل ہے…… اور فاعل ایک مجبورِ محض ہے…… اپنی جبلتوں اور معروضی حالات میں محبوس ایک مجموعہ حیوانیت ہے۔ یہ نیت ہے جو کسی فعل کو عمل کی صورت میں ڈھالتی ہے اور ہمیں قابلِ جزا اور سزا ٹھہراتی ہے۔ دراصل نیت ہی انسان کی آزادی کی سند ہے۔ انسان اس لیے مختار ہے کہ وہ نیت کرنے میں خود مختار ہے۔
قران میں حکم ہے کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، غیبت کو ایسے قبیح عمل سے مشابہ قرار دیا گیا ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ مردہ شخص اپنی حسیات سے کام نہیں لے سکتا ہے، وہ سن سکتا ہے، نہ اپنے وجود پر کسی حملے کا جواب دے سکتا ہے، یعنی وہ بول کر اپنے متعلق کسی الزام کی وضاحت نہیں کر سکتا۔ غیر حاضر شخص بھی ایک مردہ شخص کی مانند ہے، اُس کی سمع و بصر کی حسیات وہاں تک کار آمد نہیں‘ جہاں اُس کی عزتِ نفس پر حملہ ہو رہا ہے۔ اُسے کچھ خبر نہیں کہ اُس کے کسی احسان کو کس ڈھٹائی سے جھٹلایا جا رہا ہے، وہ قطعاً لاعلم ہے کہ اس کے عیب کو کس طرح نشر کیا جا رہا ہے، اور وہ اس بات سے بھی ناواقف ہے کہ کوئی غلط بات اُس سے منسوب کر دی گئی ہے۔
غیبت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ تم کسی کی غیر موجودگی میں اُس کے بارے میں ایسی عیب دار بات کہو کہ اگر وہ سنے تو اُسے برا معلوم ہو۔ سیرت پاک میں درج ہے کہ اصحابِ ذی مقام نے عرض کیا کہ اگر وہ عیب اُس شخص میں واقعی موجود ہو تو کیا پھر بھی اس کا بیان کرنا برا ہے؟  پیغمبر ِ اخلاقؐ نے فرمایا کہ تب ہی تو یہ غیبت ہے، اگر تم وہ عیب بیان کر جو اُس میں نہیں ہے‘ تو اِس صورت میں یہ بہتان ہو گا۔ کسی نے کہا کہ اگر اُس کا عیب ہم اس کے منہ پر بیان کر دیں تو؟ رسولِ رحمتؐ نے فرمایا کہ یہ ایک بے حیائی ہو گی۔ سبحان اللہ! عیبوں کی سترپوشی کا یہ مقام کہ اسے حیا سے تعبیر کیا گیا ہے، کسی کا پردہ فاش کرنا‘گویا بے حیائی ہے۔ عیب جوئی کرنے والے پر وعید قرآن میں موجود ہے۔ سورۃ ھمزۃ کا آغاز ہی اِس وعید پر ہوتا ہے”بڑی خرابی ہے‘ ہر ایسے شخص کے لیے جو عیب ٹٹولنے والا‘ غیبت کرنے والا ہو“  ھمَزَۃ‘ وہ شخص ہے جو منہ پر برائی کرے اور لْمَزَۃ‘ وہ جو پیٹھ پیچھے غیبت کرے۔یہ بھی کہا گیا کہ ھمزۃ‘آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے سے برائی کرنا ہے اور لَمزۃ‘ زبان سے۔ الحذر! الحذر!! وہ معمولی باتیں جو ہمارے نزدیک شاید وقت گزارنے کا بہانہ ہیں‘ وہ ربِ کائنات کے نزدیک کس قدر غیر معمولی جرائم ہیں۔ اس آسمانی اخلاقی تعلیم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رب کے نزدیک بنی آدم کی تکریم کس قدر ہے۔ وہ اپنے شاہکار کی شان میں ذرّہ برابر بُری بات برداشت نہیں کرتا۔ کس قدر سخت الفاظ میں تنبیہہ کی گئی ہے۔ انسان واقعی احسنِ تقویم ہے۔ مان نہ مان ……خالق ِ کائنات نے انسان کو بڑے مان سے تخلیق کیاہے۔ اُس نے کہا ہے کہ میں نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ ید اللہ کی حقیقت جاننے والے ہی عظمت ِ انسانی کے قائل ہو سکتے ہیں۔ انسان کی تعریف انسان بنانے والے کی تعریف ہے، اور اِس کی ہجو‘ اِس کے خالق کی ہجو قرار دی جا سکتی ہے۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے غیبت کو آسان ترین لفظوں میں یوں سمجھایا ہے”یاد رکھو! کسی دوسرے کی بات تیسرے کو بتانا غیبت ہے“۔ انگریزی میں یوں بتایا کرتے”سیکنڈ پرسن second person سے تھرڈ پرسن third person  کی بات کرنا غیبت ہے“ غیبت نہ تو اپنے بڑوں کی کرنی چاہیے اور نہ اپنے چھوٹوں ہی کی، اور دوستوں کی عیب جوئی تو بالکل ہی ناروا ہے۔ جب ہم اپنے بڑوں کی برائی بیان کرتے ہیں تو اپنا قد چھوٹا کر لیتے ہیں، سننے والا سوچتا ہے کہ اگر اِس کے بڑے اتنے برے ہیں‘ تو یہ کتنا برا ہو گا۔ اپنے جونیئر کی بدتعریفی کرنا دراصل اپنی نااہلی کا اعلان ہوتا ہے، یعنی سننے والا یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ یہ شخص جو اپنے ماتحتوں کو ابھی تک لائق نہیں بنا سکا‘ خود کتنا نالائق ہوگا۔ دوست ہمارا تعارف ہوتے ہیں، یہ ہماری معاشرتی قوت ہیں۔ اپنے دوستوں کی غیبت کرنے والا خود کو اپنے ہاتھوں سے ایک شرف اور قوت سے معزول کر رہا ہے۔ دوستوں کے عیب بیان کرنے والا دراصل خود کو عیب دار کرتا ہے۔
ایک نظر سے دیکھا جائے تو زندگی کے کینوس پر ہمارے تمام تر واقعات اور تعلقات ایک رنگ دار تصویر کی طرح منقش ہیں، جب ہم کسی رنگ پر غیبت کی سیاہی پھیر دیتے ہیں تو ہماری اپنی ہی تصویر گویا مسخ ہو جاتی ہے۔ قرآنی حکم ”خود کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو“ کی ایک تعبیر یوں بھی ہے۔ غیبتوں اور شکایتوں کے انبار لگا کر ہم اپنا معاشرتی میدان خود ہی محدود کر دیتے ہیں۔ اپنے تعلقات کے نرم گرم دھاگے جب ہم عیب جوئی کی قینچی سے کاٹ دیتے ہیں تو ہماری کمند اور کمک کمزور ہو جاتی ہے۔ ہمارے تعلقات ہمارے قیمتی اثاثہ جات ہیں۔ زندگی میں معاشی، معاشرتی اور روحانی ترقی ہمارے تعلقات کی مرہونِ منت ہے۔ تعلق جیسا بھی ہے‘ ایک اثاثہ ہے اور اپنے اثاثوں کو کوئی ذی عقل سرِ بازار آگ نہیں لگاتا۔
وحدت الوجود کے زاویے سے دیکھا جائے تو یہاں جزو اور کُل ہم آواز ہیں۔ انائے کْل سے اپنے کسی اَنائے جزو کی توہین برداشت نہیں کرتی۔ احادیث مبارکہ میں بھی بتایا گیا ہے کہ تمام مسلمان ایک جسد ِ واحد کی طرح ہیں، اس کے کسی ایک جزو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم اِس کی دَرد محسوس کرتا ہے۔ یہ تکلیف کسی بھی صورت میں ہو سکتی ہے، کسی کی عزتِ نفس میں کمی کی صورت میں‘یا پھر کسی کے جذبات کے مجروح ہونے کی صورت میں …… بہر صورت جزو کو زچ کرنا‘ کُل کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ ہم سمجھتے نہیں‘ رسولِ رحمتؐ کے نام لیواا جب اُنؐ کی اُمت کے کسی فرد کو ایذا دیتے ہیں تو والی ئ اُمت کے دل پر کیا گزرتی ہے؟ ذرا غور تو کریں …… اگر کوئی اُمتی ہمارے خلاف درخواست لے کے مدینے کی عدالت میں پیش ہو گیا تو ہم کس منہ سے شافع ِ اُمت ؐسے بروزِ حشرشفاعت کے طالب ہوں گے؟؟  دُعا ہونی چاہیے کہ رب کریم ہمیں اُن تمام اِخلاقی اقدارکو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے‘ جو پیغمبر ِ اخلاق ؐ نے ہمیں تعلیم فرمائے ہیں‘ تاکہ ہم اُنؐ کے رُوبرو سرخرو ہو سکیں!!

تبصرے بند ہیں.