قلم لحد میں اُتر گیا ،حسینہ معین کے انتقال سے بڑا خلا پیدا ہو گیا

186

قیصر خان :

چند یوم قبل سوشل میڈیا پر دو پاکستانی خواتین کے نام اور تصاویر متعدد بار شیئر کی جا رہی تھیں، جنھوں نے اپنے اپنے شعبے میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان میں سے ایک پاکستان ٹیلی ویژن کی پہلی براڈ کاسٹر کنول نصیر اور دوسری معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین ہیں اور یہ دونوں خواتین اب ہم میں نہیں رہیں۔

25مارچ کی شام خبر ملی کہ کنول نصیر 73 برس کی عمر میں اسلام آباد میں قلیل علالت کے بعد وفات پا گئی ہیں اور 26مارث کی صبح خبر آئی کہ کراچی میں مقیم ڈرامہ نگار حسینہ معین بھی چل بسی ہیں۔کنول نصیر معروف براڈ کاسٹر موہنی حمید (آپا شمیم) کی بیٹی تھیں اور انھیں پانچ دہائیوں تک پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے لیے بطور براڈکاسٹر کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ڈراموں میں بھی کام کیا۔کنول نصیر نے 26 نومبر 1964 کو پی ٹی وی کے قیام کے وقت پہلی اناؤنسمنٹ کی تھی۔ انھوں نے 17 سال کی عمر سے ٹی وی میں کام کرنا شروع کیا، ٹی وی ڈرامے کی پہلی ہیروئن بھی کنول نصیر تھیں۔

ٹی وی سکرین پر پہلی بار ’میرا نام کنول نصیر ہے۔ آج پاکستان میں ٹیلی ویژن آ گیا ہے۔ آپ کو مبارک ہو‘ کے الفاظ بھی ادا کیے۔

پی ٹی آئی کی رہنما مدیحہ نثار نے اپنے پیغام میں کہا کہ ٹی وی پر میزبانی کی ابتدا کرنے والی کنول نصیر اب ہم میں نہیں رہیں۔ وہ ایک لیجنڈ تھیں۔ ان کے اردو لہجے کا کوئی ثانی نہیں۔‘عادل نجم نے اپنی ٹویٹ میں ان دونوں خواتین کو نیا راستہ بنانے والی رول ماڈل قرار دیا اور لکھا کہ وہ حیرت انگیز، باوقار اور بہت سوں کے لیے اپنے منفرد انداز میں بہت مہربان رہنما تھیں۔ ان دونوں نے بہت سوں کے لیے بہت کچھ کیا خاموشی سے اور ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ۔ آپ دونوں کا بہت شکریہ۔

کنول نصیر نے کچھ عرصہ قبل ڈی جے شاہ پارہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ریڈیو پاکستان ایک یونیورسٹی تھی، بہت بڑے نام وہاں کام کرتے تھے۔انھوں نے دیگر زبانوں میں بھی کام کیا جن میں نو برس تک انگریزی کا پروگرام اور اس کے علاوہ پوٹھوہاری زبان میں سانجھا نامی پروگرام کیا۔ انھیں لاتعداد ایورڈ ملے۔خواتین کے پروگرامز ہوں یا قومی و بین الاقوامی ایونٹس، کنول نصیر میزبانی کے فرائض سرانجام دیتی تھیں۔کنول نصیر کہتی تھیں کہ وہ الفاظ کی ادائیگی پروگرام کی نوعیت دیکھ کر کرتی ہیں۔دنیا سے جاتے وقت بھی وہ ریڈیو سے اپنا رابطہ برقرار رکھے ہوئے تھیں اور مختصر گفتگو کے ساتھ سامعین کی فرمائش پر ان کے لیے پرانے گانے چلایا کرتی تھیں۔

بات کریں حسینہ معین کی تو پاکستان کی ان معروف ڈرامہ نویس نے اپنے لکھے گئے ڈراموں انکل عرفی، شہزوری، ان کہی، تنہائیاں اور دیگر سکرپٹس کی بنا پر ہمیشہ اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔حسینہ معین کی پیدائش انڈیا کے شہر کان پور میں ہوئی۔ اْنھوں نے بچپن میں بچوں کے اخبار میں لکھنے سے آغاز کیا لیکن باقاعدہ طور پر لکھنا کالج جا کر شروع کیا۔ ان کے لکھے گئے ڈرامے پڑوسی ملک انڈیا میں بھی مقبول تھے۔انھوں نے کئی برس کینسر سے لڑتے گزارے اور بالآخر کامیاب ہوئی تاہم لکھنے کا سلسلہ پھر اس طرح جڑ نہ سکا لیکن سماجی تقریبات اور ادب سے متعلق فیسٹیولز میں وہ ہمیشہ اپنے سنجیدہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دکھائی دیتی تھیں۔

ثمینہ پیرزادہ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹرز نے انھیں لکھنے لکھانے سے منع کیا تھا لیکن دور حاضر کے ڈراموں پر انھوں نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا کہ جب وہ چار سال بعد سو کر اٹھیں تو سمجھو سب بدل چکا تھا۔انھوں نے کہا کہ ’ہم نے 40 سال کے کام میں ایک مضبوط اور خود مختار عورت کو پروان چڑھایا تھا لیکن اب ڈراموں میں عورت کو روتا دھوتا ہی دکھایا جاتا ہے۔‘مرینہ خان، شہناز شیخ، شہلا احمد سمیت کئی ایسی اداکارائیں ہیں جنھیں حسینہ معین نے اپنے ڈراموں کے مرکزی کردار دیے۔

حسینہ معین نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں کریڈٹ دیتی ہوں اپنے دور کے ہدایت کاروں کو جنھوں نے مجھے تسلیم کیا اور بلایا۔’جب میں سیکنڈ ایئر میں تھی تو ایک مقابلے کے لیے دو ڈھائی دن میں ڈرامہ لکھا۔ تین چار مہینے کے بعد نتیجہ آیا اور ہمارے کالج کو ایوارڈ ملا۔ بعد میں آغا ناصر نے اسے پروڈیوس کیا اور کہا کہ تم نے تو میری نوکری کو خطرے میں ڈال دیا لوگوں نے کہا کہ یہ کوئی لڑکی نہیں لکھ سکتی۔‘

حسینہ معین کی دوست معروف ادیبہ نور الہدیٰ شاہ نے ان کے نام اپنے پیغام میں لکھا کہ آپ ہنس کر مجھے ’میری ہمسفر کہا کرتی تھیں، اس طرح بھی کوئی ہاتھ چھوڑتا ہے حسینہ.‘

سماجی کارکن ماروی سرمد نے حسینہ معین کے جانے کی خبر کو نہایت تکلیف دہ قرار دیا اور کہا کہ وہ ٹرینڈ سیٹر تھی۔ماروی سرمد جنھیں حسینہ معین کے ایک ڈرامے میں اداکاری کا موقع ملا، لکھتی ہیں کہ حسینہ ڈرامے کے کردار ادا کرنے والے اداکار اسے کس طرح ادا کرتے ہیں اس میں خاص دلچسپی لیتی تھیں۔ اور ان کے ساتھ ہمیشہ موجود ہوتی تھیں۔

مونا فاروق نے لکھا کہ حسینہ معین کے جانے سے پاکستان ٹیلی ویژن کا سہنری دور اختتام کو پہنچا۔ ان کی بغاوت ایک مقصد کے لیے تھی اور انھوں نے اپنے ڈراموں میں خواتین کرداروں کو مضبوطی دی۔ ان کی عقل و سمجھ بوجھ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ وہی تھیں جنھوں نے پاکستانی ڈراموں کو ملک سے باہر بھی مقبول بنایا۔

صحافی عنبر رحیم شمسی نے حسینہ معین کے ڈراموں کا حوالہ دیتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا اور لکھا کہ کسی اور نے ان کی طرح شہری خواتین کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا حسینہ کے ڈراموں نے کیا۔

ثنا توصیف نے کنول نصیر کے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ان کا جانا ایک عہد کا خاتمہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.