وفا کیسی؟

150

وطن عزیز کی سر زمین اور عوام نے جو عجائبات ، تماشے، عبرتیں، بہروپیے، سانحے دیکھے ہیں شاید ہی کسی قوم نے دیکھے ہوں اور کرہ ارض پر کوئی دوسری قوم ہو جو اس قدر رہزنوں کو نجات دہندہ اور رہبر سمجھتی رہی ہو۔ ہمارے تمام فیصلوں اور اقدامات کا انجام ہمیشہ آنے والا وقت بتاتا ہے جبکہ حتمی فیصلہ مؤرخ بلکہ غیر ملکی مؤرخ ہی کرتا ہے۔

شخصیات ، گروہ، ادارے، سب کے سب صرف چلتے لمحے کی فکر اور سوچ میں مبتلا رہتے ہیں حماقتوں کا بوجھ بڑھ جائے تو پھر وقت کی کروٹ سب کچھ الٹا کر رکھ دیتی ہے۔ پہلے بھی اپنے قارئین سے شیئر کر چکا ہوں پنجاب اسمبلی کی 100 ویں سالگرہ تھی ملک میں ضیایت کا دور فرعونیت کی تاریخ کو شرمندہ کر رہا تھا۔ ضیاء الحق نے پنجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں 20 ہزار ایسے لوگ جیلوں میں بند ہیں جن پر کوئی مقدمہ نہیں ،گویا غیر رجسٹرڈ سیاسی مقدمات کے علاوہ اور کتنے جیلوں میں بند ہوں گے؟ ایم آرڈی موجود تھی میں گوجرانوالہ میں ینگ لائرز آرگنائزیشن کا صدر اور ایم آر ڈی کا کنویئر تھا جبکہ مرکزی کنویئر جناب پرویز صالح تھے جو درجنوں بار جیلیں اور شاہی قلعہ کاٹ چکے تھے۔ میرے سینئر غیر سیاسی درویش صفت شخصیت جناب خواجہ جاوید ایڈووکیٹ تھے ۔جنہوں نے ایک مقدمہ قتل یاد دلایا جس میں لاہور اور شیخوپورہ سے بھی نامور وکلاء استغاثہ کی پیروی کر رہے تھے۔ ایک گواہ پر جرح لاہور سے مقرر کردہ وکیل تھے جنہوں نے کرنا تھی۔ دراصل اس گواہ کو ثابت کرنا تھا کہ یہ کنجر ہے کوئی معتبر گواہ نہیں۔ مدعی پارٹی نے اس کے خلاف لاہور کی ہیرا منڈی میں دکان، تھانے میں درج مقدمات، کنجروں سے رشتہ داریاں اور بہت سا دستاویزی ریکارڈ اکٹھا کیا ہوا تھا۔وہ گواہ شکل سے ہی مفت بھر پہلوان دکھائی دیتا تھا۔ جب گواہ کو آواز ہوئی تو چودھری سیدھا جا کر کٹہرے میں گواہ کے طور پر کھڑا ہو گیا۔ وکیل صاحب نے جرح کے آغاز سے پہلے گواہ کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ جناب کا نام گواہ نے جواب دیا چودھری وریام عرف پہلوان (یہ یاد رہے کہ اس گواہ کوناقابل بھروسہ ثابت کرنے کے لیے کنجر ثابت کر نا تھا) وکیل صاحب نے اگلا سوال یہ کیا کہ قوم اور ساتھ ہی دہرایا جناب کی ذات یا قوم قبیلہ اب یہ وہ مقام تھا کہ مدعی مقدمہ کے وکلاء ،مدعی و ملزم پارٹیوں کے ساتھی سب چوکنے ہو گئے۔ چودھری وریام نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کنجر عدالت میں سناٹا مزید گہرا ہو گیا وکیل صاحب کو اپنے کانوںپر یقین نہ آیا کہ جو ہم ثابت کرنا چاہ رہے تھے خود ہی کیسے بول دیا۔ جج صاحب بھی ششدر رہ گئے وکیل صاحب نے دوبارہ یہی سوال دہرایا تو اس نے کہا کنجر پھر کہنے سننے کو کچھ نہ رہا وکیل صاحب نے اپنا بریف سمیٹا اور مڑ کر خواجہ صاحب کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھاا ور جرح کا آغاز جناب خواجہ جاوید نے کیا وکلاء وکلاء سے نہیں بلکہ گواہ سے بے بس ہو گئے مجھے اگلے روزوزیراعظم جناب عمران کی لائیو کال نوٹنکی کی وجہ سے بہت کچھ یاد آ گیا (موجودہ حکومت ضیاء اور مشرف کے ادوار کا تسلسل ہے)جس میں انہوں نے فرمایا:لوگ سمجھتے تھے ایک ماہ میں حالات ٹھیک کروں گا (موصوف کا ہی وعدہ تھا)چینی پر سٹہ کھیل کر 600 ارب روپے مافیاز کے اکاؤنٹس میں چلے گئے ، موجودہ مہنگائی کو زیادہ نہ سمجھیں، وینزویلا اور دیگر ممالک کو دیکھیں (موصوف سیدھی طرح کہیں کہ قبرستان دیکھ لیا کریں صبر آجائے گا) کوئی یہ نہیں کہتا کہ حکومت نے کیا اچھا کیا، پہلی بار روپیہ اوپر گیا (کتنا اوپر گیا ہے نیچے تو 12 سے 15 روپے کے حساب سے آتا رہا ہے) صبر کریں ، مہنگائی کنٹرول کر لیں گے، (اتنا صبر تو لوگ موت پر بھی نہیں کرتے ہوں گے) عدلیہ ساتھ نہیں دے گی تو کرپشن سے نہیں لڑ سکتے (گویا احتساب بیورو کے بعد عدلیہ کے اختیارات بھی چاہئیں) یہ سب مل کر کہہ رہے ہیں عمران کو فارغ کرو ، یہی تبدیلی ہے (یہی تو قوم کا مطالبہ ہے)۔

لوگوں کو امید تھی ایک ماہ میں حالات ٹھیک کر دوں گا، تبدیلی کے لیے انقلاب فرانس اور خمینی انقلاب میں گردنیں اتاری گئیں، جمہوریت میں تبدیلی میں وقت لگتا ہے روز جہاد کا عزم لے کر دفتر سے نکلتا ہوں (موصوف بھول گئے تھے کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں چنے گئے ہیں،انقلاب نظریہ کی بنیاد پر پوری قوم ساتھ ہو تو حقیقی لیڈر شپ لایا کرتی ہے سلیکٹڈ نہیں اور ایک ماہ میں حالات ٹھیک کرنے کا وعدہ بھی موصوف کا تھاالبتہ جب سے ظل سبحانی آئے ہیں عوام روزانہ ہر لمحہ کی بنیاد پرزندہ رہنے کے لیے جہاد کر رہے ہیں)ایمر جنسی میں بھارت سے چینی خریدنے پر صرف غور کیا (غور ہی کر سکتے ہیں فیصلہ تو کہیں اور ہوتا ہے) اربوں کی چینی چوری کرنے والوں پر پھول پھینکے جاتے ہیں (صلح کی کوشش کی گئی مگر ناکامی پر ایف آئی اے حرکت میں لائی گئی) بیورو کریسی کے پرانے حکمرانوں سے رابطے ہیں (جبکہ پرانے حکمرانوں کی اکثریت کابینہ میں شامل ہے) خاتون شہری نے مطالبہ کیا ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کریں یا پھر گھبرانے کی اجازت دیں۔(موصوف مسکرا دیئے)

دوسری جانب اپوزیشن میں ایک غدر مچا ہوا ہے، جہانگیر ترین نئی انٹری ہے کچھ پتہ نہیں چلتا آگے سے اٹھانا ہے کہ پیچھے سے ، تاحال سائیڈ سے اٹھایاہوا ہے جدھر بات بن گئی،دوسری جانب پارلیمنٹ کا عالم یہ ہے کہ کیا کبھی ’’عریانی ، فحاشی زدہ شرابی معاشروں‘‘ نے ہم (نیک و کاروں) جیسے عدالتی فیصلے، آئینی حدود سے تجاوز کرتی ہوئی طاقتیں، ادارے اور مداخلتیں دیکھی ہیں، حیران ہوں کہ فوج کی تضحیک روکنے کے لیے قانون سازیاں کرنا پڑ گئیں جبکہ ادارہ تو درکنار فرد کی تضحیک اور توہین کا قانون تو پہلے ہی موجود ہے۔ اول تو 100 فیصد لوگ فوج کا بطور ادارہ احترام کرتے ہیں لیکن اگر آئینی حدود کی پاسداری نہ کی جائے تو پھر اس کا تذکرہ یا اس پر تجزیہ تبصرہ تضحیک نہیں ہو گا اگر کسی کو دو سال قید ہو جائے اور وہ جیل میں ہر لمحہ وہی عمل دہراتا جائے تو پھر کیا جیل میں اس کے دو سال کو آئندہ کتنے دو سال سے ضربیں دی جائیں گی۔

وزیراعظم عمران خان نے رحمت اللعالمین ﷺ سکالرشپ پروگرام کا افتتاح کر دیا
وزیراعظم کہتے ہیں قرضے بڑھ رہے ہیں، ن لیگ سے 15 ہزار ارب زیادہ واپس کیا جبکہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں ایک روپیہ قرض واپس نہیں کیا ، آئی ایم ایف کی رپورٹ ہے’’پاکستان پر بیرونی قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم 90 ارب 12 کروڑ ہے پاکستانی معاشی صورت حال بڑے خطرے سے دو چار ہو سکتی ہے۔ میرے مطابق حکومت ن لیگ فوبیا سے باہر نہیں آئی۔ لگتا ہے ملک میں کوئی حکومت سرے سے ہے ہی نہیں ہر طرف اپوزیشن ہے۔ کابینہ میں بھی اور اپوزیشن میں بھی۔ میں کہتا ہوں عوام کی زبوں حالی کا کسی کو خیال نہیں۔ عوام کے مقدمہ کا ہر گواہ ہر وکیل ہر جج جو دعویٰ کرتا ہوا نظر آتا ہے عمل اس کے ہر عکس ہے بس بیوروکریسی ہے جس کے 24 گھنٹے کرپشن کا کاروبار چلے کے وارے نیارے ہیں۔ بقول جالب:

آج بھی ہر بلاول ہے دیس کا مقروض

پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

جبکہ عوام کی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ وابستگی ایسے ہے :

تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں؟

کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

حالانکہ بقول غالب یہ کہہ کر جان چھڑا لینا چاہیے:

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا

تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو

تبصرے بند ہیں.