حزب مخالف کی جماعتوں کے دس رکنی اتحادPDM(پاکستان ڈیموکریٹک) کے 16مارچ کے سربراہی اجلاس سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کے خطاب کے بعد اتحاد کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان جوتیوں میں دال بٹنا شروع ہوئی۔ اب اس نے PDM میں ٹوٹ پھوٹ اور دراڑیں پڑنے کی واضح شکل اختیار کرلی ہے۔ جناب اسفندیار ولی کی عوامی نیشنل پارٹی نے PDM سے علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی بھی اس کے لئے پر تولے بیٹھی ہے۔ PDMکی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اور PDM کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علماء اسلام کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایسی کیفیت سے دو چار ہیں کہ جہاں پکی پکائی کھیر کسی نے کھا لی ہو اور کھانے والے کا نام بھی نہ لیا جا سکتا ہو۔ اس لئے کہ نام لینے کی صورت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ کہیں اسی طرح کی جلی کٹی اور طعن و تشنیع سے لبریز باتیں نہ سننا پڑیں جو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری نے PDMکے سربراہی اجلاس کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے قائدین بالخصوص میاں محمد نواز شریف کو سنائی تھیں۔ لہٰذا مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماء اسلام کے لئے عافیت اسی میں ہے کہ وہ بیٹھی ڈھول بجاتی رہیں اور کھیر کھانے والے کا نام بھی نہ لیں لیکن تابہ کہ؟
PDMمیں ٹوٹ پھوٹ کی اس صورتحال کو سامنے رکھ کر مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علما ء اسلام بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو ضرور سوچنا چاہیے کہ ان کا پیپلز پارٹی اور اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی سے رومانس اور ادائے نے نوازی کا رویہ اور ان جماعتوں کی خوشنودی ٔ خاطر کے لئے ان کی دلجوئی کرنے اور ان کی ہر خواہش ، خیال اور مطالبے پر آمنا و صدقنا کہنا کیوں کام نہیں آیا ہے بلکہ کبھی بھی کام نہیں آتا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے یقینا یہ لمحہ فکر یہ ہونا چاہیے تھا کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے طور پر PDM کے فیصلے کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے نامزد اُمیدوار کے بجائے پیپلز پارٹی کا اپنا اُمیدوار نامزد کرنا اور اس کی حمایت میں مطلوبہ نفری (تعداد) ظاہر کرنے کے لئے حکمران اتحاد میں شامل بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے چار سینیٹر ز کی مدد حاصل کرنا PDM کے اجتماعی مقاصد اور فیصلوں سے کچھ کم رو گردانی نہیں تھی کہ اب اسے عوامی نیشنل پارٹی کا PDM سے علیحدگی کا وار ہی نہیں سہنا پڑا ہے بلکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے PDMکی طرف سے دیئے گئے شوکاز نوٹس کو پرزے پرزے کرنے کا دُکھ بھی دیکھنا پڑا ہے۔
PDMاس انجام سے کیوں دوچار ہوئی؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے تو اس کے ساتھ یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو PDMمیں رہ کر فعال کردار ادا کرنے قوم پرست جماعتوں کے علیحدگی پسند نظریات کا بوجھ اُٹھانے اور پیپلز پارٹی کے ہر طرح کے ناز نخرے برداشت کرنے کا کیا فائدہ یا نقصان ہوا ہے۔ مان لیا کہ مسلم لیگ (ن) بڑی اور قومی جماعت ہے اسے چھوٹی جماعتوں اور ان کے محمود اچکزئی ، اختر مینگل اور میاں افتخار حسین جیسے رہنماؤں کو ساتھ لے کر چلنے کے لئے فراخ قلبی اور وسعت نظری کا جہاں نمونہ پیش کرنا ضروری ہے وہاں اپنے مفادات اور نظریات سے بوقت ضرورت اغماض برتنا بھی مجبوری ہے لیکن یہاں معاملہ اس سے کچھ بڑھ کر یا ہٹ کر رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ ترین قیادت بالخصوص اس کے قائد میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز صاحبہ ایسا بیا نیہ لے کر آگئے کہ جس کی PDMکے پلیٹ فارم سے تائید اور حمایت حاصل
کرتا اگر انتہائی مشکل نہیں تھا تو مشکل ضرور تھا خاص طور پر اس سیاق و سباق میں جب محترم میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی اپنی جماعت کی روائتی مقبولیت اور سیاسی حیثیت کے مقابلے میں اپنے نئے بیانیے کی مقبولیت اور وسعت پذیری کو فوقیت دیئے ہوئے تھے ۔ اس طرح PDMکے پلیٹ فارم پر پیپلز پارٹی اور اس کے ساتھ چھوٹی قوم پرست جماعتوں کو زیادہ اہمیت دنیا جہاں اُن کی مجبوری بناہوا ہے وہاں مسلم لیگ (ن) کی اہمیت اور حیثیت میں کمی کا بھی باعث بنا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں محمد نواز شریف بڑے مدبر اور گہری سوچ و فکر کے مالک سیاستدان ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ وہ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہے ہیں۔ اسی طرح ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز نے بھی اپنے تحرک، محنت و ریاضت اور جرأت و بیباکی سے اپنا لوہا منوا رکھا ہے لیکن تحمل، بُردباری، مصلحت ، حالات و واقعات کے پس منظر اور پیش منظر اور روائتی اور تاریخی طور پر جاری و ساری مسلمہ حقائق اور معروضی حالات کے منظرنامے کو سامنے رکھ کر مؤقف اختیار کرنے اور اندازِ فکر و عمل اپنانے کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ میاں محمد نواز شریف کا "ووٹ کو عزت دو”والا بیانیہ بلاشبہ بڑا اہم ہے اور کوئی شک نہیں کہ اسے پذیرائی بھی ملی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ چند ماہ قبل میاں صاحب نے اپنے خطابات میں عمران خان اور ان کی جماعت کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے خان صاحب کو لانے والے Selectorsبالخصوص آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے نام لے کر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر رکھا ہے۔ کیا اسے بھی اسی طرح کی پذیرائی ملی ہے ۔ معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اس حوالے سے یہ کہنا شائد غلط نہ ہو کہ میاں صاحب کے اس بیانیے کے بارے میں قومی حلقوں میں ہی تحفظات اور خدشات کا اظہار سامنے نہیں آیا ہے بلکہ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی اس کے بارے میں کھل کر نہ سہی لیکن دبے لفظوں میں یا قائد ین کی نجی محفلوں اور باہمی ملاقاتوں میں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے صوبائی اور مرکزی سطح کے بعض قائدین کی اپنی بااعتماد میڈیا شخصیات سے غیر رسمی اور آف دی ریکارڈ بات چیت اور گفتگو میں اس کا تشویش بھرا اظہار سامنے آ رہا ہے کہ پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات کے تناظر میں اس طرح کے بیانیے انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار کرنے کی بجائے رکاوٹوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ خیر یہ مسلم لیگی قائدین بالخصوص میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کے مشیران عظام کے سوچنے کی بات ہے کہ وہ اس پہلو کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔
واپس PDMکی طرف آتے ہیں۔ اس حقیقت کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ گزشتہ سال ستمبر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ PDMکی تشکیل کے ساتھ ہی اس میں شامل دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان کئی امور پر نقطہ نظر کا اختلاف اور باہمی ہم آہنگی اور یک رنگی کا فقدان سامنے آنا شروع ہو گیا تھا۔ اکتوبر 2020ء میں PDMکے زیرِ اہتمام گوجرانوالہ میں ایک انتہائی کامیاب سیاسی جلسے کا انعقاد جہاں PDMکے مقاصد کی پذیرائی اور اس کو توانائی بخشنے کا ذریعہ ثابت ہوا وہاں اس سے میاں محمد نواز شریف کے آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کو نام لے کر ہدف تنقید بنانے والے شہرت یافتہ خطاب (جس کا اوپر بھی حوالہ آیا ہے) کی بنا پر PDMکے پلیٹ فارم پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان باقاعدہ اختلاف رائے کا اظہار بھی سامنے آیا۔ پیپلز پارٹی نے میاں محمد نواز شریف کے خطاب کے بیانیے سے فی الفور دوری اختیار کی اور بلاول بھٹو زرداری کا یہ بیان سامنے آیا کہ انہیں میاں محمد نواز شریف کے اس خطاب پر تعجب ہوا ۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے قائدین بالخصوص محترمہ مریم نواز صاحبہ بڑے جوش و جذبے اورخضوع و خشوع کے ساتھ بلکہ کسی حد تک اپنی کشتیاں جلاتے ہوئے PDMکے پلیٹ فارم سے اور اس سے باہر بھی پیپلز پارٹی کو خوش رکھنے کے مشن پر گامزن رہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر نوڈیرو اور گڑھی خدا بخش کا دورہ بھی کیا اور اپنے خطابات میں پیپلز پارٹی کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کے دیرینہ اور ماضی کے روایتی مؤقف کے برعکس ہر وہ لفظ ، جملہ اور نقطہ نظر پیش کیا جس سے پیپلز پارٹی کے قائدین اور جیالے خوش اور مطمئن ہو سکیں۔ اس کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے قائد محترم میاں محمد نواز شریف جو عمران خان کو لانے والوں Selectors کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنانے کا اپنائے ہوئے ہیں انہوں نے بھی اپنے بیانئے کی حمایت اور تائید کی تمنا میں یا کسی اور وجہ سے PDMکی جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کی دلجوئی اور ایک حد تک فرمان برداری کی راہ اختیار کئے رکھی اور پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ (ن) کے بنیادی اختلافات اور فطری دوری کے معاملات کو بھی نظر انداز کئے رکھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پیپلز پارٹی کے قائدین ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو جگہ دیتے لیکن اس کے بجائے پیپلز پارٹی اپنے مؤقف اور مقاصد کے حوالے سے اور بھی زیادہ کھل کر فیصلے کرنے لگی یہاں تک کہ 16مار چ کو PDMکے سربراہی اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں میاں محمد نواز شریف کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہ کیا۔
تبصرے بند ہیں.