میں نے زندگی میں پہلی بار جس صحافی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا وہ جناب ضیا شاہد تھے۔ میں نے بی اے کے پیپرز دئیے تو علم ہوا کہ ایم اے کا سیشن آٹھ ، نو ماہ لیٹ ہے۔ سو، میرے پاس وقت ہی وقت تھا اور ایسے میں نئے نئے شروع ہونے والے لبرٹی گروپ آف نیوز پیپرز نے اپنے صبح کے اخبار ’ میرا پاکستان‘ میں رپورٹروں کے لئے اشتہار دیا تھا۔ ’خبریں ‘ کا دفتر ان دنوں مزنگ ہی کے علاقے میں پنج محل روڈ پر ہوا کرتا تھا جہاں میں اپنی یاما ہنڈرڈ پر پہنچا تھا،بیسمنٹ میں پریس تھا، گراو¿نڈ فلور پر انتظامی دفاتر اور لبرٹی فورم، دوسرے فلور پر رپورٹنگ، نیوز روم اور چیف ایڈیٹر کا آفس اور تیسرے فلور پر میگزین وغیرہ۔ بہت زیادہ انتظار کے بعد ایک مختصر سے انٹرویو کے بعد انہوں نے بطور رپورٹر میرا چناو¿ کر لیا تھا اور مہینہ ڈیڑھ مہینہ بعد ہی ’میرا پاکستان‘ سے’ خبریں‘ کی مین رپورٹنگ میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ میں ضیا صاحب کے جنازے پرایثار رانا، افضال طالب ، فیصل درانی کو دیکھ رہا تھا ، ان سب سے اسی دور کا تعلق ہے ۔مجھے پہلے سٹی کی بیٹ ملی اور ایم اے کے بعد دوبارہ خبریں جوائن کرنے پر میجر ریٹائرڈ طاہر کے ساتھ مسلم لیگ نون کی کوریج کی ذمہ داری ۔ سچ پوچھئے تو مجھے خبر بنانی نہیں آتی تھی اور سب سے پہلے مجھے ’ انٹرو‘ کے بارے سرفراز سید صاحب نے بتایا تھا جو ہمارے ایڈیٹر رپورٹنگ ہوا کرتے تھے۔
فیصل ٹاو¿ن میں ضیا صاحب کے گھر کے باہر چینل فائیو سمیت بہت سارے چینلز ان کے بارے رائے پوچھ رہے تھے تو میں یہی بتا رہا تھا کہ میں نے خبر بنانی خبریں میں سیکھی اور اس سے بھی بڑھ کر ہمت ، جرا¿ت اور بے خوفی کے ساتھ اپنی خبر اور اپنے مو¿قف پر ڈٹ جانا ضیا شاہد سے ۔ انہی دنوں مجھے جماعت اسلامی کی بیٹ بھی دی گئی اور اس وقت جماعت کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم و مغفورہوا کرتے تھے اور جنرل سیکرٹری سید منور حسن ۔ ایک طرف ’ خبریں‘ اخبار’ جہاں ظلم وہاں خبریں‘ کے سلوگن کے ساتھ دھوم مچا رہا تھا تو دوسری طرف ’ ظالمو ! قاضی آ رہا ہے‘کا نعرہ سیاسی طوفان بنا ہوا تھا۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ ضیاءشاہد مسلم لیگ نون کی مرکزی مجلس عاملہ سے کچھ اختلافات کے باعث الگ ہوئے تھے اور وہ اپنے اخبار کی خبروں اور کالموں میں ان کے سخت ترین ناقد ہوا کرتے تھے۔ ایسے میں میجر طاہر کے ساتھ نون لیگ کی بیٹ کرنا ایک بہت ہی مشکل کام تھا کیونکہ نواز لیگ میں خبروں کا دھارا محترم پرویز رشید سے ہی بہتا تھا اور ان دونوں کی سخت ان بن تھی۔ ایک دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ضیا ءشاہد ایک بہت بڑے استاد تھے مگر ان کے پڑھانے اور سکھانے میں ان کی دہشت اور خوف بہت بڑا عنصر ہوا کرتا تھا۔ خبر میں غلطی ہوجائے یا خبر مس ہوجائے تو رپورٹروں کی ٹانگیں کانپا کر تی تھیں۔ میں آج تک ضیا شاہد کو ایسے استاد کے طور پر یاد کرتا ہوں جیسے دیہاتی نوجوان اعلیٰ بیوروکریٹ بننے کے بعد اپنے اس استاد کو یاد کرتے ہیں جو پڑھائی ہڈیوں میں بٹھا دیا کرتا تھا۔مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ضیا صاحب نے لاہور نہیں بلکہ پاکستان کی صحافت کو اتنے زیادہ بڑے اور پروفیشنل نام دئیے ہیں کہ اگر انہیں صحافت سے نکال لیا جائے تو ملکی صحافت دھڑام سے نیچے آ ن گرے۔ یہ بات محاورہ بن چکی کہ جس نے خبریں کی مار کھا لی وہ دنیا کے کسی صحافتی ادارے میں ناکام نہیں ہوسکتا۔ خود ’ خبریں‘ نے ان کی وفات پر سپر لیڈ سٹوری میں لکھا کہ پاکستان میں جدید صحافت کے بانی ضیا شاہد انتقال کر گئے تو یہ سو فیصد درست ہے۔ برادرم سلمان غنی اور میں ڈسکس کر رہے تھے کہ وہ صرف خبریں کے بانی نہیں تھے بلکہ اس سے پہلے وہ ’روزنامہ پاکستان ‘کو شروع کرنےو الے بھی تھے ورنہ اس سے پہلے اخبارات کی دنیا میں دو ہی بڑے نام ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے ’ خبریں ‘ کو شروع کرتے ہوئے صحافت کی دنیا میں ایک نیا بزنس ماڈل بھی دیا کہ اس کمپنی میں انویسٹ منٹ کی بنیاد پر بہت سارے ڈائریکٹرز بھی آئے مگر سچ یہ کہ چلتی صرف ضیا صاحب ہی کی تھی۔
میں نے خبریں بہت پہلے چھوڑ دیا تھا ، اس سے بھی پہلے جب ادارے کو ایک نئے پلازے میں شفٹ کیا گیا مگر ضیا صاحب سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ خدا لگتی کہوں، میرے خیال میں خبریں گروپ میں پوٹینشل موجود تھا کہ وہ اس سے بھی بڑا اور تاریخ ساز ادارہ بنتا اور اب ذمہ داری امتنان شاہد پر ہے کہ وہ اپنے والد کی کامیابیوں کے سفر کو آگے کیسے بڑھاتے ہیں۔میں ان کے جنازے کو کندھا دیتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ میں نے جرنلز م میں لانے والے وسیلے اور محسن کا آج آخری ذاتی قرض بھی ادا کر دیا۔ میرا دل این بلاک کی گراونڈ کو دیکھ کر غمگین ہورہا تھا جس میں، میں نے ضیا صاحب کی والدہ، بھائی اور بیٹے کے جنازے بھی پڑھے ، میں سوچ رہا تھا کہ آپ فوج میں جنرل مشرف ہوجائیں یا صحافت میں ضیا شاہد، اختتام یہی ہے کہ ہم سب نے اللہ کی طرف لوٹ جانا ہے، باقی رہ جانے والے صرف اعمال ہیں۔ میں ضیا صاحب کی وفات پر اپنے کئی صحافی دوستوں کی شکوہ بھری پوسٹس اور ٹوئیٹس دیکھ رہا تھا، میرا خیال تھا کہ ان کے جنازے پر بہت سارے نام ہوں گے مگر مجھے واقعی بہت ساروں کی غیر حاضری لگانی پڑی مگر مجھے اچھا لگا کہ وہاں جماعت اسلامی پاکستان کے امیرسراج الحق، امیر العظیم، قیصرشریف، فرحان شوکت کے ہمرا ہ موجود تھے۔ حکومت کی نمائندگی آپا فردوس عاشق اعوان کر رہی تھیں اور اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو مسلم لیگ نون سے مجھے سہیل بٹ راڈو والے ہی نظر آئے۔ سماجی تعلقات نبھانے میں کمال رکھنے والے ہمارے بزرگ مجیب الرحمان شامی بھی موجود تھے ۔جہاں تک شکوے شکایتوں کی بات ہے تو مجھے نماز جنازہ پڑھانے سے قبل برادرم علامہ راغب نعیمی کے یہ الفاظ دہرانے دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ضیا شاہد مرحوم کی اپنے صحافتی اداروں کے ذریعے اسلام کے تحفظ اور نظریہ پاکستان کے فروغ کے لئے کی گئی کوششوں کے اجر سے وہ تمام غلطیاں معاف فرمائیں جو بشری تقاضوں کے تحت ہوئیں۔ ہماری صحافتی تاریخ کا ایک اور عہد تمام ہوا، ایک او رباب ختم ہوا، ہم ضیا صاحب کو مٹی کے سپرد کر کے واپس لوٹ آئے،اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دیں، آمین۔
تبصرے بند ہیں.