لالے عطا اللہ عیسی خیلوی کا ایک گانا ہے’’کس کس کا منہ بند کریں جب عشق کے چرچے عام ہوئے‘‘، یہ اسلام آباد اور لاہور میں ملنے والے قیمتی پلاٹوں کے عشق کے چرچے ہیں جو اتنے زباں زد عام ہیں ہم جہاں جائیں لوگ سوال کرتے ہیں ان’’ہوس زادوں‘‘ کی ہوس کبھی ختم ہوگی یا نہیں ؟ یہ کسی یاسر شامی یا ڈیلی ڈان کے ذریعے ننگے نہیں ہو رہے، انہیں قدرت ننگا کر رہی ہے، یاسر شامی یا ڈیلی ڈان تو وسیلے ہیں جن سے قدرت کام لے رہی ہے تاکہ ان کے کام تمام ہوں، اسی لئے نکمی سی جو وضاحتیں اپنے کچھ جرائم پیشہ وی لاگرز کے ذریعے یہ جاری کروا رہے ہیں کوئی اْس پر یقین نہیں کر رہا، ابھی یہ اپنے عہدوں پر ہیں، کچھ لوگوں کو ان کے عہدوں کا لحاظ ہے کچھ لوگوں کو ان کے ساتھ تعلق کا لحاظ ہے اور کچھ ان سے خوفزدہ ہیں ان کے خلاف وہ کچھ بولے یہ اْنہیں کوئی نقصان ہی نہ پہنچا دیں، جب یہ ظالم فنکار اورگھٹیا پولیس افسر اپنے عہدوں پر نہیں رہیں گے، جب ان کے کھیل تماشے ختم ہوں گے، جب ان کے پاس کسی پر ظلم کرنے یا کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں رہے گا، تب ان کی اصل کرتوتیں کْھل کر سامنے آئیں گی، تب وہ خاتون اے ایس پی بھی شاید خاموش نہ رہے جسں کے ساتھ بداخلاقی کے لئے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اپنی سٹک استعمال کی تھی، وہ کْھسرا بھی شاید چْپ نہ رہے جس سے پوچھا گیا تھا ’’اگر فوری طور پر تمہاری ضرورت محسوس ہو تو کہاں گاڑی بھجوا کر تمہیں منگوایا جائے ؟ ممکن ہے اْس کے بعد وہ مظلوم اوورسیز پاکستانی بھی اپنے لب کھول دے جس سے بھاری رقم بطور رشوت لے کر بھی اْس کا پلاٹ قبضہ گروپ سے واپس لے کر نہیں دیا گیا نہ رقم واپس کی گئی، منیر نیازی کا پنجابی کا ایک شعر ہے
بدل اْڈھے تے گْم اسمان دسیا
پانی لتھے تے اپنا مکان دسیا
ان کی اندھا دْھند طاقت کے بادل ابھی برس رہے ہیں، ان کی گرج چمک ابھی جاری ہے، یہ بارش جب تھمے گی، تب پتہ چلے گا کتنی تباہی یہ کر گئے ہیں، سب سے بڑی تباہی یہ ہے اپنے عہدوں کی ساری گریس ہی ختم کر دی، کوئی ایماندار یا گریس فْل افسر اب ان عہدوں یا سیٹوں پر بیٹھتے ہوئے کتنی شرمندگی محسوس کرے گا ؟ مجھے لگتا ہے ان کا زوال شروع ہو گیا ہے، ملنگ ظل شاہ کی شاید اللہ سے ملاقات ہوگئی ہے، ان بدبخت پولیس افسروں کو معلوم ہی نہیں اْن کے خلاف پلاٹی مہم اب وہ لوگ چلوا رہے ہیں جو کبھی ان کے سرپرست تھے، اب ان سرپرستوں کو شاید پتہ چل گیا ہے یہ پولیس افسران ہم سے زیادہ بدبو دار ہیں، ہم سے زیادہ ’’ہوس زادے‘‘ ہیں، ہم نے اگر انہیں چند لوگوں کے خلاف ظلم کرنے کا حکم دیا اْنہوں نے ہمارے اس حکم کی آڑ میں ہزاروں لوگوں پر ظلم کئے اور مال بنائے اور بدنامیاں ساری ہمارے کھاتے میں پڑ گئیں، لاہور یا اسلام آباد کے پلاٹوں سے زیادہ رقمیں تو انہوں نے نو مئی کے واقعے کی آڑ میں شاید بنا لی ہوں گی، یہ وہ بدبخت ہیں جن کے’’پاپی پیٹوں‘‘ کے ایندھن کبھی نہیں بھریں گے، ویسے تو موت پر ان کا رتی بھر ایمان دکھائی نہیں دیتا مگر ہو سکتا ہے اپنے اہل خانہ کو ابھی سے انہوں نے یہ وصیت کر دی ہو’’ہمارے کفن کے دونوں ’’ سائیڈ‘‘ پر جیب لگوائی جائے کیونکہ ہم’’سائیڈ بزنس‘‘ کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے، ممکن ہے حرام کمائی کا کوئی ذریعہ یہ قبروں میں بھی ڈھونڈ لیں، ان میں ایک پولیس افسر وہ ہے جو پنجاب میں لْوٹ مار اور فنکاریاں مکمل کرنے کے بعد مزید لْوٹ مار کے لئے اب سندھ جانا چاہتا ہے، سْنا ہے اس مقصد کے لئے گورنر پنجاب سے وہ ملاقاتیں بھی کر رہا ہے، یہ ملاقاتیں بے سود ہوں گی کیونکہ سندھ کے حکمران اپنے علاوہ کسی کو لْوٹ مار کا مستحق نہیں سمجھتے، وہ سندھ میں اگر تعینات ہو بھی گیا چار دن بھی وہاں نہیں نکالے گا، کتنا بڑا المیہ ہے پاکستان تباہی کے اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں کسی وزیراعظم کسی صدر کسی چیف جسٹس کسی آرمی چیف سے ہم یہ گزارش ہی نہیں کر سکتے کہ جن پولیس و سول بلکہ چول افسران نے پاکستان کو’’پلاٹستان‘‘ سمجھ رکھا ہے، جو قومی خزانے کو لْوٹنا اپنا حق سمجھتے ہیں، اْن پر ہاتھ ڈالے جائیں اْن سے ساری ناجائز دولت، سارے پلاٹ واپس لئے جائیں، اْن سے پوچھا جائے ’’ برائے نام سا جو کام تم اپنے شعبے میں کرتے ہو اْس کی کوئی تنخواہ تمہیں نہیں ملتی ؟ اور تنخواہ سے ہزار گنا زیادہ جو دیکھی ان دیکھی مراعات تم لیتے ہو وہ کیا کم ہیں کہ اب اربوں روپے کے پلاٹوں سے بھی تمہیں نوازا یا شہبازا جائے ؟ پولیس افسروں کے ساتھ ساتھ ’’سول کرپٹو کریسی‘‘ کو بھی نوازا اور شہبازا جا رہا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے آئین میں عنقریب ایک ترمیم یہ بھی کر دی جائے گی ہر اْس افسر کو اسلام آباد میں قیمتی پلاٹ سے نوازا اور شہبازا جائے جس نے پی ٹی آئی کو دبانے میں ہلکا سا کوئی کردار بھی ادا کیا ہے، ایک افسر کا کہنا ہے’’اگر ایسی کوئی ترمیم ہوئی ایک پلاٹ کا حقدار میں بھی ہوں گا کیونکہ پی ٹی آئی کے دور میں مجھے او ایس ڈی بنایا گیا تو میں نے عمران خان کو بددعا دی تھی‘‘،ہم اپنے طور پر یہ سمجھ رہے ہیں کچھ’’چول و پولیس افسران‘‘لاہور اور اسلام آباد میں قیمتی پلاٹ لے کر بدنام ہو رہے ہیں دوسری طرف ممکن ہے وہ اسے اپنی عزت یا شہرت سمجھ رہے ہوں، جس طرح ہماری کچھ اداکارائیں، ماڈلز یا ٹک ٹاکرز اپنے جسموں کی نمائش کو اپنی بدنامی نہیں شہرت سمجھتی ہیں، مجھے نہیں معلوم یہ بے شرم افسران ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کریں گے ؟ ویسے تو جتنا مال و زر اْنہوں نے بنا لیا ہے ریٹائرمنٹ کے بعد اْنہیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی، مگر’’ہوس زادوں‘‘ کی ہوس چونکہ کبھی ختم نہیں ہوتی میں اْنہیں ایک تجویز یا مشورہ دیتا ہوں ریٹائرمنٹ کے فورا بعد وہ ایک ایسی اکیڈمی کھول لیں جس میں حاضر سروس پولیس افسروں سے بھاری معاوضہ لے کر اْنہیں حرام کمائی کے آسان اور محفوظ طریقے بتائے جائیں، علاوہ ازیں اْنہیں وہ فنکاریاں بھی سیکھائی جائیں جن کی بدولت ایک لمبے عرصے کے لئے کماؤ سیٹوں پر برقرار رہا جا سکتا ہے، اْنہیں یہ بھی بتایا جائے کہ کسی ملنگ کے قتل کو ٹریفک حادثے میں بدلنے کی فنکاری کیسے کی جاسکتی ہے ؟ اور سیاسی و اصلی حکمرانوں کی خوشامد کر کے اْن کے دل کیسے جیتے جا سکتے ہیں ؟‘‘، یہ اکیڈمی اْن پلاٹوں پر بھی بنائی جاسکتی ہے جو اسلام آباد یا لاہور میں لئے گئے ہیں، اللہ جانے کیوں کبھی کبھی میں اس احساس بد میں مبتلا ہو جاتا ہوں ایک وقت آئے گا جب پاکستان کو’’پلاٹستان‘‘ میں بدل کر سارے پلاٹ کرپٹ اور نااہل افسروں میں تقسیم کر دئیے جائیں گے، میں آج مرحوم آئی جی ناصر درانی کی قبر پر جا کر سلیوٹ کروں گا جن کے بارے میں بہت سال پہلے بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض نے مجھے بتایا تھا ’’راولپنڈی میں کوئی ڈی آئی جی ایسا نہیں آیا جسے ہم نے پلاٹ دیا ہو اور اْس نے لینے سے انکار کر دیا ہو سوائے ایک ناصر درانی کے، مجھے صاحبزادہ رؤف کی قبر پر جانا ہے بطور آئی جی پنجاب جن کے دامن پر گندگی کا ایک چھینٹا بھی نہیں تھا، اور مجھے سابق آئی جی پنجاب جاوید اقبال کی جوتیوں میں جا کر بیٹھنا ہے جنہوں نے اپنے عہدے کی گریس پر ایک اْنگلی نہیں اْٹھنے دی۔
تبصرے بند ہیں.