سموگ کی صورتحال کے باعث پنجاب حکومت کی جانب سے کاروباری اوقات کو محدود کرنے اور تعلیمی اداروں کی چھٹیوں میں توسیع کے فیصلے پر تاجروں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ شام 8 بجے دکانیں بند کرنے سے کاروبار میں مندی آئے گی کیونکہ زیادہ تر شہری شام کے وقت خریداری کے لیے آتے ہیں، خصوصاً وہ لوگ جو دن کے وقت ملازمت یا اپنے دیگر کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ تاجر برادری کے مطابق، یہ فیصلہ کاروبار کو متاثر کرے گا اور معیشت پر منفی اثر ڈالے گا، خاص طور پر جب مہنگائی کی موجودہ صورتحال میں خریداریاں کم ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، دکانوں کے اوقات محدود کرنے سے چھوٹے کاروبار کے مالکان کو زیادہ نقصان ہو گا کیونکہ ان کی آمدنی کا بڑا حصہ شام کے اوقات میں ہونے والی فروخت پر منحصر ہوتا ہے۔ تاہم، حکومت کا موقف ہے کہ سموگ کی بڑھتی ہوئی شدت سے عوام کی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہیں، اور اس اقدام کا مقصد شہریوں کو صحت کے مسائل سے بچانا ہے۔ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ ایک عارضی قدم ہے، اور سموگ کی صورتحال بہتر ہوتے ہی اس فیصلے پر نظرثانی کی جائے گی۔ حکومت اور تاجر برادری کے درمیان مذاکرات کے ذریعے متبادل اوقات مقرر کیے جا سکتے ہیں، تاکہ صحت کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کاروبار پر کم سے کم اثر پڑے۔ شام کے اوقات میں آن لائن خریداری کو فروغ دینا اور ڈلیوری سروسز کو آسان بنانا ایک عارضی حل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ سموگ صرف شہروں کا نہیں دیہاتوں کا بھی مسئلہ ہے۔ ہمارے کسان بھائی کیا سمجھتے ہیں کہ جب وہ فصلوں کی باقیات جلائیں گے تو کھلا آسمان ہونے کی وجہ سے انھیں اس کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اس وقت دیہاتوں کی فضا بھی زہر آلود ہوچکی ہے۔ ہم نے دوکام بڑی شدومد سے کئے ایک اپنی تن آسانی کے لئے ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال کیا اور دوسری طرف درخت کاٹ کر ماحول کو اجاڑنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ اگر آپ سردیوں کے دوران بھی لاہورکی کسی بڑی سڑک پرنکلیں توگاڑیوں کی بہتات کے باعث ٹمپریچر تین سے چار ڈگری زیادہ ہوتا ہے۔ اب ہر گھر میں اے سی اور بجلی سے چلنے والے آلات مسلسل درجہ حرارت بڑھا رہے ہیں۔ ہم نے اپنا کوڑا کرکٹ، گھریلو اور صنعتی فضلہ تلف کرنے کے جو طریقے اپنائے ہیں وہ قطعاًماحول دوست نہیں ہیں۔شہروں کے باہر بڑے ڈمپنگ زون بنا کر کوڑا جلانے کی بجائے اگر شہرمیں ہردوکلومیٹر پر ایک ری سائیکل زون بنا دیا جائے۔ اس میں عوامی تعاون کے ذریعے کہ وہ اپنا کاغذ، دھاتی اور دیگر کوڑے کو الگ پولی تھین میں ڈال کر باہر رکھیں۔ حکومت ان کے لئے الگ رنگ کے بیگز فراہم کرے۔ اسی طرح سے حکومت چاہے تو شہری مضافات میں سرکاری زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کی بجائے آرگینیکل اربن فاریسٹ کو فروغ دے۔ محکمہ جنگلات اور ماحولیات کو اپنی توانائیاں اس پر صرف کرنی چاہئیں۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ ماحولیاتی پروٹیکشن ایجنسی پنجاب اپنی اہم ذمہ داریوں کو چھوڑ کر تھانیداری رول اختیار کر چکی ہے۔ لاہورہائیکورٹ کی جانب سے انوائرمنٹ کیس میں اہم ہدایات کو نظر اندازکرکے شہرمیں تمام کاروباری سرگرمیوں کو تعطل کا شکار کیا جارہا ہے۔ ماحولیاتی پروٹیکشن ایجنسی پنجاب کی جانب سے لاہور،فیصل آباد، ملتان اورگوجرانولہ جیسے اہم اور کاروباری شہروں میں ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے رات آٹھ بجے کے بعد ایک جانب تمام کاروبار بند کرنے کا کہا گیاہے تو دوسری جانب ایک پوری فہرست جاری کی گئی ہے جس میں فارمیسی، پٹرول پمپ، بیکری، تندور، دودھ، کریانہ، مٹھائیوں، پھل سبزی،گوشت، ای کامرس، کوریئر، گیس،انٹرنیٹ اور ٹیلی کام نیٹ ورک کھلے رکھنے کی ہدایت ہے۔ بڑے بڑے ڈیپار ٹمنٹل سٹورز میں صرف گروسری سیکشن اورفارمیسی کھلے رکھنے کی ہدایت ہے۔عام طورپر بڑے شہروں میں لوگ اپنے کاروبار، فیکٹری یا آفس سے فری ہو کر شام کو شاپنگ کرتے ہیں۔خاص طورپرجب موسم تبدیل ہورہا ہوتو یہ خریداری بہت ضروری ہوتی ہے۔ لاہور، فیصل آباد،ملتان اور گوجرانوالہ جیسے بڑے شہروں میں لوگ اب زیادہ ترخریداری اب مالزاوربڑے شاپنگ سینٹرزمیں کی جاتی ہے جو کورڈ ہونے کی وجہ سے کافی حد تک محفوظ ہوتے ہیں۔ موسمی خریداری جہاں ملک میں کاروباری فروغ کا باعث ہے وہاں حکومت کو ٹیکس بھی زیادہ اکٹھا ہوتا ہے۔ لیکن موجودہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے سڑکوں پر رش کم ہواہے اور نہ سموگ میں کوئی کمی آئی ہے۔البتہ صرف لاہورمیں پانچ دنوں کے دوران ڈھائی ارب روپے کی معاشی سرگرمی کم ہوئی ہے۔ ایک جانب حکومت تاجر دوست ہونے کی دعوے دار ہے دوسری جانب بیورو کریسی اور پولیس فورس تاجروں کو باقاعدہ ہراساں کرنے پرتلی ہوئی ہے۔ کوئی سرکاری آرڈر نہ ہونے کے باوجود دکانیں بند کرانا، سیلزسٹاف کو دھمکانا،کیا ان حالات میں ہم کاروبارجاری رکھ سکیں گے؟ عدالتی حکم کے مطابق رات کو شہروں میں کنسٹرکشن مٹیریل لے کر داخل
ہونے والی بھاری گاڑیوں اور لاری اڈوں پر دھواں چھوڑنے والی بسیں سموگ کی بڑی وجہ ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔آپ شہرکے داخلی راستوں پر کھڑے ہوکر مشاہدہ کریں ان پر کوئی روک ٹوک نہیں البتہ اینٹری ریٹ بڑھ گیا ہے۔ہمارے ہاں سموگ کے حل کے لئے زیادہ سے زیادہ چالان اور گرفتاریوں پر زور دیا جار ہا تھا تاکہ عدالت میں کارکردگی پیش کی جاسکے۔حکومت اورعوام سب چاہتے ہیں کہ وہ صاف ہوا میں سانس لیں لیکن کیا یہ ہوا ڈنڈے سے صاف ہو گی؟ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اختیار ملنے پر مسئلہ حل کرنے کی بجائے اس سے اپنے فائدے لئے ایک نیا موقع پیدا کر لیتے ہیں۔ دوسرا ہمارے نظام نے ہماری ٹریننگ ایسی کر دی ہے کہ ہم دوراندیشی سے سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکے ہیں۔ ہمیں لندن اور بیجنگ کی سموگ بھری تاریخ سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ماحول دوست پالیسیز کے ذریعے عوام کو تیار کرنا ہو گا اور مل کر ہی اس عفریت سے چھٹکارہ ملے گا۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.