ایک ایمنسٹی سکیم بیوروکریسی کے لئے!

53

تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سنگاپور ملائیشیا کا صوبہ ہوا کرتا تھا اور یہ لوگ چوری، دونمبری اور بحری بیڑے لوٹ کر اپنی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے مشہور تھے ان دو نمبر لوگوں کا مطالبہ تھا کہ انہیں علیحدہ حکومت دی جائے تاکہ انکا پردہ فاش نہ ہو جائے ملائیشین پارلیمنٹ نے قرارداد پاس کی اور سنگاپور کو خوشی خوشی علیحدہ کر دیا اسکے بعد خوش قسمتی سے انہیںوزیر اعظم کی صورت میں لی کوان یو مل گیا جس نے اپنی سمجھ بوجھ سے سنگاپور کا نقشہ بدل کر رکھ دیا اسی لی کوان یو نے میاں نواز شریف کو اپنے گھر ملاقات کے لئے آدھے گھنٹے کا وقت دیا تھا اعتزاز احمد چودھری ِصاحب سابق سیکرٹری خارجہ اور امریکہ میں پاکستانی ایمبیسیڈر بھی رہ چکے ہیں وہ اس دورے پر میاں صاحب کے ساتھ تھے بتاتے ہیں کہ میاں صاحب نے اس سے سوال کیا کہ پاکستان کو کس طرح ترقی کی جانب گامزن کیا جا سکتا ہے؟ اس وقت لی کوان نے دوٹوک جواب دیا کہ گورنمنٹ کے معاملات میں فنانس کا عمل دخل نہیں ہو نا چاہئے یہ کہہ کر اس نے اپنے جوگرز کے تسمے باندھے اوریہ کہہ کر چلا گیا کہ میری واک کا وقت ہے ۔میاں صاحب جو اسکا جواب سمجھ نہ پائے تھے اپنے سیکرٹری سے پوچھنے لگے کہ آخر وہ کیا کہہ کر گیا ہے جس پر سیکرٹری نے بتایا کہ وہ کھلے اور صاف الفاظ میں بتا کر گیا ہے کہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ گورنمنٹ میں فنانس یعنی پیسے کا عمل دخل ہے ۔اگرلی کوان یو کی چھوٹی سی اس بات کو پلے باندھ لیا جائے تو ہمارے بڑے بڑے مسائل حل ہو سکتے ہیں !!!جب کوئی انسان بیوروکریسی میں داخل ہو اور اس وقت اسکے پاس دس مرلے کا ایک گھر ہو تو ریٹائر ہوتے وقت بھی اسکے پاس دس مرلے جائیداد ہی ہونی چاہئے۔ بس اس عمل کو یقینی بنا لیا جائے تو پاکستان ٹھیک ہو جائے گا ۔ریاض فتیانہ کو نئی نئی وزارت ملی تو وہ قریباً بیس بیوروکریٹس کے ساتھ کھانے پر پی سی ہوٹل میںپائے گئے میرے ساتھ موجود ایک دوست نے کہا کہ دیکھو یہ بیوروکریٹس کو کھانا اس لئے کھلا رہا ہے تاکہ ان سے اپنے کام نکلوا سکے میں نے حیرانی سے کہا کہ وزیر کو بیوروکریٹس کی کیا ضرورت ہے جس پر اس دوست نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ان بیوروکریٹس سے اچھے روابط نہیں رکھے گا تو اسکی فائلیں کئی کئی ماہ دفاتر میں پڑی رہیں گی اور ان پر کام شروع نہیں ہو گا اس لئے یہ سب کام نکلوانے کے لئے ضروری ہے ۔۔ یہ ہمارا نظام ہے جو تباہی کی وجہ ہے !

میرا چونکہ بیورو کریسی اور سیاستدانوں کے ساتھ شروع سے بیٹھنا اٹھنا رہا ہے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملتا رہا ہے سو 1996 کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کامران لاشاری ڈی سی لاہور تھے اور وٹو صاحب نئے نئے وزیر اعلیٰ بنے تھے ڈی سی سے جونیئر ایک افسرجو کہ حد سے زیادہ ایماندار ہیں سے گفتگو کے دوران انہوں نے نہایت افسردگی کے عالم میں بتایا کہ ہم نے رنگے ہاتھوں تین ڈاکوئوں کو گرفتار کیا تھا وٹو صاحب کا فون آگیا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دیا جائے فون کس کو آیا ہو گا اس سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں خیر اس افسر کا کہنا تھا کہ جب مدعا غائب ہی کرنا تھااور ہم مجبور تھے تو ہم نے تینوں کو ہی چھوڑ دیا ۔ یہی مداخلت پاکستان کے ترقی نہ کر پانے کی بڑی وجہ ہے!

رنگے ہاتھوں گرفتاری سے مشتاق رئیسانی ڈپٹی سیکرٹری خزانہ کے گھر چھاپہ میں پانی کی ٹینکیوں اور گاڑیوں کی سیٹوں سمیت ہر خفیہ جگہ سے پیسوں کے انبار کی کہانی یاد آئی جب عبرت کا نشان بنا دینے کی بجائے وکٹری کا نشان کیساتھ پھولوں کے ہار پہنا ئے رہائی ممکن ہوئی ہمارے حکمرانوں کو کیوں احساس نہیں ہوتا کہ وہ ایک قوم کی بہتری کی صورت میں احسان کر کے ہمیشہ کے لئے دلوں میں زندہ رہ سکتے ہیں !میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ ان کو رات کو نیند کس طرح آتی ہے کیاا نہیں موت یاد نہیں آتی انہیں اپنے اعمال وافعال سے ڈر نہیں لگتا ؟ ۔

جنرل فیض حمید جب فوج میں آئے تو ان کے والد کا گائوں میں ایک دس مرلے کا گھر تھا اور وہ بھی جوائنٹ فیملی سسٹم پر مشتمل تھا لیکن جب جنرل فیض حمید ریٹائر ہوئے تو ان کا مربعوں پر پھیلا ہوا فارم ہائوس کہاں سے آیا ؟؟؟ ۔
عمومی خیال پایا جاتا ہے کہ ایک ایس ایچ او کی ماہانہ تنخواہ ڈیڑھ سے دو لاکھ کے درمیان ہوتی ہیں ایک مرتبہ ایک ہائوسنگ سوسائٹی جس کی حدود میں تھانہ تھا اسکے حکام نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں ہم اس علاقے کے ایس ایچ او کو ماہانہ کیا معاوضہ دیتے ہیں میں نے جواب دیا ظاہر ہے ایک یا دو لاکھ۔۔ اس پر انہوں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ ہم ایس ایچ او کو ماہانہ دو ملین دیتے ہیںمیرے علم میں اضافہ تھا کہ کس طرح ایس ایچ او ماہانہ کروڑوں روپیہ اکٹھا کر لیتے ہیں اس حوالے سے مزید اگلی کسی نشست میں لکھوں گا ۔

خیربتانا یہ مقصود ہے کہ ایس ایچ اوز و ڈی سی تو دور، ان کے سٹاف افسران کی جائیدادیں چیک کی جائیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے یہاں چیئرمین، ایم پی اے، ایم این اے ، حکومتی عہدیدار ، بیوروکریٹس کس کس کا ذکر کریں ہر کوئی چور ہے کسی کا مکروہ چہرہ سامنے آ جاتا ہے اور کسی کا کبھی نہیں آ پاتا !
میں کامونکی کا رہنے والا ہوں وہاں وکیل خاں نامی ایم پی اے رہ چکے ہیں) اللہ غریق رحمت کرے ( بڑے بزرگ بتاتے ہیں کہ وکیل خاں انکے گھروں میں سائیکل پردودھ سپلائی کیا کرتا تھابعدازاں اس نے سیاست میں قدم رکھاغنڈہ گردی کے ذریعے علاقے میں دبدبہ بنا لیا تین مرلے کے گھر سے کھربوں کے محل بنا لئے آج اسکے بیٹے بھی ایم پی اے ہیں اور ان کا یو کے میں فائیو سٹار ہوٹل ہے یہ فقط ایک مثال ہے یہاں وزارتوں کے سودے ہوتے ہیں یہی ہر ایم پی اے ہر بیوروکریٹ ، ایس ایچ او ، کمشنر کی کہانی ہے کوئی ایک شعبہ ایسا نہیں جہاں ایمانداری سے نظام چل رہا ہو بیوروکریٹس جب اکٹھے بیٹھتے ہیں تو معنی خیز مقابلے بازیاں چلتی ہیں کہ میرا نیٹ ورک تو اچھا چل رہا ہے مجھے بہت پیسہ بچتا ہے تم نے غلط شعبہ پکڑ لیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔ افسوس کا مقام ہے اگر ایک انسان سائیکل پر آتا ہے اور ہوائی جہاز پر واپس جاتا ہے تو اس کا احتساب کرنے والا آخر کوئی کیوں نہیں ؟۔

جناب پرائم منسٹر اور آرمی چیف صاحب سے میرا فوری مطالبہ ہے کہ بیورو کریسی کے لئے ایمنسٹی اسکیم لائی جائے اس سکیم کے مطابق بیوروکریٹس کو یہ آفر دی جائے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت کا پچاس فیصد رکھنا چاہیں تو رکھ لیں لیکن پچاس فیصد عوام کا پیسہ واپس کر دیں وگرنہ ان کی پراپرٹی ضبط کرلی جائے گی اور سخت ست سخت سزا بھی دی جائے گی۔
بقیہ اگلی نشست میں !

تبصرے بند ہیں.