لاہور میں صرف ماحول کی آلودگیاں نہیں پولیس کی آلودگیاں اور درندگیاں بھی بڑھتی جارہی ہیں ،کرپشن ،ظلم اور اس قسم کی دیگر لعنتوں کا یہ مقابلہ دوسرے صوبوں کی پولیس سے پنجاب پولیس ہر حال میں جیتنا چاہتی ہے ،بلکہ جیت چکی ہے ،بہت عرصے سے میں نے پولیس گردی پر کچھ نہیں لکھا ،مگر پچھلے کچھ عرصے سے کچھ پولیس افسروں کی کرپشن ،روایتی چالبازیاں اور مظلوم عوام پر ڈھائے جانے والے ستم اس قدر بڑھ چکے ہیں نہ چاہتے ہوئے بھی لکھنا پڑا ہے ،حالانکہ میں جانتا ہوں فیلڈ میں تعینات بیشمار بے حس اور بے غیرت پولیس افسران پر اس کا کوئی اثر نہیں ہونا کیونکہ ان کا’’ کلہ‘‘ بہت مضبوط ہے ،جو جتنا کرپٹ ہے اْس کی سفارش اْتنی تگڑی ہے ،آپ اْن کا کچھ بگاڑ یا اْکھاڑ نہیں سکتے ،آپ بس اپنے حصے کی شمع روشن کر سکتے ہیں ،کل ڈاکٹر عفان قیصر نے میرے ساتھ وی لاگ میں سوال کیا’’بْزدار اور مریم کی حکمرانی میں کیا فرق ہے ؟‘‘ ،میں نے عرض کیا باقی شعبوں میں مریم کی حکمرانی بْزدار کی حکمرانی سے شاید کچھ بہتر ہے مگر پولیس کے شعبے میں کہیں کوئی بہتری دکھائی نہیں دیتی ،یہ درست ہے کہ پولیس افسران اب بھاری رقمیں لے کر تعینات نہیں کئے جاتے مگر جو تعینات کئے جاتے ہیں اْن میں اکثر اتنے نکمے مردم بیزار کرپٹ اور فنکار ہیں کہ بزدار کے دور میں بھاری رقمیں دے کر تعینات ہونے والے اْن سے کہیں بہتر تھے ،فیلڈ میں تعینات اعلیٰ پولیس افسران اندرون و بیرون مْلک کتنی جائیدادیں بنا لیں گے ؟ اپنی ناجائز کاریوں کے عوض کتنے پلاٹ اپنے مالکان سے یہ بٹور لیں گے ؟ جانا بالاآخر اْنہوں نے دو گز کے اْس پلاٹ میں ہے جس کے ’’فرنٹ‘‘ کے بارے میں یہ کسی کو کچھ بتا سکیں گے نہ’’کورڈ ایریا‘‘ کے بارے میں بتا سکیں گے ،آج کل بیشمار ظالم کرپٹ اور حکمرانوں کے غلام پولیس افسران یورپ و دیگر اعلیٰ ممالک کی شہریتیں حاصل کرنے میں مصروف ہیں ،کچھ حاصل کر بھی چکے ہیں جن کے نام مزید دستاویزات حاصل کرنے کے بعد مناسب وقت پر میں بتاؤں گا ،ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد غیر مْلکی شہریت حاصل کرنے کی ان کی کوششوں میں اچانک تیزی آگئی ہے ،پاکستان کو وہ صرف لْوٹ مار کا ایک مرکز سمجھتے ہیں ،آج کل بڑے بڑے قبضہ مافیا کے ناجائز کام یہ پاکستان میں کرتے ہیں اور اس کی’’فیس‘‘ بیرون مْلک پکڑتے ہیں تاکہ پکڑے نہ جائیں ،سوائے پاکستان کے دْنیا کے کسی اور کونے میں لوگوں پر ظلم کر کے ،اْن کے حق مار کے یہ اْتنا مال و زر نہیں کما سکتے جتنا اس طرح کے غلیظ کام کر کے یہ پاکستان میں کما سکتے ہیں ،ان کی رسیاں دراز ہیں مگر قانون قدرت کے مطابق سدا دراز تو نہیں رہنی ،پاکستان سے یہ فرار ہو بھی جائیں موت تو اْنہیں برطانیہ،امریکہ ،یورپ آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی آجائے گی ،دْنیا کے بیشمار قبرستان اْن کی قبروں سے بھرے پڑے ہیں جنہوں نے حق سچ کا ساتھ صرف اس لئے نہیں دیا تھا کہیں مارے نہ جائیں ،نو مئی کی آڑ میں سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو گرفتار کر کے بعد میں اْن سے بھاری خرچے لے کر اْنہیں چھوڑا گیا ،کچھ لوگوں نے بھاری سفارشوں کے ساتھ ساتھ بھاری خرچے اس لئے بھی دئیے کہ خالی سفارشوں سے اْنہیں کہیں دوبارہ نہ پکڑ لیا جائے ،شادی کی ایک تقریب میں شراب کے نشے میں دھت ایک پولیس افسر نے مجھ سے کہنے لگا ’’سر نو مئی کا واقعہ نہ ہوتا میں کبھی ڈیفنس میں گھر نہ بنا پاتا نہ اچھی گاڑی لے سکتا‘‘ ،ایک زمانے میں سب سے زیادہ معطلیاں اور برطرفیاں کرپشن کی شکایات پر ہوتی تھیں ،اب اس ’’جْرم‘‘ میں ہوتی ہیں کہ آواز حق بلند کرنے والوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا ،کرپشن اب کوئی جْرم ہی نہیں رہا ،اْوپر سے لے کر نیچے تک حرام کاریوں کی کئی داستانیں روزانہ سْننے کو ملتی ہیں ،ایک ایس ایچ او سے میں نے کہا ’’تم نے میرے فلاں عزیز سے پانچ لاکھ روپے رشوت لی ہے حالانکہ تم جانتے ہو اْن کا کام بالکل جائز تھا‘‘ ،میں تمہاری شکایت کروں گا‘‘ ،وہ بولا’’سر کر دیں شکایت مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ،میرے ایس پی صاحب میرے ساتھ فٹ ہیں ،میں نے جو پانچ لاکھ روپے آپ کے عزیز سے لئے اْن میں سے صرف پچاس ہزار میں نے رکھے ،باقی سارے ایس پی صاحب کو پہنچا دئیے تھے ،آج کل ہمارے ڈی آئی جی صاحب اکثر سیاسی سفارش رد کر دیتے ہیں ،وہ ایس ایچ اوز کی زیادہ تر پوسٹنگ ٹرانسفرز ڈویژنل ایس پیز کی سفارش پر کرتے ہیں ،سو جب تک میرے ایس پی صاحب میرے ساتھ فٹ ہیں آپ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے‘‘ ،دوسری طرف ایس پی صاحبان کے خیالات بھی ایسے ہی ہیں ،وہ آگے اپنے اعلیٰ افسران سے فٹ ہیں اور اعلیٰ افسران آگے اْن سے فٹ ہے جن کی مرضی کے بغیر چڑیا پر نہیں مارتی ،یہ بھی حیران کْن ہے ایک حکمران سیاسی جماعت کے سربراہ کی سفارش بلکہ حکم پر تعینات ہونے والا ایس ایس پی بطور ڈی آئی جی لاہور کوئی سیاسی سفارش نہیں مانتا ،یہ تاثر شاید اتنا درست نہیں ہے ،اب ان حالات میں بے چارہ یاسر شامی لاکھ وی لاگ کچھ پولیس افسران کی درندگی کرپشن یا فن خوشامد پر کر لے کوئی فرق نہیں پڑنا ،یا میں اْن کی بے غیرتیوں پر لاکھ کالم لکھ لْوں کوئی فرق نہیں پڑنا ،کیونکہ جنہوں نے ان کے خلاف ایکشن لینے ہیں وہ خود ان ہی جیسے ظالم اور کرپٹ ہیں ،یاسر شامی نے حال ہی میں سی آئی اے کے ایک بدمعاش اے ایس آئی کے خلاف واویلا کیا ہے ،یہ اے ایس آئی ایک ملزم پر تشدد کرتے ہوئے اْس کی چیخیں اْس کی بوڑھی ماں کو فون پر سنوا رہا تھا اور ماں بے چاری اْس کی منتیں کر رہی تھی’’میرے پْتر نْوں نہ مار ‘‘ ،یہ تو صرف ایک واقعہ ہے جس کا یاسر شامی نے رونا رویا ہے ،ہمارے تھانوں اور اْن کی سرپرستی میں چلنے والے عقوبت خانوں میں ایسے کئی واقعات روزانہ ہوتے ہیں کسی کے کان پر جْوں تک نہیں رینگتی ،سی آئی اے پولیس کو کچھ اعلیٰ افسروں نے صرف اپنے ذاتی جائز ناجائز کاموں کے لئے وقف کر دیا ہوا ہے ، اس کا کوئی کام ایسا نہیں جو کسی اچھے حوالے کے طور پر اب کبھی ہمارے سامنے آیا ہو ،سی آئی اے کے کچھ افسران اپنے اعلیٰ افسران کی جائز ناجائز فوٹیکیں یا فرمائشیں پوری کر کے اْس کے عوض اندھا دْھند مال بنا رہے ہیں ،اْن کے ماتحت بھیڑیے جسے چاہیں پکڑ لیتے ہیں اور بھاری رقمیں لے کے چھوڑ دیتے ہیں ،مجھے روزانہ ایسی کئی داستانیں سننے کو ملتی ہیں ،لوگ مجھ سے کہتے ہیں سی سی پی او لاہور کے نوٹس میں لائیں ،میں عرض کرتا ہوں’’سی سی پی او لاہور زیادہ سے زیادہ کسی کو معطل کرنے کے اور کیا کرسکتا ہے ؟ کوئی تگڑی سفارش آگئی معطلی بھی واپس ہو جانی ہے ،ایسی صورت میں میری کیا عزت رہ جائے گی ؟ البتہ اپنے دوست سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ سے ایک سوال میں ضرور پوچھنا چاہوں گا ،وہ کون سے خاص اور مذموم مقاصد ہیں جن کی تکمیل کے لئے کچھ بدنام زمانہ انسپکٹرز کو سی آئی اے میں بطور ڈی ایس پی تعینات کر دیا جاتا ہے ؟ کیا پنجاب کے سارے ڈی ایس پی مر گئے ہیں یا ایماندار ہوگئے ہیں جو سی آئی میں نہیں لگ سکتے اور اْن کی جگہ مجبورا ًانسپکٹرز کو لگانا پڑتا ہے ؟ ؟ ؟
تبصرے بند ہیں.