ہاکونے جاپان میں ایک نہایت خوبصورت سیاحتی مقام ہے۔ ایک صبح ہم ہاکونے کیلئے روانہ ہوئے ۔ سمند ر کیساتھ گزرتی سڑک پر گاڑی بھگاتے نور بھائی نے بہت دور ایک پہاڑ کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ ہمیں اس پہاڑ کی چوٹی تک جانا ہے۔ انتہائی خوشگوارموسم اور کھانا گاوا پریفکچر کے سر سبز و شاداب مضافاتی علاقے۔راستے میں ہم فیوجیا ہوٹل میں رکے۔ یہ ایک تاریخی ہوٹل ہے جو 1884 میں قائم ہوا تھا۔ اس کے گرد و پیش کا علاقہ سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔ فیوجیا ہوٹل بذات خود ایک سیاحتی مقام ہے۔ اس کا اندرونی اور بیرونی حصہ اس زمانے کی تاریخ اور ثقافت کا عکاس ہے۔ اس تاریخی ہوٹل میں چارلی چپلن، شہزادہ چارلس، ہیلن کیلر سمیت کئی معروف شخصیات قیام کر چکی ہیں۔ نور بھائی نے بتایا کہ ان کی شادی اس ہوٹل میں ہوئی تھی۔یہاں کافی پینے کے بعد ہم پہاڑ کی سمت روانہ ہوگئے۔ سر سبز و شاداب پہاڑی سلسلے کے درمیان سے گزرتے ہوئے ، مجھے پاکستا ن یاد آ گیا۔ ہمارے ملک میں جہاں اچھی سڑکیں بنی ہیں، وہاں کے پہاڑی سلسلے بھی جاپا ن جیسے ہی ہیں۔ پتہ چلا کہ ہاکونے اس قدر معروف سیاحتی مقام ہے کہ یہاں سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر سمیت کئی معروف شخصیات چھٹیاں گزارنے آتی ہیں۔
پہاڑپر جانے کیلئے گاڑیوں کی ایک طویل قطار موجود تھی۔ چیونٹی کی رفتار سے گاڑیاں آگے سرک رہی تھیں۔ مجال ہے کہ کوئی ہارن بجائے یا قطار توڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرئے۔ خیال آیا کہ مہذب قومیں اسی طرز عمل کی حامل ہوتی ہیں۔مطلوبہ سیاحتی مقام تک پہنچنے کے لئے ایک ہوائی راستہ بھی موجود ہے۔ یہاں ایک کیبل کار چلتی ہے۔ نور بھائی نے مجھے کیبل کار میں بٹھایا اور خود گاڑی چلاتے ہوئے وہاں تک پہنچے ۔ میں پہاڑوں اور جنگلات کے اوپر سے گزرتے ہوئے اووا قدانی تک پہنچی۔ یہاں ایک بڑا پہاڑ ہے۔ہزاروں سال پہلے یہا ں آتش فشاں پھٹا تھا۔ آج بھی اس پہاڑ سے جگہ جگہ سفید دھوا ں اٹھتا ہے۔قریب جائیں تو گندھک جلنے کی بو محسوس ہوتی ہے۔ تیز ہوا چل رہی تھی۔ ٹھنڈ اس قدر تھی کہ کوٹ پہننے کے باوجود مجھے سخت سردی محسوس ہو رہی تھی۔ یہاں ہزاروں سیاح موجود تھے ۔ عمر رسیدہ بوڑھے مرد اور خواتین ، جن کی کمریں دہری ہو چکی تھیں، وہ بھی پہاڑ کی سیر کیلئے آئے تھے۔ کچھ سیاحوں کے ہمراہ کتے تھے۔ کتوں نے جیکٹ پہن رکھے تھے۔
یہاں آتش فشاں کے کھولتے پانی میں انڈے ابالے جاتے ہیں۔ جاپانیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ سیاہ چھلکے والا ابلا انڈا کھانے سے آدمی کی زندگی میں سات سال کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ انڈے خریدنے والوں کا ہجوم لگا تھا۔ غالبا یہ سب اپنی عمر میں اضافے کے خواہشمند تھے۔ زندگی بڑھانے کے خواہشمند اس ہجوم کو دیکھ کر میں نے نور بھائی سے پوچھا کہ جاپان میں خود کشیوں کا رجحان اس قدر زیادہ کیوں ہے؟ کہنے لگے کہ جاپانی نہایت آسودہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ تاہم یہ بہت حساس قوم ہے۔ کوئی معمولی سا واقعہ ہوتا ہے تو یہ دل گرفتہ ہو کر خود کشی کر لیتے ہیں۔ بہرحال، ہم نے انڈوں کا ایک پیکٹ لیا اور دو دو انڈے کھا لئے۔ انڈے کھا کر میں نے مذاقا کہا کہ ا ب میری زندگی میں چودہ برس کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس خوبصورت جگہ کو دیکھ کر مجھے اللہ کی قدرت یاد آگئی۔ میرے رب نے یہ دنیا کس قدر خوبصورت بنائی ہے۔ میری قسمت جو میرے قدم یہاں پڑے ۔ آج میں وہ سب کچھ دیکھ رہی تھی جو ہم کبھی پڑھا اور سنا کرتے تھے۔ مجھے کب معلوم تھا کہ آتش فشاں کے کھولتے پانی میں ابلے یہ انڈے کھانے میرے نصیب میں لکھے تھے۔ مکہ مدینہ جائیں تو ہم مسلمان دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک بار بار یہاں آنا نصیب فرمائے۔ میرا معمول ہے کہ میں ہر اچھی جگہ یہ دعا مانگتی ہوں ۔ اور واقعتا اکثرو بیشتر اللہ پاک مجھے دوبارہ اس جگہ لے جاتا ہے۔ ہاکونے سے رخصت ہونے سے پہلے میں نے دل میں یہ دعا دہرائی۔ مجھے یقین ہے کہ میں دوبارہ اس خوبصورت جگہ پر جاوں گی۔
یہاں سے آگے ہم ایک خوبصورت جھیل پر آئے۔ اس سیاحتی مقام(Togentai) پر بھی مسافروں کی طویل قطاریں تھیں۔ کوئی شور شرابا نہ دھکم پیل۔ کوئی جلدی نہ جلد بازی۔ سب اپنی باری کے منتظر تھے۔ ہم سیاحوں سے بھرے ایک کروز میں سوا ر ہوئے اور بیس، پچیس منٹ محو سفر رہے۔یہاں پانی کا شور تھا اور میرے رب کی قدرت ۔ یہاں سے جاپان کا سب سے اونچا پہاڑ ماونٹ فیوجی بھی دکھائی دیا۔یہ دنیا کے مشہور اور فعال آتش فشاں پہاڑوں میں شامل ہے۔ دوسرے کنارے پر ایک جنت نظیر وادی میں اترے۔یہ بھی بہت پرسکون اور خوبصورت مقام ہے ۔یہاں جاپانی طرز کے گھر،ہوٹل اور دکانیں ہیں۔ ہم ایک دو دکانوں میں گئے جہاں ہاتھ سے بنی لکڑی کی اشیاء دستیاب ہیں۔ یہاں جاپان کے روائتی پزل گیم کاراکری کی دکانیں ہیں۔ جاپانی دکان دار نے اس جادو کے ڈبے کو کھولنے کا کرتب دکھایا۔ تیس چالیس منٹ یہاں گزارنے کے بعد ہم جہاز پر آئے اور واپسی کیلئے روانہ ہو گئے۔ اس سارے سیاحتی سفر میں مجھے جگہ جگہ میرے رب کی قدرت دکھائی دیتی رہی۔
نور بھائی کی مہربانی جن کی وجہ سے میں نے یہ معروف سیاحتی مقامات نہایت سہولت سے دیکھ لئے۔ مجھے ان کی مصروفیات کا بخوبی اندازہ تھا۔ جاپان جیسے ملک میں کس کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے ۔ وہ تو یوں بھی ایک معروف اور مصروف کاروباری شخصیت ہیں۔بیشتر پاکستانیوں کی طرح انہوں نے اپنی محنت اور جدوجہد سے جاپان میں اپنا مقام بنایا ہے۔ وہ پاکستان کی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی نوازش جو انہوں نے میری اتنی عمدہ میزبانی کی۔ وہ نہ ہوتے تو میں جاپان کے اتنے شہروں اور علاقوں کی سیاحت سے قاصر رہتی۔ وہ علی الصبح میرے ہوٹل پہنچ جاتے۔گھنٹوں ڈرائیو کرتے اور مجھے گھماتے پھراتے۔
میرا وقت اس لئے بھی زیادہ اچھا گزرا کہ دوران سفر وہ پاکستان کے سیاسی حالات پر گفتگو کرتے رہتے۔ میں بھی اپنی محدود معلومات کے مطابق اس گفتگو میں حصہ ڈال دیتی۔ یہ جان کر مجھے بہت اچھا لگا کہ وہ پاکستان کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو جاپان کے چوٹی کے تجارتی اداروں کیساتھ منسلک کرنے کے لئے پر عزم ہیں۔ہمارے سرکاری ہسپتالوں کے لئے جدید جاپانی مشینری کی فراہمی کا ایک منصوبہ بھی ان کے پاس ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف سے ان کی یاد اللہ ہے۔ وہ اس سلسلے میں ان دونوں سے ملاقات کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ اللہ کرئے کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کر سکیں۔
سفر سے واپسی پر ہم نے red lobster نامی معروف ریستوران میں کھانا کھایا۔ جاپا نی ویٹر اسقدر خوددار ہیں کہ وہ گاہکوں سے ٹپ وصول نہیں کرتے۔تاہم اس قدر مودب کہ آپ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر آرڈر لیتے اور گفتگو کرتے ہیں۔رات کے کھانے کے بعد نور بھائی کے خاندان سے چائے پر ملاقا ت ہوئی۔ان کی جاپانی بیوی ، بیٹیوں اور بیٹے سے مل کر بہت اچھا لگا۔ سب خواتین نے سروں کو دوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ مجھے تو یہ سادہ گھریلو خواتین لگیں۔ ایسے جیسے ہماری بیشتر پا کستانی مائیںاور بہنیں ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی بیگم گھر کے سارے کام خود کرنا پسند کرتی ہیں۔ ان کی ایک بیٹی روانی سے اردو بولتی ہے۔ لیکن جاپانی لہجے میں۔ ملک نور صاحب روانی سے جاپانی بولتے ہیں ، لیکن اردو لہجے میں۔جاپان کی سیاست پر بات چلی تو کہنے لگے کہ جاپانی سیاست دانوں اور حکمرانوں کے ڈھنگ نرالے ہیں ۔ یہ بالکل عام شہریوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی بیوی بتانے لگیں کہ آج ہم برگر کھانے گئے تو جاپان کا سابق وزیر خارجہ اور موجودہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا وزیر ریستوران کے باہر کھڑا لوگوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہا تھا۔ یہ ان کی کیمپین کا طریقہ کار ہے۔کیا سیدھا سادہ طرز سیاست ہے۔ کاش ہمارے سیاست دان بھی جاپانی سیاست دانوں سے کوئی سبق سیکھیں۔ یہ سن کر بہت ا چھا لگا کہ انہوں نے بچوں کو دین کی طرف راغب رہنے کی خاص تاکید کر رکھی ہے۔ نماز ، قرآن کی پابندی کی بھی ہدایت ہے۔ میں نے انہیں دعا دی کہ اللہ پاک آپ کے بچوں اور آنے والی نسلوں کو صراط مستقیم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.