پاکستان ساڑھے تین برس بعد ہوم سیریز جیتنے میں کامیاب

120

پاکستان نے انگلینڈ کو تیسرے اور فیصلہ کن ٹیسٹ میچ میں نو وکٹوں سے شکست دے کر سیریز دو ایک سے جیت لی ہے۔راولپنڈی میں کھیلے گئے میچ میں پاکستانی سپنرز کی شاندار کارکردگی کی بدولت مہمان ٹیم صرف 36 رنز کا ہدف ہی دے پائی جسے پاکستانی بلے بازوں نے ایک وکٹ کے نقصان پر حاصل کر لیا۔پاکستان انگلینڈ کے خلاف آٹھ برس بعد کوئی ٹیسٹ سیریز جیتا ہے جبکہ اس نے 13 برس کے وقفے کے بعد انگلینڈ کو کسی ہوم سیریز میں ہرایا ہے۔یہ سنہ 2020/21کے بعد پہلا موقع ہے کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر کوئی ٹیسٹ سیریز جیتی ہے۔ تین برس قبل پاکستان نے جنوبی افریقہ کو دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں دو صفر سے ہرایا تھا۔میچ کے تیسرے روز دوسری اننگز میں انگلش ٹیم کے 112رنز پر آٹ ہونے کے نتیجے میں اس میچ میں فتح کے لیے پاکستان کو 36رنز کا ہدف ملا جس کے تعاقب میں پاکستانی اوپنرز نے جارحانہ انداز اپنایا اور پہلے ہی اوور میں دس رنز بنا لیے۔14کے مجموعی سکور پر پاکستان کو پہلا نقصان اٹھانا پڑا جب جیک لیچ نے صائم ایوب کو ایل بی ڈبلیو کر دیا۔ ان کی جگہ شان مسعود کریز پر آئے اور آتے ہی لگاتار چار چوکے لگا کرانگلش ٹیم کی دبا ڈالنے کی کوشش ناکام بنا دی۔اگلے ہی اوور کی پہلی گیند پر جب شان مسعود نے چھکا لگایا تو پاکستان 36رنز کا ہدف عبور کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا اور شان مسعود اپنی قیادت میں پہلی ٹیسٹ سیریز جیت چکے تھے۔اس سے قبل سنیچر کو انگلینڈ نے اپنی دوسری اننگز 20رنز پر تین وکٹیں گنوانے کے بعد مشکل حالات میں دوبارہ شروع کی تو اسے پہلے ٹیسٹ میچ میں ٹرپل سنچری بنانے ہیری بروک سے ایک بڑی اننگز کی امید تھی لیکن جو روٹ کے ساتھ ان کی شراکت ٹیم کا سکور 66رنز تک ہی لے جا سکی۔اس موقع پرنعمان علی نے ان کی وکٹ لے کر پاکستان کو بریک تھرو دلوایا۔ بروک کی جگہ آنے والے کپتان بین سٹوکس دو اوور بعد جب نعمان علی کی چوتھی وکٹ بنے تو پاکستان کی اس میچ پر گرفت مزید مضبوط ہو گئی۔سکور میں پانچ رنز کے اضافے کے بعد میچ کی پہلی اننگز میں 91رنز بنا کر پاکستان کی گرفت کمزور کرنے والے جیمی سمتھ بھی ساجد خان کی آف سپن کا شکار ہو گئے۔اس موقع پر انگلینڈ کو پاکستان کی برتری ختم کرنے کے لیے دو رنز درکار تھے اور وہ چھ وکٹوں سے محروم ہو چکا تھا۔ تجربہ کار جو روٹ بھی زیادہ دیر وکٹ پر نہ ٹھہر سکے اور 33رنز بنانے کے بعد نعمان علی کی اس اننگز میں پانچویں وکٹ بن گئے۔انگلش ٹیم کے ٹیل اینڈر ساجد خان کی سپن کے جال میں جکڑے گئے جنھوں نے پہلے ریحان احمد اور پھر گس ایٹکنسن کی وکٹ لے کر انگلینڈ کی مشکلات دوچند کر دیں اور جب نعمان علی نے پاکستان کو آخری وکٹ دلوائی تو انگلینڈ کی برتری صرف 35رنز ہی تھی۔پاکستان کی جانب سے نعمان علی نے اس اننگز میں چھ جبکہ ساجد خان نے چار وکٹیں لی ہیں۔ ساجد خان نے اس میچ میں مجموعی طور پر دس وکٹیں لینے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔سعود شکیل کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ سیریز کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز پاکستانی سپنر ساجد خان کے حصے میں آیا جنھوں نے اس سیریز میں 19وکٹیں حاصل کیں۔گذشتہ روز پاکستان نے انگلینڈ کے 267رنز کے جواب میں جب اپنی اننگز کا آغاز کیا تھا تو اگرچہ صرف 73رنز پر ان کے تین کھلاڑی آئوٹ ہو چکے تھے لیکن کریز پر کپتان شان مسعود اور نائب کپتان سعود شکیل موجود تھے۔جمعے کو کھیل کے آغاز میں ایسا لگ رہا تھا جیسے پاکستان کی گرفت میچ پر مضبوط ہو رہی ہے اور انگلینڈ کو دوسری اننگز میں نہ صرف پاکستان کے خطرناک سپنرز کا سامنا ہوگا بلکہ انھیں کوئی ہدف طے کرنے سے پہلے اچھے خاصے رنز کا انبار لگانا پڑے گا۔لیکن پھر وہی ہوا جو اکثر پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہوتا ہے۔ 99 کے مجموعی سکور پر شان مسعود شعیب بشیر کا شکار بن کر پویلین واپس لوٹ گئے اور پھر انگلینڈ کے دوسرے سپنر ریحان احمد نے یکے بعد دیگرے محمد رضوان، سلمان آغا اور عامر جمال کو آئوٹ کردیا۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے 177رنز پر سات کھلاڑی آئوٹ ہو چکے تھے ایک مشکل پِچ پر اور گھومتی ہوئی گیند کے سامنے سعود شکیل دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور اپنی ٹیم کو بحران سے نکالا۔انھوں نے ٹیل اینڈر نعمان علی کے ساتھ مل کر آٹھویں وکٹ پر 88رنز کی اہم شراکت قائم کی۔ نعمان علی 84گیندوں 45رنز بنا کر شعیب بشیر کی گیند پر آئوٹ ہوئے۔لیکن اس شراکت کے خاتمے سے قبل ہی سعود شکیل نے 181گیندوں پر اپنے ٹیسٹ کریئر کی چوتھی سنچری مکمل کی۔ ان کی یہ سنچری اتنی محتاط تھی کہ ان کی اننگز میں صرف چار چوکے شامل تھے اور یہ چار چوکے بھی انھوں نے پہلے 50رنز مکمل کرنے کے بعد لگائے۔سعود کی اس ذمہ دارانہ اننگز کی بدولت جہاں پاکستان انگلینڈ پر 77رنز کی اہم برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا وہیں دوسرے دن کھیل کے اختتام پر انگلینڈ کی دوسری اننگز میں تین وکٹیں لے کر میچ پر اپنی گرفت بھی مضبوط کر سکا۔پاکستان کی فتح کے بعد سوشل میڈیا پر جہاں شائقین پاکستانی سپنرز ساجد خان اور نعمان علی کی تعریفوں کے پل باندھتے دکھائی دیے وہیں حال ہی میں سلیکشن کمیٹی کے کنوینر مقرر کیے جانے والے عاقب جاوید کی سپن پچز کے استعمال کے فیصلے پر بھی بات ہوتی رہی۔سابق پاکستانی کپتان محمد حفیظ نے اس کامیابی کا سہرا کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ نئے سلیکٹرز کے سر بھی باندھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے سلیکٹرز کو کریڈٹ ملنا چاہیے کہ انھوں نے بازی پلٹی، اہم فیصلے کیے اور ذمہ داری قبول کی۔عاقب جاوید کی سوچ کا اندازہ ہی نہیں تھا پاکستان میں ٹیسٹ میچوں کے لیے بنائی جانے والی پچز کا ناقد رہا ہوں اور وہ (عاقب جاوید)ہوم کنڈیشنز کو استعمال کرنے کے ایک واضح منصوبے کے ساتھ آئے۔انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے شاندار فتح ہے۔ جیسے ہی پچز پر گیند سپن ہونا شروع ہوا انھوں نے انگلینڈ پر غلبہ حاصل کر لیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ گذشتہ برس انڈیا میں ہوا اور اب پاکستان میں۔ انگلینڈ کی زیادہ خطرہ مول لینے کی حکمتِ عملی گھومتی ہوئی گیندوں کے آگے کام نہیں کرتی۔ایک صارف نے انگلش بیٹرز کا سپِن ماسٹر سعود شکیل سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ لوگ کہیں گے کہ اگر پِچ پر بال سپن ہو رہی ہے تو آپ ہیری بروک، جو روٹ اور دیگر کھلاڑیوں کو جج نہ کریں۔سعود شکیل کی بیٹنگ سے انتہائی متاثر نظر آئے۔ انھوں نے ان کی اس اننگز کو مثالی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعود شکیل نے نا صرف میچورٹی بلکہ صبر کا مظاہرہ بھی کیا۔کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والے ساجد صادق نے لکھا کہ سعود شکیل ایک بار بھر دکھا دیا کہ وہ پاکستان کے لیے کتنے اہم کھلاڑی ہیں۔انتہائی شرم کی بات ہے کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں تواتر سے پرفارم کرنے کے باوجود انھیں 27برس کی عمر میں ٹیسٹ ڈیبیو کروایا گیا۔سعود شکیل نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ اگر آپ کے پاس سپن بولنگ کو کھیلنے کی صلاحیتیں ہیں تو آپ ایسی پچز پر بھی اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ شاید یہ ان کی زندگی کی سب سے بہترین سنچری ہے۔سعود شکیل سابق کرکٹر برائن لارا کے مقابلے میں بہت مختلف بیٹر ہیں لیکن سوشل میڈیا صافین کو پاکستانی بیٹر کی سنچری پر پتا نہیں کیوں ویسٹ انڈین لیجنڈ یاد آگئے۔ایک صارف نے لکھا ہم نے برائن لارا کو نہیں دیکھا لیکن شکر ہم سعود شکیل کے زمانے میں جی رہے ہیں۔پاکستان کی ویمنز کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے لکھا کہ سعود شکیل کو یہ سینچری یاد رہے گِی۔ سیریز کے فیصلہ کن میچ میں انھوں نے ٹیم کو بحران سے نکالا اور ایک سپِننگ وکٹ پر سپنرز کے خلاف زبردست برداشت اور صلاحیتیں دکھائیں۔

تبصرے بند ہیں.