ایران اسرائیل کشیدگی

106

یکم اکتوبر 2024 کو اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے جوکہ 27 ستمبر کو حزب اللہ سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت پر ایران کا جواب سمجھا جاتا ہے کے بعد سے یہ خبریں زیر گردش تھیں کہ اسرائیل جوابی کاروائی کرے گا جس کیلئے وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران پر جوابی حملے کیلئے مخصوص اہداف کی منظوری دیدی ہے، امریکہ بہادر کیجانب سے بھی بیان سامنے آیا تھا کہ اسرائیل پر ایرانی حملے پر جوابی کاروائی اسرائیل کا حق ہے۔ 18 اکتوبر کو ‘ٹاپ سیکرٹ’ مبینہ خفیہ دستاویزات لیک ہوئیں جن میں امریکہ کیجانب سے ایران پر حملہ کرنے کے اسرائیلی منصوبے کا جائزہ لیا گیا تھا، ممکنہ اسرائیلی حملے سے متعلق دستاویزات کا تعلق امریکی انٹیلیجنس اہلکار سے تھا۔ دستاویزات اور سٹیلائٹ امیجز کے مطابق ایران پر حملے کیلئے اسرائیلی تیاریوں اور فوجی ساز و سامان کو نزدیکی اڈوں پر منتقلی کی ایک بڑی فوجی مشق کی گئی، متعلقہ معلومات ’’فائیو آئیز‘‘ یعنی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ شئیر کی جانا تھیں۔ جائزہ رپورٹ میں 2 ائیر لاؤنچڈ بیلسٹک میزائلوں گولڈن ہورائزن (2000 کلومیٹر دوری تک مار کرنے والا بلوس پاور میزائل سسٹم) اور راکس (دور تک زیر زمین اور زمین کے اوپر مار کرنے والا میزائل سسٹم) کا ذکر کیا گیا۔
ایران پر اسرائیلی ممکنہ حملے کے پیش نظر پاسداران انقلاب کی جانب سے نیتن یاہو کو خبردار کیا گیا تھا کہ اگر ایران پر جوابی حملہ کیا گیا تو اسرائیل کو اس کے خطرناک نتائج بھگتنا ہوں گے، جبکہ ایران نے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ ممکنہ اسرائیلی حملے میں جن ممالک کی فضائی حدود اور اڈے استعمال ہوئے ان کو ایران کا واضح حدف سمجھا جائے گا۔ ممکنہ طور پر اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے جس کی امریکہ نے مخالفت کی ہے چونکہ وہ نہیں چاہتا کہ امریکہ میں صدارتی انتخابات سے قبل خطے میں تناؤ بڑھے۔ تو دوسری جانب پاسداران انقلاب جو ایران کے اندر اور باہر عسکری اڈوں، اہم شخصیات اور فوج کے تحفظ کو ممکن بنانے کے ساتھ مخالف مزاحمت کے اختتام کی خدمات سرانجام دیتے ہیں اسرائیل کو خبردار کرنے ساتھ ممکنہ حملے کے خلاف تیاریوں میں بھی مشغول تھا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایران نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران شدید بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود اپنی ٹیکنالوجی اور جوہری صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے جس کی بدولت وہ مشرق وسطیٰ میں حزب اللہ اور حماس کی صورت میں زبردست ٹکر دینے کے ساتھ مزاحمت کی علامت بھی ہے۔ ایران فلسطین میں غزہ پٹی، جبالیہ کیمپ اور بیروت میں اسرائیلی بربریت اور نسل کشی پر واضح مؤقف رکھتا ہے اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارتا ہے۔
اسرائیل نے یکم اکتوبر ایرانی بیلسٹک میزائل حملوں کی جوابی کاروائی میں بروز ہفتہ علی الصبح فضائی حملے کرتے ہوئے تہران، شیراز، اصفہان اور کرج میں فوجی تنصیبات، ڈرون اور فضائی صلاحیت سمیت پاور اسٹیشنز کو نشانہ بنایا گیا، ایران نے اسرائیلی حملے پر کہا ہے کہ ایران جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے، اسرائیل کو متناسب ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایرانی فوجی حکام نے ایک بیان میں کہا کہ تہران کے قریب 3 مختلف مقامات پر حملوں کو ناکام بنانے کیلئے فضائی دفاعی نظام کو استعمال کیا گیا، کہا اسرائیل کی کمزور حملے کو بڑا کرکہ دکھانے کی ناکام کوشش تھی۔ پاسداران انقلاب نے کسی بھی دفتر کو نشانہ بننے کی تردید کی ہے، ایرانی ائیر ڈیفنس نے تمام حوائی اڈوں پر صورتحال معمول کے مطابق، حملوں کا کامیاب دفاع اور محدود نقصان کی تصدیق کی ہے تو دوسری جانب اسرائیلی میزائل حملے ناکام بنانے کی ویڈیو بھی جاری کردی گئی ہے۔ وائٹ ہاؤس بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران پر حملہ اسرائیلی دفاعی مشق ہے جس بارے جوبائیڈن کو پیشگی مطلع کردیا گیا تھا، وائٹ ہاؤس نے واضح کیا کہ ایران پر حملے میں امریکہ کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ ایران کو جوابی کارروائی کرنے پر خبردار بھی کیا ہے۔
عالمی منظرنامے میں ایران پر اسرائیلی حملے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے سعودی عرب کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایران پر حملہ ملکی خودمختاری اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے، سعودی عرب نے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور عالمی برادری سے کشیدگی کم کروانے اور علاقائی تنازعات ختم کروانے کیلئے اقدامات کی اپیل کی ہے۔ پاکستان نے بھی ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی ہے ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے اسرائیلی حملے ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل سے خطے میں اسرائیلی لاپرواہی اور مجرمانہ روئیے کے خاتمے کیلئے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام کیلئے کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے تنازعات اور عدم استحکام کا شکار خطے میں خطرناک حد تک کشیدگی کا باعث ہیں۔

تبصرے بند ہیں.