جرائم اور جسٹس سسٹم کا آپس میں گہرا رشتہ ہوتا ہے، اس لیے یک پرامن معاشرہ تشکیل دینے کے لئے ،اس سسٹم کی کامیابی کے لئے اس کا پہلا اصول یہ ہونا چاہے کہ اس سسٹم میں کسی طرح کی کسی کی بھی مداخلت نہ ہو ، دوسرا بڑا اصول جو کسی بھی ادارے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہے، وہ ہے ’احتساب کا نظام۔ جس سے ایک پر امن اور مساوی معاشرے کا بھی قیام عمل میں آتا ہے احتساب کا نظام اتنا سخت ہونا چاہیے کہ کوئی بھی بندہ کوئی بھی غلط کام کرتے وقت سو بار سوچے ۔تیسرا بڑا اصو ل قانون کی بلاروک ٹوک عملداری ہے جس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے ۔۔ قانون سب کے لیے ایک ہونا چاہیے ، قانون توڑنے والا کسی بھی رنگ، نسل، ذات، برادری، مذہب کا ہو یا حکومت کے ایوان میں بیٹھا ہوا کوئی اعلی عہدے دار۔ کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ عدل اور قانون سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ آفیسرز مقامی منتخب کیے جانے چاہیے جو وہاں کے ماحول کلچر علاقے اور عوام سے واقف ہوں ، تاکہ وہ مقامی لوگوں کو سمجھ سکیں۔ اوپر لیول سے ہوئی درست سلیکشن اور احتساب نیچے تک ٹرانسفر ہوتا ہے اور آخر کار اس کا اصل فائدہ عوام کو پہنچتا تھا۔ ’انویسٹی گیشن‘ کا نظام جدید دور کے مطابق ہونا چاہیے۔ اعلیٰ آفیسرز کے مقامی سیاسی عہدے داروں کو بھی عوام کے مسائل سے آگاہی موثر گشت سے ہوتی ہے جس کاانتظام ہونا چاہیے۔ گورنمنٹ جاب کے انتخاب کے وقت، سب سے پہلے امیدوار کے اثاثہ جات کا حساب لگایا جانا چاہیے تاکہ اگر دوران ملازمت اثاثوں میں کوئی غیر معمولی اضافہ سامنے آئے تو آفیسر کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے یہ کرپشن روکنے کا بھی موثر راستہ ہے۔سرکاری اہلکاروں کو رشوت ستانی سے بچانے کے لیے ان کی تنخواہیں ان کی ضرورت کے مطابق ہونے کے ساتھ انہیں دیگر مراعات سے(صحت ،تعلیم اور رہائش سے)، بھی نوازا جانا چاہیے۔ عوام کی عزت و نفس کی بے توقیری اور توہین سے بچانے کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ بنایا جائے۔ جس میں سختی سے منع فرمایا جائے کہ کوئی افسر عوام میں سے کسی کے منہ پر تھپڑ نہ مارے، نہ کسی کی ذاتی پراپرٹی ہتھیائے اور نہ کوئی زیادتی کرے، اگر کوئی ایسا کرے تو اس کے خلاف محکمانہ سخت ایکشن لیا جائے۔
اب آتے ہیں پولیس فورس میں سیاسی استعمال کی طرف کہا جاتا ہے کہ پولیس سب سے پہلے فرانس اور بعد میں انگلینڈ میں بنائی گئی۔ جب اس پولیس کا خاکہ بن رہا تھا تو یہ بات بھی زیر غور آئی کہ اسے سیاسی طور پر استعمال کیا جائے گا۔ اور ایسا ہوا بھی۔ لیکن انھوں نے اس پر قابو پالیا اور تدریجاً سیاسی عمل دخل ختم کر دیا گیا۔ ان ملکوں میں آج کی غیر سیاسی پولیس وجود میں آئی، جو وزارت داخلہ کے نیچے خودمختار رہ کر کرمنل جسٹس سسٹم کے ساتھ عوام کی بھلائی اور دفاع کا کام کرتی ہے، نہ کہ سیاسی ہتھکنڈوں کے لیے استعمال ہو۔ جبکہ ہمارے ہاں ہمارے وزیر اعظم حکومتی پارٹی کے ایم این اے ایم پی کے ساتھ رابطہ رکھنے کو کہتے ہیں اس عمل سے لامحالہ پولیس سیاسی دباو کا شکار ہو کر اپنے فرائض منصبی سے انصاف نہیں کر سکتی۔
پولیس افسران سے جب بھی بات ہوتی ہے ان کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس عوام کی جان و مال کے تحفظ، قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے اور پبلک سروس ڈلیوری میں بہتری کیلئے شب و روز کوشاں ہے اورماڈرن پولیسنگ کے اصولوں کے مطابق دستیاب وسائل کے بہترین استعمال کے ساتھ ساتھ بھرپور انسدادی کارروائیوں اور جدید انویسٹی گیشن طریقہ کار کو فروغ دیا جارہا ہے تاکہ جرائم پیشہ عناصر کے قلع قمع کے ساتھ عوام کی حفاظت اور خدمت کے عمل میں کوئی کسر باقی نہ رہے۔ ان کے مطابق تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے صوبے کے تمام تھانوں کو ڈیجیٹائزکر دیا گیا ہے اور فرنٹ ڈیسک، حوالات اور ایس ایچ اوز کے کمروں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں جبکہ ان کیمروں کوآر پی او آفس، ڈی پی او آفس کے علاوہ سنٹرل پولیس آفس میں مانیٹر کیا جا تاہے۔ ایس پی یو، سی ٹی ڈی، اینٹی رائٹ، ڈولفن اور پیروسمیت دیگر سپیشلائزڈ فورسز کے قیام سے پنجاب پولیس کی استعداد کار میں اضافہ ہوا ہے جس سے پولیس درپیش چیلنجز سے بہتر طور پر نبرد آزما ہو رہی ہے۔ اہلکاروں میں سٹریس مینجمنٹ سے متعلق مسائل کے ازالے کیلئے محکمے میں سائیکالوجسٹس کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے جبکہ سزاو جزا کے حوالے سے پنجاب پولیس میں انٹرنل اکاؤنٹیبلیٹی کا سخت نظام رائج ہے۔ محکموں میں اصلاحات کی ضرورت ہے پولیس بھی ان محکموں میں سے ایک ہے۔ پولیس کو مزید بااختیار بنا کر احتساب کا نظام موثر بنایا جائے لیکن انہیں دیگر محکموں (بیورو کریسی) کے ماتحت کر کے بنیادی اصول کی نفی کی جا رہی ہے۔
جرائم پر قابو پانا اور امن و امن کو برقرار رکھنا پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے اب یہ پولیس پر منحصر ہے کہ وہ کام کیسے کرتی ہے؟ پولیس کی اب وہ تعریف نہیں ہے جو عام لوگ سمجھتے ہیں۔ پولیس کا کام اب مجرم پکڑنا نہیں ہے، بلکہ عوام کو جرم سے بھی بچانا ہے۔ یورپین پولیس کی مثال لیں تو ہر علاقے کا پولیس چیف اس بات پر فوکس کرتا ہے کہ میرے علاقے میں فلاں جرم کتنی بار اور کیوں ہورہا ہے؟ اور اس سے عام لوگو ں کو کیسے بچایا جاسکتا ہے؟ اب اس بات پر بحث اور کانفرنسز ہورہی ہیں کہ کیا جدید سائنس ایجادات پولیس کے لیے استعمال کی جائے؟ یا پولیس کے لیے ایک الگ سائنس بنائی جائے؟ پھر یہ بحث ہے کہ ریاضی، شماریات، بایولوجی، کیمسٹری اور میڈیکل سائنسز کو پولیس سائنس کے اندر کیسے ضم کیا جائے؟ تاکہ جرائم میں کمی آسکے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ پولیس کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ پولیس کو جدید طریقے سے تفتیش کرنے کی تربیت نہیں دی گئی۔ یہ نہیں سکھایا جا رہا کہ یہ تشدد کے بغیر بھی تحقیقات کر سکتے ہیں۔‘‘فی الوقت پولیس تربیت کی توجہ تقریباً پوری طرح جسمانی تربیت پر ہوتی ہے جبکہ تفتیش کے جدید ترین طریقہ کار پر توجہ نہیں دی جاتی۔اس لیے تفتیش کاروں کو ایک پروفیشنل باڈی کے ذریعے بھرتی کیا جانا چاہیے جو بہترین ٹیلنٹ کو اپنے اپنے ونگز میں مستقل اور ناقابلِ تبادلہ عہدوں پر تعینات کرے۔ انہیں تفتیشی تربیت کے لیے مخصوص ادارے سے خصوصی تربیت دینی چاہیے۔ ضلعی اور سٹیشن سطح پر کتنے تفتیش کاروں کی ضرورت ہے، اس کا پتہ لگانے کے لیے پی آر سی کو ایک فارمولا چاہیے ہوگا جو جرائم کی شرح اور آبادی پر مبنی ہو۔ درحقیقت آپریشنز اور انویسٹی گیشن، دونوں کے ہی افسران کو ایک ہی معیار پر پرکھا جاتا ہے مگر تفتیش کاروں کو زیادہ خصوصی معیارات پر پرکھا جانا چاہیے۔ سینئر افسران کی ترقیوں کو تفتیشی ونگ میں لازمی ڈیوٹی کے ساتھ منسلک کر دینے سے بھی مجموعی معیار اور احساسِ ملکیت میں بہتری آئے گی۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ اس وقت لاہور پولیس کی کمان قابل ترین آفیسران کے پاس ہے وہ لاہور شہر میں پولیسنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان کے اہداف میں پولیس اصلاحات سرفہرست ہیں وہ پر عزم اور پر امید ہیں کہ لاہور پولیس کو آئی ٹی کے شعبے میں ایک ماڈل بنانے کے لئے وہ اپنی تما م تر توانائیاں بروئے کار لائیں گے۔ حرف آخر پاکستان میںپولیس کے متنازع کردار پر صرف میڈیا پر ہی نہیں پارلیمنٹ میں بھی بحث ہونی چاہیے اورقومی سطح پر پولیس نظام میں اصلاحات کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ وفاقی و صوبائی سطح پر پولیس اصلاحات کمیشن بنائے جائیں تاکہ پولیس کو سیاسی اثرو رسوخ سے حقیقی آزادی دلائی جا سکے اور پولیس افسران کی تعیناتی کو محکمانہ معاملہ بنایا جائے تاکہ اندرونی احتساب اور کارکردگی جانچنے کے اصولی طریقہ کار کو وضح کیا جاسکے۔ پولیس کے خلاف شکایات کو شفاف اور قابل رسائی ہونا چاہیے تاکہ عام لوگ بھی یہ جان سکیں کہ پولیس افسران قابل مواخذہ ہیں۔ جب تک پولیس کا محکمہ آزاد و مختارنہیں بنتا، یہ محض مقتدر افراد کا خدمت گار اور ناقابل مواخذہ ہی رہے گا۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.