ترمیم کس میں کرنی ہے؟

49

پورا ملک اس وقت اس الجھن کا شکار ہے کہ سیاسی حکمران اور ان کے اوپر بیٹھے بڑے سیاسی حکمران 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرا سکیں گے یا نہیں؟ حیرت اس بات پر ہے آئین سلامت رہا نہیں ترمیم کس میں کرنی ہے؟ ایک واقعہ یاد آیا، ایک بار افغانستان کے وزیر ریلوے پاکستان آئے، پاکستانی وزیراعظم سے جب ان کی ملاقات ہوئی انہوں نے پوچھا ”افغانستان میں تو ریلوے ہے ہی نہیں آپ وزیر ریلوے کیسے ہو گئے؟“وزیر ریلوے بولے جیسے آپ کے ہاں وزیر آئین و قانون ہوتا ہے”26 ویں آئینی ترمیم کا رولا اتنا پڑا ہوا ہے کل میں گراسری کے لیے گیا کاؤنٹر پر بیٹھا نوجوان مجھ سے کہنے لگا“سر میں سوشل میڈیا پر آپ کو فالو کرتا ہوں، آپ کے کالم پڑھتا ہوں، آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟ میں نے کہا ”ایک کیا دو پوچھ سکتے ہیں“ اس نے پوچھا ”آپ کو معلوم ہے یہ 26 ویں آئینی ترمیم کیا ہے؟“ میں نے عرض کیا ”یہ بات ہمارے بڑے بڑے سیاسی حکمرانوں کو معلوم نہیں مجھ ناچیز کو کہاں معلوم ہو گی؟“ اب اس نے دوسرا سوال پوچھا ”آپ کے خیال میں یہ ترمیم منظور کرا لی جائے گی؟“ میں نے عرض کیا ”میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے، اور یہ جو کوئی اور ہے وہ نامعلوم مجھے صرف سوچتا ہی نہیں مجھے اپنا فیصلہ بنا کر جاری کر دیتا ہے، جس کا پتہ مجھے بعد میں چلتا ہے اور میں اس کا کچھ بگاڑ بھی نہیں سکتا“ کاؤنٹر پر بیٹھے اس نوجوان سے میں نے کہا ”26 ویں آئینی ترمیم ہو نہ ہو آپ کی صحت پر اس کا کیا اثر پڑنا ہے؟“ یہ ترمیم اس آئین میں ہونے جا رہی ہے جس کا چہرہ اتنا مسخ کر دیا گیا ہے اس کی شناخت ہی باقی نہیں رہی، سیاسی حکمرانوں نے اپنے مالکان کے اشاروں پر مختلف ترمیموں کے اتنے داغ اس آئین پر لگائے اس کی صورت ہی نہیں پہچانی جاتی، ایک روز پاکستان نے اپنے آئین سے کہا
مجھے تو کر گئے حادثے بے رنگ و نور لیکن
تجھے کیا ہوا تیری صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
اس عالم میں ایک اور داغ آئین پر کسی نئی ترمیم کا لگا دیا جائے کیا فرق پڑتا ہے؟ عام آدمی کو پہلے بھی اپنے کیس کے لیے اکثر وکیل کے بجائے جج کرنا پڑتا تھا، نئی ترمیم کے بعد یہ روایت کون سی تبدیل ہو جانی ہے؟ تاریخ پہ تاریخ کا کلچر قیام پاکستان سے لے کر اب تک قائم و دائم ہے، نئی ترمیم کے بعد یہ روایت یا کلچر کون سا تبدیل ہو جانا ہے؟ کرپشن اور اقربا پروری ہماری نیت اور فطرت میں اگر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، نئی ترمیم کے بعد کون سا ہمارے عدالتی نظام نے اس سے چھٹکارا حاصل کر لینا ہے؟ اگر اس ترمیم سے پاکستان کے نظام عدل پر کوئی بڑی زد ہی نہیں پڑنی پھر یہ منظور ہو جائے یا نامنظور ہو جائے عوام کو کیا فرق پڑے گا؟ یہ صرف ”خواص“ کا کوئی ذاتی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لیے ہر اوچھا ہتھکنڈہ آزمایا جا رہا ہے، حیرت اس بات پر ہے آئین کے ساتھ چھیڑ خانی یا آئین کا بلنت کار جب بغیر کسی ترمیم کے ہی کر لیا جاتا ہے پھر یہ کھیل کھیلنے کی اتنی ضرورت کیا ہے؟ جب اس ملک کی عدلیہ کی روایت ایک اشارے پر ڈھیر ہونے کی ہے پھر آئین کے ساتھ مزید مذاق کی ضرورت کیا ہے؟ یہ شاید کوئی ذاتی انا کا مسئلہ بن گیا ہے جو امکانی طور پر حل ہو کر ہی رہنا ہے، بعد میں ملک اور نظام عدل پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ یہ پہلے کبھی کسی نے سوچا نہ اب کوئی سوچنے کی ضرورت محسوس کرے گا، ممکن ہے اس بار اس ترمیم سے ہمارے کچھ بڑے طاقتور لوگ کوئی بڑا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہوں، ایک ”بڑا مقصد“ تو سب کو معلوم ہے، اس کے حصول میں پہلی بار انہیں شدید مزاحمت اور دشواریوں کا سامنا ہے، اس کے باوجود عوام اس نئی ترمیم کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے، یہ کام صرف کچھ ارکان پارلیمنٹ اور کچھ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ہی کر سکتی ہیں، مہنگائی، ناانصافی اور اس قسم کی دیگر لعنتوں کی چکی میں پسنے والے عوام کو تو صحیح طرح معلوم ہی نہیں 26 آئینی ترمیم کس بلا کا نام ہے؟ اور اس سے پہلے جو آئینی ترامیم ہوئیں وہ کیا بلائیں تھیں؟ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول زرداری فرماتے ہیں ”عدالتی نظام کا جتنا مجھے پتہ ہے شاید ہی اور کسی کو پتہ ہو گا“ جس طرح کی وہ تابعداریاں آج کل کر رہے ہیں اور اب جبکہ انہوں نے یہ بھی فرما دیا ہے ”انہیں عدالتی نظام کا بہت پتہ ہے“ تو کیوں نہ نئی آئینی عدالت بنا کر اس کا چیف جسٹس بلاول زرداری کو بنا دیا جائے، اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا مستقبل میں شریف برادران سے پھر سے نمٹنا پڑ گیا بلاول یہ کام آسانی سے کر لیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں ان کا اصل حریف عمران خان نہیں شریف برادران ہیں، ویسے بھی اگر ہمارے کچھ مبینہ غیر سیاسی لوگ سیاسی عہدوں پر قبضے کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں تو ایک سیاستدان جو آکسفورڈ یونیورسٹی سے اللہ جانے کیا پڑھ کے آیا ہے وہ ایک عدالتی عہدے پر فائز کیوں نہیں ہو سکتا؟ مگر اس کی اجازت اسے شاید اس لیے نہ مل سکے کہ اگر سیاستدانوں کو عدالتی عہدوں پر قبضے کی چھوٹ مل گئی پھر معاملہ صرف عدالتی عہدوں تک محدود نہیں رہنا، ویسے ہمارے دوست بار بار آئین میں ترمیم کرنے کے بجائے اب کوئی ترمیم اپنی سوچ اور عمل میں کر لیں خدا کی قسم یہ ملک درست سمت کی جانب چلنا نہیں دوڑنا شروع کر دے گا، پاکستان ترقی کے پہلے زینے پر چڑھ ہی نہیں سکتا جب تک یہ فیصلہ نہ کر لیا جائے کہ ساری توجہ صرف اپنے اصل کام پر رکھی جائے گی، کوئی ”کاروبار“ اب اس ملک کی ترقی اور بہتری کا بھی شروع ہونا چاہیے کہ نہیں؟؟

تبصرے بند ہیں.