پاک و ہند: اعتماد کی بحالی، اُمید کی کرن

40

دو ہمسایہ ممالک کے درمیان طویل ترین دشمنی کی تاریخ میں پاکستان اور انڈیا کا نام سر فہرست ہے ان دو ممالک کے درمیان جب بھی کوئی بالواسطہ آمنا سامنا ہونے کا امکان بنتا ہو تو پوری دنیا میں اس پر تبصرے اور قیاس آرائیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ دونوں وزرائے اعظم یا وزرائے خارجہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں گے یا نہیں اس بات پر شرطیں لگ جاتی ہیں سائیڈ لائن ملاقات یا مذاکرات تو بہت دور کی بات ہے۔ ساری سفارتکاری ایک دوسرے کے پرانے حساب کتاب چکانے کی نذر ہو جاتی ہے۔
اسلام آباد میں ہونے والے SCO سمٹ کے موقع پر بھی یہی ہوا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دعوت نامہ وزیراعظم نریندر مودی کو بھیجا گیا تھا لیکن انہوں نے خود آنے کے بجائے اپنا وزیر خارجہ بھیج دیا۔ واقفانِ حال نے کہا کہ گزشتہ سال یہ سالانہ سمٹ انڈیا میں ہوا تھا جب یہاں PDM کی حکومت تھی تو پاکستان نے اپنا وزیراعظم بھیجنے کے بجائے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو بھیج دیا تھا جس کے جواب میں انڈیا نے بھی بدلہ چکانے کے لیے اپنا وزیر خارجہ بھیجا ہے لیکن جب بلاول انڈیا گئے تھے تو انہوں نے انڈین میڈیا کے ساتھ ایک بڑی مؤثر نشست کی تھی اور تفصیلی بات کی تھی جبکہ جے شنکر کو پاکستانی میڈیا کا سامنا کرنے کا مینڈیٹ نہیں دیا گیا تھا کہ کہیں معاملات پہلے سے زیادہ خراب نہ ہو جائیں۔ جے شنکر نے صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے بجائے انڈین ہائی کمیشن کے احاطے کے اندر درخت لگانے اور وہاں واک کرنے پر اکتفا کیا۔
پاکستانی میڈیا کی نسبت انڈین میڈیا نے جے شنکر کے دورہ اسلام آباد پر زیادہ لکھا ہے اور اسے مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔ ایک بات جو بارڈر کے دونوں طرف کے میڈیا نے نظر انداز کی اور کہیں بھی اس کا ذکر نہیں ہوا وہ یہ تھی کہ جے شنکر نور خان ایئر پورٹ پر اپنے طیارے سے باہر آئے اور وہاں انڈین ہائی کمشن والے انہیں خوش آمدید کہہ رہے تھے تو وہ پلٹ کر بطور خاص اس پاکستانی فوجی کے پاس چلے گئے اور اس سے ہاتھ ملایا جو ان کے طیارے کی سیڑھیوں کے پاس کھڑا تھا میرے خیال میں یہ اس پورے دورے کا سب سے زیادہ فرینڈلی Gesture تھا جو کہیں رپورٹ نہیں ہوا۔
انٹرنیشنل سفارتی پروٹوکول میں عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ جب دو Dignitary فوٹو شوٹ کے لیے مصافحہ کرتے ہیں تو بڑا عہدیدار دائیں طرف ہوتا ہے اور چھوٹا بائیں طرف لیکن وزیراعظم شہباز شریف اور جے شنکر کی فوٹو شوٹ میں وزیر خارجہ کو دائیں طرف کھڑا کیا گیا جبکہ وزیراعظم شہباز شریف بائیں طرف کھڑے تھے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جے شنکر ایک بڑے ملک کی نمائندگی کر رہے تھے لیکن بات غور طلب ہے۔
روایتی اور تاریخی طور پر پاکستان انڈیا کے ایسے Encounter کے موقع پر برف پگھلنے یا نہ پگھلنے کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ اس دفعہ انڈین میڈیا کہہ رہا ہے کہ برف پگھلنا شروع ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ انڈیا اس SCO سمٹ میں غیر حاضر رہ سکتا تھا مگر پھر بھی ان کا وزیر خارجہ شریک ہوا۔ دوسری بات یہ کہ جے شنکر نے وزیراعظم شہباز شریف کو SCO کی سربراہی پر مبارکباد دی۔
تیسرا یہ کہ اس موقع پر نہ تو بارڈر پر جھڑپیں ہوئیں نہ کہیں کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوا اور نہ ہی کشمیر میں کوئی خلاف معمولی پیش رفت ہوئی گویا یہ موقع پر امن طور پر اختتام پذیر ہوا۔
اس ملاقات سے اگلے ماہ آذر بائیجان کے شہر باکو میں Climate change پر ہونے والی اقوام متحدہ کانفرنس COP29 میں شہباز شریف اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات کے امکان پیدا ہو گئے ہیں۔ اور اگر واقعی یہ ملاقات ہو جاتی ہے تو سمجھ لیں کہ جے شنکر نے اپنا ہوم ورک صحیح کیا ہے۔
گو اس دوران کوئی سائیڈ لائن ملاقات نہیں ہوئی مگر وزیراعظم کی طرف سے مہمانوں کے لیے دیئے گئے ڈنر میں جے شنکر اور ان کے پاکستانی ہم منصب اسحق ڈار ساتھ ساتھ بیٹھے تھے انہوں نے اکٹھے کھانا کھایا اور گفتگو بھی کی اس موقع پر چیئرمین پی سی بی اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی انہیں جوائن کیا کہا جا رہا ہے کہ اگلے سال ہونے والی انٹرنیشنل چیمپئن ٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ کے لیے محسن نقوی نے کہا کہ انڈیا کو ٹیم بھیجنی چاہیے۔ سمجھا جا رہا ہے کہ حالات کی سمت درست رہی تو انڈیا کی ٹیم بائیکاٹ نہیں کرے گی انہیں یہاں تک کہا گیا ہے کہ انڈیا کے میچ لاہور میں رکھے جائیں اور انڈین کھلاڑی پاکستان میں قیام کرنے کے بجائے ہوائی جہاز پر میچ کھیلنے آئیں اور میچ کے بعد واپس چلے جائیں۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انڈیا پاکستان کے درمیان حالیہ جو تعلقات میں فریز آیا ہے وہ پاکستان کے اس مؤقف کی بنا پر ہے کہ جب تک انڈیا مقبوضہ کشمیر کی 2019ء والی پوزیشن پر واپس نہیں جاتا مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اب نواز شریف بھی کہتے ہیں کہ ہمیں غیر متنازع مسائل مثلاً موسمی تبدیلی اور تجارت پر بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے۔ اس طرح کرکٹ کی بحالی پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ احسن اقبال نے تو یہاں تک کہا ہے کہ تعلقات کو 1999ء کی سطح پر آگے بڑھنا چاہیے جب واجپائی نے مینار پاکستان لاہور کا سفر بس پر کیا تھا اور اعلان لاہور پر دستخط کیے گئے تھے۔
برف پگھلنے کی بات ابھی قبل از وقت ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جمنے والی برف کی نوعیت فریج کی برف نہیں بلکہ وہ بھاری برفانی تودے ہیں جن سے ٹکرا کر Titanic جیسا بحری جہاز بھی ڈوب جاتا ہے۔ اگر فریج والی برف کو مان لیا جائے تو پھر بھی ابھی تو صرف فریج کا دروازہ کھولا گیا ہے برف پگھلنے کا عمل شروع کرنے کے لیے وقت صبر اور نیت درکار ہے۔
SCO کا قیام ہی امریکی بالادستی کے خاتمے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا لہٰذا یہ سمٹ امریکا کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے امریکی ترجمان دفتر خارجہ میتھیو ملر کا بیان دیکھ لیں اس نے کہا کہ پاکستان کو محتاط رہنا ہو گا کہ وہ کن ممالک سے تعلقات بنا رہا ہے اس میں شاید ان کا اشارہ ایران کی طرف تھا ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے گزشتہ ماہ اجلاس میں پاکستان نے انڈیا پر نیو کلیئر اجزا کی سمگلنگ کا جو الزام لگایا ہے ہم اس کو بغور دیکھ رہے ہیں ساتھ ہی اپنے بیان میں انہوں نے کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل پر انڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکی اشارے واضح ہیں کہ وہ SCO کو اپنے خلاف سمجھتا ہے اور چائنا Specific ہونے کی وجہ سے اس سے خوف زدہ ہے۔ اس اجلاس سے امریکہ کو خاصی بے چینی کا سامنا ہے جبکہ یورپین ممالک اس کو پہلے ہی اینٹی نیٹو الائنس کہہ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے بعد یہ آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی بین الریاستی تنظیم بن کر ابھری ہے جس میں روس اور چین کی شرکت کی وجہ سے اس کا وزن سب سے زیادہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.