قارون کا خزانہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام…(آخری قسط)

28

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے مجمع میں پیغام الٰہی سنا رہے تھے کہ قارون ایک بڑی جماعت اور خاص شان و شوکت اور خزانوں کی نمائش کے ساتھ سامنے سے گذرا، اشارہ یہ تھا کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تبلیغ کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو میں بھی ایک کثیر جتھہ رکھتا ہوں اور زر و جواہر کا بھی مالک ہوں لہٰذا ان دونوں ہتھیاروں کے ذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) کو شکست دے کر رہوں گا۔ بنی اسرائیل نے جب قارون کی اس دنیوی ثروت و عظمت کو دیکھا تو ان میں سے کچھ آدمیوں کے دلوں میں انسانی کمزوری نے یہ جذبہ پیدا کیا کہ وہ بے چین ہو کر یہ دعا کرنے لگے : ’’ اے کاش یہ دولت و ثروت اور عظمت و شوکت ہم کو بھی نصیب ہوتی ‘‘ مگر بنی اسرائیل کے ارباب بصیرت نے فورا ًمداخلت کی اور ان سے کہنے لگے خبردار اس دنیوی زیب وزینت پر نہ جانا اور اس کے لالچ میں گرفتار نہ ہو بیٹھنا تم عنقریب دیکھو گے کہ اس دولت و ثروت کا انجام بد کیا ہونے والا ہے ؟ ‘‘ آخر کار جب قارون نے کبر و نخوت کے خوب خوب مظاہرے کر لیے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل میں کافی سے زیادہ زور صرف کر لیا تو اب غیرت حق حرکت میں آئی اور پاداش عمل کے فطری قانون نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور قارون اور اس کی دولت پر خدا کا یہ اٹل فیصلہ ناطق کر دیا۔
بے شک قارون ‘ موسیٰ کی قوم ہی میں سے تھا ‘ پس اس نے ان پر سرکشی کی اور ہم نے اس کو اس قدر خزانے دیئے تھے کہ اس کی کنجیوں کے بوجھ سے طاقتور آدمی تھک جاتے تھے جب اس کی قوم نے کہا تو شیخی نہ مار، اللہ شیخی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے ،اور جو کچھ تجھ کو خدا نے دیا ہے اس میں آخرت کو تلاش کر ،اس کو نہ بھول کہ دنیا میں اس نے تجھ کو کیا کچھ دے رکھا ہے اور جس طرح خدا نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے تو بھی اسی طرح بھلائی کر،اور فساد کے درپے نہ ہو ،بلاشبہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ قارون کہنے لگا یہ مال تو مجھ کو میرے ایک ہنر سے ملا ہے جو مجھ کو آتا ہے۔ کیا وہ اس سے بے خبر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے اس سے کہیں زیادہ مال دار اور طاقتور قوموں کو ہلاک کر دیا اور نہ سوال کیا جائے مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں (یعنی ان کی عقلیں ماری گئی ہیں تب ہی تو گناہ میں مبتلا ہیں پھر سوال سے کیا فائدہ) پھر نکلا ایک دن قوم کے سامنے بن سنور کر خدم و حشم کے ساتھ تو جو لوگ دنیا کے طالب تھے انہوں نے اس کو دیکھ کر کہا اے کاش ہمیں بھی یہ سب کچھ ملا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے بلاشبہ یہ بڑے نصیب والا ہے اور جن لوگوں کو اللہ نے بصیرت و علم عطا کیا تھا انہوں نے کہا تمہیں ہلاکی ہو جو اللہ پر ایمان لایا اور نیک عمل کیے اس کے لیے اللہ کا ثواب اس دولت سے بہتر ہے اور اس کو نہیں پاتے مگر صبر کرنے والے پھر ہم نے قارون اور اس کے محل کو زمین میں دھنسا دیا پس اس کے لیے کوئی جماعت مددگار ثابت نہیں ہوئی جو خدا کے عذاب سے اس کو بچائے اور وہ بے یارومددگار ہی رہ گیا اور جنہوں نے کل اس کی شان و شوکت دیکھ کر اس جیسا ہوجانے کی تمنا کی تھی وہ یہ دیکھ کر آج یہ کہنے لگے ارے خرابی یہ تو اللہ تعالیٰ کھول دیتا ہے روزی جس کی چاہے اپنے بندوں میں اور تنگ کردیتا ہے اگر احسان نہ کرتا اللہ ہم پر تو ہم کو بھی دھنسا دیتا ارے خرابی یہ منکر تو چھٹکارا نہیں پاتے ،یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لیے بنایا ہے جو (خدا کی) زمین میں شیخی نہیں مارتے اور نہ فساد کے خواہش مند ہوتے ہیں اور انجام کی بھلائی متقیوں کے لیے ہے۔قرآن عزیز کی تصریحات کو پڑھنے کے بعد ایک انصاف پسند انسان کو یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ قرآن عزیز جب کسی تاریخی واقعہ کو نقل کرتا ہے تو اس کے صرف ان ہی اجزاء کو بیان کرتا ہے جو غرض اور مقصد نصیحت و عبرت کے لیے ضروری ہوں اور زائد از حاجت تفصیلات کو نظر انداز کرتا جاتا ہے ۔
اور آخری بات…!
قارون کا خزانہ خدا تعالیٰ نے کس طرح تباہ کیا اور قرآن پاک میں بڑے واضح حکم ہیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دنیاوی دولت کی بجائے آخرت کا سوچو جس نے تمہیں دوزخ کی آگ سے بچانا ہے لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ دنیاوی دولت کی بجائے اپنے دین سے رابطہ اور اللہ سے یاری لگا لیں کہ وہ ہی معاف کرنے والا ہے اور وہ تو اس صورت میں معاف کریگا جب تم اس کے ساتھ سچے دل اور صاف نیت کے ساتھ اس بات کا عہد کرو گے۔ اس سے معافی کے طلبگار ہوگے کہ اس نے تو معاف کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے اور قرآن پاک میں قارون کے خزانے کی مثال خدا تعالیٰ نے اس لئے دی کہ زندگی میں اتنا کمائو جتنی اس کی ضرورت پوری کر سکوں اور ضرورت سے زیادہ آگے مت بڑھو…بعض اوقات یہ ضرورت تمہیں دھوکے میں رکھ کر برباد نہ کر دے… نام رہے اللہ کا…!

تبصرے بند ہیں.