کائنات میں موجود ہر ذی روح کو خواہشات کی گھٹی پلائی گئی ہے ، انسان کی لامتناہی خواہشات میں سے ایک مشترکہ خواہش پرسکون زندگی کا خواب ہے ، جس کو پورا کرنے کے لیے بسا اوقات انسان خاکِ شرق و غرب کو بھی چھان ڈالتا ہے ۔اولادِ آدم روزِ اول سے ہی اس فانی دنیا میں سکون کی تلاش میں ہے ۔آج کے ترقی یافتہ زمانے میںانسان جدید طرزِ معاشرت ، جدید تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اس سکون کی تلاش میں گم ہے لیکن جسے سکون کہتے ہیں وہ اب بھی اس کی زندگی سے غائب ہے ۔ آسائش ، آرائش اور زیبائش کی دنیا میں بھی سکون کا وجود گم ہو کر رہ گیا ہے ۔دیکھا جائے تو ظاہری اسباب کی بہتات کے باوجود بے سکونی ، الجھنیں ، پریشانیاں ، دنیاوی بکھیڑے ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور سکونِ دل کی دنیا تنگ سے تنگ ہوتی چلی جارہی ہے ۔ سکون سے مراد وہ اطمینان ہے جس سے ایک شخص ذہنی طور پر خود کو آرام دہ تسلیم کرتا ہے ، یہ وہ کیفیت ہے جب انسان کی روح کسی بھی قسم کے بوجھ اور فکر سے آزاد ہو ۔ سکون کا ہمارے جسم یا ذہن سے کسی قسم کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے ۔اس کا رشتہ تو انسان کے اندر کے امن سے جڑا ہوتا ہے ،جو قلب کے چین سے وابستہ ہوتا ہے ، روح کی تسکین کے ساتھ متصل ہوتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ذکر کیا کہ : اے آدم کی اولاد ! تو اپنے آپ کو میری عبادت کے لیے فارغ کر لے تو میں تیرے دل میں سکون والی نعمت عطا کر دوں گا اور اسکے ساتھ ساتھ تیری تنگ دستی ، محتاجی اور فقر کو بھی ختم کر دوں گا ، اگر تو نے اس طرح نا کیا تو پھر میں تجھے دنیا کی الجھنوں میں الجھائے رکھوں گا اور تجھے (محتاجی) بے سکونی میں مبتلا کیے رکھوں گا ۔پس ثابت ہوا کہ سکون اور اطمینانِ قلب ایک بہت بڑی نعمت ہے ، اس سکون و اطمینان کو انسان نے ہر سمت ، ہر شہ میں جگہ جگہ تلاش کیا مگر تلاش ناکام رہی۔ حضرتِ انساں نے حصولِ سکوں کے جتنے بھی طریقے اپنائے اور آزمائے ، ان میں کسی میں وقت برباد کیا تو کسی میں دھن ، کہیں ایمان کی خرابی ہوئی تو کہیں اخلاق کی ۔دیکھا جائے تو سکون اور اطمینان کا سر چشمئہ انسان کی اپنی ذات میں پوشیدہ ہے ۔سکون تو انسان کے اندر موجود ہے اور جو انسان اپنے اندر سے خوش و مطمئن ہوتا ہے وہ ہر صورت میں اپنے لیے سکون ، امن اور مسرت کا سامان پیدا کر ہی لیتا ہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کا اطمینان (سکون) نصیب ہوتا ہے ۔ (سورۃ رعد:28)آج کے انسان نے اپنی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے ترقی اور ایجادات کے نئے سے نئے در واہ کیے کے عقلِ انسانی کو حیرت میں ڈال دیا ، اپنے رہنے ، سہنے ، اٹھنے بیٹھنے غرض زندگی کے تمام تر معملات میں انسان نے اپنی آسائشات کے تمام انتظامات کر لیے ۔ سفر کے لیے عمدہ سواری ، پہننے کے لیے نایاب اور آرام دہ لباس ، رہنے کے لیے پر آسائش گھر ، نیز زندگی کی اس بھاگ دوڑ میں حضرتِ انساں جہاںاپنے لیے ضروریات ِ زندگی کے تمام نتظامات کیے وہیں وہ سکون جیسی نعمت کے لیے ترستا رہا ۔ انسان تیز رفتاری ، مادیت پرستی اور خواہش پرستی میں ڈوبتا چلا گیا ۔ مغربیت کی اندھی تقلید میں اپنی خواہشات میں اعتدال ہی نا رکھ سکا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان خود سے بیزار اوراندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔بے سکونی کی اہم وجہ دینی تعلیمات اورسنتِ رسول اللہ ﷺ سے دوری بھی ہے ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمانوں کا ماضی کتنا تابناک ہے ۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :’ خبردار رہو ! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے ۔‘سکون و اطمینانِ قلب تو یادِ الٰہی میں پوشیدہ ہے ، مگر انسان اس راز سے بے خبر ۔ رازِ سکوں کا تعلق انسان کی اندرونی کیفیت اور ذہنی سکون سے ہوتا ہے ۔ سکون پانے کے لیے انسان کو اپنی زندگی میں اعتدال ، صبر اور شکر کی عادات اپنانے میں ہے ۔ زندگی مشکلات کو قبول کرنے اور ان میں چھپے سبق کو سمجھنے کا نام ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : اے اولادِ آدم ! اگر تو نے میری اطاعت ، بندگی اور عبادت نا کی اور مسلسل میری نا فرمانی کرتا رہا تو میں تجھے دنیاوی بکھیڑوں اور الجھنوں میں ایسا الجھا دوں گا کہ تجھے اپنی زندگی میں سکون نام کی چیز بھی نظر نا آئے گی ۔ بظاہر تمام ظاہری اسباب ِ سکون موجود ہوں گے لیکن خود سکون نہیں ہو گا ۔ تجھے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گزرنے کا احساس بھی نا ہو گا اور فرشتہ موت کا پیغام لیے تیرے پاس آ پہنچے گا پھر تیرے چاہنے کے باوجود بھی تجھے کسی نیک عمل کی مہلت نہیں ملے گی اور تو بے بس ہو کر حسرت کی تصویرِ بے جا ن بن جائے گا ۔ دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا ایک نام سکون بھی ہے ۔جب انسان پر فضلِ ربی کا نزول ہوتا ہے تو اس کے قلب میں سکون خود بخود نعمتِ خداوندی کی صورت اتر جاتا ہے ۔ اکثر انسان اس سوچ سے بے سکونی کا شکار رہتا ہے کہ جو میں چاہتا ہوں وہ مجھے حاصل ہی نہیں ہوتا ، درحقیقت آج کا انسان اس وہم میں مبتلا ہے کہ اگر اسے دنیاوی فلاں فلاں مقاصد حاصل ہو جائیں تو وہ تا حیات خوش و خرم رہ سکتا ہے ۔ اور جب اسے اس کی خواہش کے مطابق منزل ملتی ہے تو وہ چند دن بعد ہی کسی اور خواہش کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتا ہے اور خواہشات کے پیچھے بھاگنے کا یہ سلسلہ مرتے دم تک ختم نہیں ہوتا ۔یہی وجہ ہے کہ انسان جبرِ مسلسل کی طرح زندگی کی مدت پوری کر رہا ہے حالانکہ جو آسانیاں اورسہولیات انسان کو آج میسر ہیںانسانیت کی تاریخ میں شاید ہی کبھی اتنا تن آسانی کا کوئی دور گزرا ہو ۔ لیکن اس سب کے ساتھ ہی وہ اپنے خالق اور اپنے مقصدِ تخلیق سے غافل ہوتا چلا گیا ۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.