دھوتی اوراصولی موقف

110

صاحبِ طرز فکائیہ کالم نگار عطاء الحق قاسمی اپنے ایک سپر ہٹ کالم ’’دھوتی دھوتی ہے ‘‘میں لکھتے ہیں کہ’’ سردیوں میں دھوتی کے ذکر سے ہی جسم پر کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے۔اس لباس کی وہی خصوصیات ہیں جو اسٹیشن کے قریب واقع ہوٹلوں کے منتظمین نے ہوٹل کے باہر لکھ کر لگائی ہوتی ہیں یعنی کھلے ہوا دار کمرے‘‘ہم نے یہ کالم بار بارپڑھا ہے اور اگر ہم یہ کہیں کہ قاسمی صاحب کا یہ کالم ہمیںپہلی جماعتوں میں طوطے کی طرح رٹے ہوئے’’دونی‘‘ کے پہاڑے کی طرح یاد ہے تو اس میںرتی بھر مبالغہ نہیں ہوگا ۔یقینا ہمارے حافظے سے زیادہ یہ داد قاسمی صاحب کو جاتی ہے کہ جن کے انوکھے اسلوب اور ’’ بیان‘‘نے اس’’پری وش‘‘کے ذکر میں وہ چاشنی اور دلکشی پیدا کردی ہے جسے پڑھ کر یا سُن کے یوں محسوس ہوتا ہے ؎
’’پسینے میں ایک تیر وہ مارا کہ ہائے ہائے ‘‘
آپ تصور کیجیئے جون جولائی کی تپتی دوپہر میں کسی تنگ وتاریک کمرے کے اندر لوڈشیڈنگ کے عذابِ مسلسل میں آپ سرتا پائوںپسینے میں نہائے ہوئے ہوں اور ایسے میں کوئی آپ کے کان میں ہولے سے ایک لفظ ’’دھوتی ‘‘کہہ دے۔ہمارا دعویٰ ہے کہ دھوتی کا تصور ہی آپ کو راحت وتسکین کی اُن فضائوں میں لے جائے گا جہاں پہنچ کر بیمار کو بھی بے وجہ قرار آجاتا ہے۔ البتہ اس نرم و ملائم اور ریشمی احساس کو محسوس کرنے کے لئے ایک لازمی شرط یہ ہے کہ آپ نے اس سے پیشتر زندگی میں کم از کم ایک بار دھوتی ضرور ’’ٹیسٹ‘‘کی ہو یعنی اس کا مزا چکھا ہو ۔ گویا دھوتی کا معاملہ بھی کسی حد تک ’’کافی‘‘ اور کانجی سے ملتا جلتا ہے مطلب اگر دھوتی کے حوالے سے آپ کا ٹِیسٹ ڈویلپ نہیں ہے تو ممکن ہے شروع میں دھو تی آپ کو وہ مزا اورسکون ِقلب و راحتِ جاں نہ دے جو دھوتی کا خاصا ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ دھوتی کے پانچ ،چھ، سات بار استعمال کے بعد تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ دھوتی کی’’ ٹھنڈی ٹھار، دل بہار، کھوئے ملائی والی‘‘ہفت پہلو خوبیوں سے انکار کر کے اس کو کسی بھی طرح رد کر سکیں گویا دھوتی میں ایک ایسا نشہ ہے جس نے ایک بار اسے چکھ لیا پھر وہ مستقل بنیادوں پر اس کا اسیر یعنی ’’ایڈکٹ‘‘ہوگیا۔ آپ نے اگر اب تک دھوتی کاتجربہ نہیں کیا یا آپ اس حوالے سے ابھی دھوتی کی باریکیوں اور نزاکتوں سے ناواقف ہیں تو ہمارا مشورہ ہے کہ کسی دن آپ دھوتی پہننے سے پہلے اگر کچھ اضافی اہتمام کر لیںیعنی دھوتی کو پانی کا ایک ہلکا سا ’’ ترونکا ‘‘بھی دے دیں تو یہ سونے پہ سہاگہ ہو جائے گا۔ آپ یقین جانئے اس کے بعد قیامت کی گرمی میں بھی یہ دھوتی پہننے سے آپ کے کلیجے میں ٹھنڈ نہ پڑ جائے تو ہماری طرف سے جرمانے کے ساتھ دھوتی کے پیسے واپس ۔مگر اس سلسلے میں ہم آپ کو ابھی سے خبردار کیے دیتے ہیں کہ یہ سب ’’ٹشن‘‘ یعنی اہتمام گرمیوں کے لئے ہیںسردیوں میں بھول کر بھی ایسانہ کیجئے گا ۔کیوں کہ اس صورت میں قوی امکان ہے کہ ٹھنڈ آپ کے کلیجے میں نہیں سیدھی آپ کے کلیجے کو پڑے گی جس کا اختتام جان لیوانمونیہ پر بھی ہوسکتا ہے۔بات شروع ہوئی تھی استادِ محترم عطاء الحق قاسمی صاحب کے کالمـــــ” دھوتی دھوتی ہے "سے۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ پہلی بار ہم نے یہ کالم شدید گرمیوں اور حبس کے موسم میں ہی پڑھا تھا ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ضیاء الحق کے مارشل لاء کی طرح ہم بھی اپنی کچی عمر یعنی لڑکپن میں تھے۔ہمارے چہرے پر خال خال گرمی دانے نکلنے شروع ہوگئے تھے،جن میں دیگر کچھ ناقابلِ بیان عوامل کے ساتھ قاسمی صاحب کے کالم’’ دھوتی دھوتی ہے ‘‘اور ’’بے شرم ‘‘ایسی طرز کی دیگر تحریریں پڑھنے سے بتدریج تیزی آنا شروع ہوگئی تھی۔سو اللہ جانتا ہے کہ شدید گرم موسم یا حبس کا اثر تھا یاجوانی کو چھوتی ہوئی ہماری عمر کا کرشمہ کہ پہلی بار کالم’’دھوتی دھوتی ہے ‘‘پڑھتے ہوئے ہم پر اس میں قاسمی صاحب کی بیان کردہ کیفیت’’کپکپی ‘‘بالکل بھی طاری نہ ہوئی تھی۔ہاں البتہ جب ہم نے قاسمی صاحب کی ’’مارکیٹنگ ‘‘سے متاثر ہو کرآزمائشی بنیادوں پر زندگی میں پہلی بار دھوتی پہنی تو اُس وقت ضرور ہمارے جسم پر کپکپی طاری ہوئی تھی مگر باوجود اس کے کہ اُن دنوں اچھا خاصاٹھنڈ کا موسم یہ سردیوں والی کپکپی ہرگز نہیں تھی۔ایک عجیب سا احساس تھا جو کسی گدگدی یا موبائل فون والی ’’وائبریشن‘‘کی صورت سر سے لے کر پیروں تک ہمارے پورے جسم میں دوڑ گیاتھا۔جس کا تاثر آج بھی پہلی محبت کے ا حساس کی طرح ہمارے ذہن و دل میں نا صرف تروتازہ ہے بلکہ پہلے سے بھی شدید ہوگیا ہے۔یقینا یہ اسی احساس کا نتیجہ ہے کہ آج ہم گرمیوں کے ساتھ ساتھ شدید سردیوں میں بھی پورے اعتماد کے ساتھ نا صرف دھوتی پہن سکتے ہیں بلکہ اسے بھرپور انجوائے بھی کر تے ہیںبالکل اُسی طرح جیسے شدید ٹھنڈ میں کچھ لوگ آئس کریم سے یا شدید گرمی میں گرما گرم چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔آپ بھلے ہمارے اس شوق کو جو بھی نام دیں آپ کی مرضی پر منحصر ہے مگر دن بھر کی تھکن کے بعد ایک پرتکلف لبا س سے خلاصی پاکر دھوتی پہننے سے جس راحت کا احساس ہوتا ہے اس کا لفظوں میںبیان ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔دھوتی غالباََدنیا کا سستا ترین لباس ہونے کے ساتھ ساتھ آسان ترین لباس بھی ہے۔سستایوں کہ آپ کسی بھی ان سلی چادر کومحض اپنے ’’ ارادے اور نیت ‘‘سے ہی فوری طور پر دھوتی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اور آسان یوں کہ اسے پہننے اور اتارنے ہر دو صورت میں آپ کوکسی خاص دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔بالخصوص ہمارے موٹے بھائی تو محض سانس اندر کھینچ کر ہی اپنی اور ’’دھابا‘‘مار کر دوسرے کی دھوتی اتار سکتے ہیں۔آخر میںہم آپ کودھوتی کے حوالے سے ایک ’’ ویک پوائنٹ‘‘بھی بتانا چاہتے ہیں جو کچھ لوگوں کے نزدیک بیک وقت ھوتی کا’’پَلس پوائنٹ‘‘ بھی ہے۔ وہ یہ کہ دھوتی غالباََ دنیا کا واحد لباس ہے جسے پہن کر بڑے سے بڑا ’’جی دار‘‘ اور بے شرم سے بے شرم آدمی بھی عوام الناس کے سامنے’’ کُھل کھلا ‘‘کے قلابازی نہیں لگا سکتا۔ البتہ ان سیاستدانوں ،صحافیوں اور سیاسی مولویوںکا معاملہ مختلف ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے لئے دھوتی پہن کر تو ایک طرف بغیر دھوتی کے بھی آئے روز جلسوں ، پریس کانفرنسوں،اخباری کالموں اورٹاک شوز میں قلابازیوں پر قلابازیاں لگاتے ہیںاور اپنی ان مفاداتی ’’قلابازیوں‘‘ کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اصولی موقف کا نام دیتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.