افلاطون نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ریاست‘‘ میں اپنے استاد سقراط کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب تم ریاستی امور سے لا تعلق ہو جاتے ہو تو پھر تم سے کمتر لوگ تم پر حکمرانی کرتے ہیں۔ یہ کرشمہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک پاکستانی عوام اپنی ’’مملکت ِخداداد‘‘ میں دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا عدالتی نظام آدھا ملک گنوا کر بھی کچھ سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔ پارلیمان کسی بھی جمہوری ریاست کا اعلیٰ ترین ادارہ ہوتا ہے کیونکہ یہ عوام کے مرضی و منشا کی تکمیل کیلئے عوامی ووٹوں سے اُن کی آزاد مرضی سے منتخب ہوتا ہے۔ پاکستان ایک طرف عالمی سیاست کے گماشتوں کے نشانے پر ہے تو دوسری طرف اندرونی سازشیں اور انائوں کی جنگ ہے۔ موجود حالات میں پاکستان کو ایک مضبوط جمہوری حکومت اور دیانتدار عدلیہ کی ضرورت ہے جو آئین اور قانون کے مطابق اپنا رستہ بنائے لیکن گزشتہ 78 سال سے دوسرے اداروں کی طرح عدلیہ کا کردار بھی لائق تحسین نہیں رہا۔ پاکستان کے قیام سے پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 26 جولائی 1947 کو پاکستان کی نئی دستور ساز اسمبلی کا حکم نامہ جاری کیا جس کی رو سے طے پایا کہ 1945 کے انتخابات میں مسلمان حلقوں اور وہ علاقے جو پاکستان کا حصہ بننے جا رہے ہیں، وہاں سے کامیاب ہونے والے ارکان ہی پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اراکین تصور ہوں گے۔ یہ طے ہوا کہ یہی دستور ساز اسمبلی پاکستان کا نیا آئین بنائے گی اور جب تک یہ آئین نہیں بن جاتا 1935 کا ایکٹ ہی پاکستان کا عارضی آئین تصور ہو گا۔ مجلس ِ قانون ساز کا افتتاحی اجلاس 10 اگست کو سندھ اسمبلی کی عمارت میں ہوا تھا جس میں جوگندر ناتھ منڈل کو اسمبلی کا عارضی صدر منتخب کیا گیا اور اگلے روز قائداعظم کو متفقہ طور پر صدر منتخب کر لیا گیا جنہوں نے منتخب ہونے کے بعد افتتاحی خطاب میں نوزائیدہ ریاست کے خد و خال بارے کھل کر بتا دیا لیکن بعد ازاں قائد اعظم کی اس تقریر کو قرارداد مقاصد نگل گئی۔ 14 اگست کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے خطاب میں پاکستانیوں کو پاکستان بننے کی مبارک باد دی لیکن صرف سات سال بعد ہی گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954 کو اسمبلی توڑ کر ملک بھر میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا۔ یہ سانحہ اُس وقت رونما ہوا جب چھ دن بعد ملک کے پہلے آئین کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا جانے والا تھا۔ دستور ساز اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین تھے جنہوں نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ مولوی تمیز الدین کے وکیل ڈی ایم پرٹ تھے اور گورنر جنرل کی وکالت سر آئیور جیننگز کر رہے تھے۔ گورنر جنرل نے وکیل کو جو فیس دی تھی وہ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ سے سات گنا زیادہ تھی۔ دوسری جناب یہ حالت تھی کہ معاملہ جب سندھ ہائی کورٹ کے بعد فیڈرل کورٹ میں پہنچا تو مولوی تمیز الدین کے پاس وکیل کو دینے کے لیے فیس بھی نہیں تھی ان حالات میں آئی آئی چندریگر نے پاکستانیوں کے موقف کی وکالت کی۔ سندھ ہائی کورٹ میں گورنر جنرل کی جانب سے عدالت میں جو موقف پیش کیا گیا اس کی رو سے پاکستان اُس وقت تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت چل رہا تھا اس لیے یہ آزاد ملک نہیں تھا بلکہ ایک محکوم ریاست تھی جس پر حاکمیت تاجِ برطانیہ کی تھی اور دستور ساز اسمبلی کے کسی قانون کی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں تھی جب تک ملکہ کے نمائندے کے طور پر گورنر جنرل اس کی توثیق نہ کر دے۔ گورنر جنرل کے مطابق چونکہ بادشاہت ملکہ کی تھی اور حکم بھی ملکہ کا تھا سو اختیار بھی ملکہ کے پاس ہی تھا اس لیے اس کا نمائندہ اگر اسمبلی کو گھر بھیج دیتا ہے تو اس نمائندے کے حکم کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ نمائندے کا حکم ملکہ کا حکم تصور ہو گا اور ملکہ کے حکم کی سرتابی کی اجازت نہیں ہے اور عدالت کے پاس بھی ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ ملکہ کے نمائندوں کے خلاف رٹ کی سماعت کر سکے۔ یہ تھی اُس شخص کی سوچ جو پاکستان کا گورنر جنرل تھا اور اس سوچ کو درست قرار دیا پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے۔
سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل کا یہ موقف تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ دے دیا اور قرار دیا کہ پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اور یہ انڈیا آزادی ایکٹ 1935ء میں لکھا ہوا ہے۔ معزز عدالت نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے معاملات میں اب پاکستان کی اسمبلی ہی فیصلہ ساز ہے اور گورنر اسمبلی توڑ نہیں سکتا۔ اسمبلی صرف اسی صورت میں تحلیل ہو سکتی ہے جب وہ خود دو تہائی اکثریت سے اس کا فیصلہ کر دے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ پہلے گورنر جنرل کا انتخاب بھی ہمارا ہی تھا اور ہم نے ماؤنٹ بیٹن کے بجائے قائد اعظم کو گورنر جنرل بنایا۔ سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا جس نے حیران کن طور پر جسٹس منیر کی سربراہی میں گورنر جنرل کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کو ایک غلام ریاست تصور کر لیا اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ تصور کیجئے کہ وطن کیلئے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا، املاک چھوڑے، اپنی جنم بھومیوں کو الوداع کہا گیا، جس وطن کو اسلام کا قلعہ قرار دیا گیا اور ہم آج بھی بچوں کو یہی بتاتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔۔۔ کے قیام کے نو سال بعد ملک کی سب سے بڑی عدالت یہ تسلیم کر رہی ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک نہیں ہے اور برطانوی تاج کے نمائندے کے سامنے اس منتخب اسمبلی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ اسمبلی کوئی قانون بنا دے تو بادشاہ کے نمائندے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے اٹھا کر کچرے کی ٹوکری میں پھینک دے۔ ’’عظیم‘‘ جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ دستور ساز اسمبلی ریاست کا خود مختار ادارہ ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔
گورنر جنرل کی جانب سے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو جب برطرف کیا گیا تو وہ ملکہ سے مداخلت کی اپیل کرنے برطانوی ہائی کمشنر کے پاس پہنچ گئے جنہوں نے کہا کہ ملکہ ایسا کسی صورت نہیں کرے گی کیونکہ اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سمجھا جائے گا۔ جسٹس منیر اگر اس وقت اپنے فیصلے میں نظریہ ضرورت کا سہارا نہ لیتے تو بعد کی تاریخ بہت مختلف ہوتی کیونکہ ان کے فیصلے سے پاکستان میں غیر آئینی فیصلوں اور مارشل لائوں کا راستہ کھل گیا جو آج تک بند نہیں ہوا۔ ایوب خان سے لے کر یحییٰ خان تک اور 1977ء میں ضیاء الحق سے لے کر 2000ء میں مشرف کے غیر قانونی اقدام کو آئین کے چور دروازوں کا رستہ عدلیہ نے ہی دکھایا۔ پاکستان آج پھر ایک آئینی بحران کا شکار ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عوامی طاقت منتخب اداروں کے پاس ہوتی ہے جو انہیں قانون سازی کا حق دیتے ہیں اور یہ حق کسی اور ادارے کے پاس تو ہرگز نہیں ہو سکتا۔
تبصرے بند ہیں.