تحریک انصاف کا بیانیہ اور محرکات

29

پچھلا ہفتہ پاکستان کے سیاسی ماحول میں ہلچل اور ارتعاش کا شکار رہا۔ 8 ستمبر کو ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے کے دوران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی تقریر کو محض ایک جذباتی اور پُرجوش خطاب سے تشبیہ دینا کافی نہیں ہو گا۔ اس تقریر کے پس پشت محرکات اور اس کے نتیجے میں بپا ہونے والا سیاسی طوفان بہت سے سوالیہ نشانات کو جنم دیتا ہے۔ اس جلسے کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات جس میں پارلیمنٹ سے تحریک انصاف کی سیاسی قیادت کی گرفتاریاں اور اس سے منسلک ہنگامہ خیز پارلیمانی کارروائی، خود وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا لگ بھگ آٹھ گھنٹے منظر عام سے غائب رہنا اور دو دن بعد 8 ستمبر کے جلسے میں کی جانے والی تقریر سے کہیں زیادہ جارحانہ خطاب وہ واقعات ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اسکا بنظر عمیق احاطہ بہت ضروری ہیں۔ یہ واقعات محض سیاسی ہلچل سے تشبیہ نہیں دئیے جا سکتے بلکہ ان کے پیچھے چھپے محرکات کی پردہ کشائی بھی اہم ہے تاکہ پاکستانی عوام کو معاملات کی تہہ تک پہنچنے میں مدد مل سکے۔ گذشتہ کئی مہینوں سے موصول ہونے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت گورننس کے سنگین مسائل کا شکار ہے۔ بلند و بانگ دعووں اور عوامی فلاح و بہبود کے کھوکھلے نعروں کے برعکس مختلف محکموں میں کرپشن کا دور دورہ ہے۔ کرپشن کے پیسے کی ریل پیل سے صوبے میں تحریک انصاف میں واضح دھڑے بندی اور اختلافات کی خبر یں مسلسل آتی رہی ہیں۔ ان اختلافات کی سنجیدہ نوعیت کے باعث بانی پی ٹی آئی کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے حق میں میدان میں آنا پڑا اور 8 ستمبر کے جلسے سے عین ایک یا دو دن قبل بانی تحریک انصاف نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مخالفین کی سخت الفاظ میں سرزنش کی۔ صوبے کی دن بہ دن زبوں حالی اور کرپشن اور اقربا پروری کی بدولت یہ ضروری تھا کہ عوام کی توجہ مبذول کرانے کیلئے کچھ ایسا کیا جائے جس سے تحریک انصاف دوبارہ سے فوج مخالف بیانیے کی بدولت اپنی گر تی ساکھ کو سہارا دے سکے۔ 8 ستمبر کے جلسے کے دوران کی جانے والی پُر جوش تقریر کو اسی پیرائے میں جانچنے کی ضرورت ہے۔ مزید براں تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اپنی ناقص حکومتی کار کردگی اور اس کے نتیجے میں پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ تحریک انصاف کا گماں ہے کہ ایسے حالات میں سیاسی شہادت انکی اور پارٹی کی سیاسی ساکھ کو بچانے کیلئے کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف سیاسی شہادت کے حصول میں ناکامی کی صورت میں ریاست سے بالاتر ہو نے کا متبادل بیانیہ پارٹی اور خود وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو سیاسی فوائد دے سکتا ہے۔ ان عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے 8 ستمبر کے جلسے کی تقریروں میں اختیار کیے جانے والے بیانیے اور لب و لہجے کی تہہ تک پہنچنا قطعاً مشکل نہیں۔ یہاں ایک اور سوال یہ بھی جنم لیتا ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل تھے جن کی بدولت مزاحمتی سیاسی حکمت عملی کے لیے اس وقت کا تعین کیا گیا۔ اس سوال کا جواب نہ صرف اہم ہے بلکہ یہ چار بنیادی وجوہات کا بھی تعین کرتا ہے جن کی وجہ سے اس مخصوص وقت کا انتخاب کیا گیا۔ پہلی وجہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پچھلی پریس کانفرنس تھی جس میں انہوں نے فوج کے کسی بھی سیاسی قوت سے الحاق کے بیانیے کو یکسر رد کر دیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے فوج کو قومی فوج قرار دیا جو بانی تحریک انصاف کے ان عزائم کی حوصلہ شکنی تھی جس کی بدولت وہ فوج کی قیادت اور سپاہ میں دراڑ ڈالنے کیلئے تواتر سے کوشاں ہیں۔ فوج مخالف عناصر کسی صورت فوج میں موجود اتحاد اور یگانگت اور کمانڈ کی یکسوئی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے 8 ستمبر کے جلسے میں علی امین گنڈاپور نے ایک ایسا بیانیہ بنایا جس سے فوج کے موقف کو ٹھیس پہنچائی جا سکے۔ تحریک انصاف کی حالیہ مایوسی کے پیچھے جنرل (ر) فیض کی گرفتاری اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کی پاداش میں انکا کورٹ مارشل بھی ہے۔ جنرل فیض حمید کی گرفتاری تحریک نصاف کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ تصور کیا جا رہا ہے اور بعض تجزیہ نگار تو اس حد تک بھی رائے دیتے ہیں کے شائد بانی تحریک انصاف اور جنرل فیض حمید باہمی اشتراک سے افواج پاکستان میں دراڑ ڈالنے کیلئے کوشاں رہے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر بانی تحریک انصاف کا ملٹری کورٹ میں لایا جانا لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔ ملکی سیاست میں ہیجان برپا کرنے کی تیسری بڑی وجہ ملکی معیشت کا صحیح سمت میں گامزن ہونا ہے جو پاکستان مخالف قوتوں کو کسی صورت قبول نہیں۔ تحریک انصاف کا آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کو فنڈز کی فراہمی سے روکنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ سول اور ملٹری قیادت کی کوششوں سے معاشی اشاریوں میں بہتری تحریک انصاف کی نام نہاد مقبولیت کیلئے خطرہ تصور کیا جاتا ہے جس کیلئے سیاسی عدم استحکام کا سہارا لینا ایک لازمی امر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ تحریک انصاف کی بتدریج کم ہوتی مقبولیت اور اندرون خانہ اختلافات میں آئے روز اضافہ تحریک انصاف کی قیادت کیلئے یقینا ایک لمحہ فکریہ ہے اور اس کا تدارک صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ملک میں عدم استحکام کو ہوا دی جائے تا کہ عوام میں مایوسی اور تذبذب کی فضا پیدا ہو اور اداروں سے اعتماد میں کمی ہو۔ ان تمام عوامل کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام ایسے تمام اقدامات سے آگاہ ہوں اور ملکی ترقی کیلئے کی جانے والی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے والوں کی حوصلہ شکنی کر سکیں۔ یقینا پاکستان کی ترقی سب سے اہم ہے اور اس سے ہماری انفرادی اور اجتماعی بھلائی منسلک ہے۔ ہمیں اس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے مِن حیث القوم اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور کسی ایسے بیانیے یا عملی کوشش کا تدارک کرنا ہو گا جس سے ترقی کا یہ عمل متاثر ہو۔

تبصرے بند ہیں.