ایک ملک دوسرے پر حملہ کرے، دوسرا اپنے دفاع میں جو کچھ کر سکتا ہو وہ کر گزرے صرف اسے حالت جنگ نہیں کہتے، اب جنگ کے روایتی طریقے بدل گئے ہیں۔ اب دشمن کو مختلف طریقوں سے کمزور کیا جاتا ہے۔ جب وہ اپنے پائوں پر کھڑا رہنے کے قابل نظر نہ آئے تو پھر روایتی جنگ کے ذریعے آخری وار کر کے علاقے اور نظام پر قبضہ کر لیا جاتا ہے، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ملک کے پسنے والوں اور اس ملک کی حفاظت کرنے والوں کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا جائے۔ دونوں طریقے ایک ساتھ بھی استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ ہدف کم سے کم نقصان اور کم سے کم وقت میں حاصل کیا جا سکے۔
اہل وطن کو دونوں طرح کی صورتحال کا سامنا ہے، سرحدوں کے ساتھ ساتھ دشمن کی کارروائیاں جاری ہیں، اقتصادی شہ رگ کاٹنے کی کوششیں نظر آتی ہیں پھر اور حالت جنگ کیا ہو گی۔ سرحد کے پار جنہیں دشمن کو جواب دینا ہے وہ اس کا طویل تجربہ رکھتے ہیں اور تخریب کاروں کو موثر جواب دے رہے ہیں، جس پر ملک کی داخلی سیاسی اور اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی ذمہ داری ہے وہ بھی نصف دہائی کا تجربہ رکھتے ہیں لیکن ان محاذوں پر قوم کسی بڑی کامیابی کی راہ دیکھ رہی ہے، خدا نہ کرے راہ دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھیں پتھرا جائیں۔
دو برس سے امیدوں کا مرکز آئی ایم ایف ہے اس کے علاوہ کوئی نجات دہندہ بتایا نہیں جاتا، جانے والی بدچلن حکومت زرمبادلہ کے جو ذخائر چھوڑ کر گئی تھی آج اس سے کم ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے نو ارب ڈالر ہیں لیکن یہ سب ہمارے نہیں دوستوں کی مہربانی ہے انہوں نے قریباً نصف ہمیں دے رکھے ہیں مگر صرف رکھنے کیلئے دکھانے کیلئے گویا ’’شو کی خاطر‘‘ پیچھے بچے پونے پانچ ارب ڈالر بس یہ ہمارے ہیں، یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک چھوٹے سے گھر میں کسی نے اپنی بیش قیمت گاڑی کچھ وقت کے لئے پارک کی ہو، گھر کی دیواروں پر رنگ و روغن کرائے کئی برس بیت چکے ہوں، دیواروں کا پلستر اکھڑ چکا ہو، فرش بیٹھ گئے ہوں، دروازوں کے تالے جام ہو چکے ہوں، جن دروازوں پر آپ تالے ڈالنا چاہتے ہوں وہ چوپٹ کھلے ہوں، آئے دن خبر آتی ہو کوئی آیا اور ڈاکہ زنی کی کامیاب واردات کر گیا، ایک بڑی واردات جو رپورٹ ہو چکی ہے اور ایک ذمہ دار ادارہ اس پر اپنی رپورٹ تیار کر چکا ہے، وہ سولر پینل کے ذریعے کئی ارب روپے کی منی لانڈرنگ سے متعلق ہے، انتظار ہے یہ وارداتیے کب قانون کی گرفت میں آتے ہیں۔ گرفت میں آ بھی گئے اور قانون نے خود ثابت کر دیا کہ وہ اندھا ہے، اسے کچھ نظر نہیں آیا تو پھر کیا ہو گا۔ یہ انہونی نہ ہو گی، تسلسل سے ایسی کارروائیاں نظر سے گزرتی ہیں۔ سال سے کچھ اوپر عرصہ ہوا ایک خاتون کے بارے میں چیخ چیخ کر بتایا جا رہا تھا کہ وہ نو مئی کے واقعات میں کردار رکھنے کے علاوہ ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ کے بہت قریب تھی، اس کا نام سامنے آیا پھر فوٹیج سامنے آئی جس کے بعد اس کی گرفتاری کیلئے چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ’’شرلک ہومز‘‘ اکیلا نہ تھا، درجنوں تھے سب ناکام رہے، وہ ہر اس جگہ پہنچے جہاں اس خاتون کے پائے جانے کی اطلاع ملتی لیکن ان کے پہنچنے سے قبل ہی ٹھکانہ تبدیل کر لیا جاتا۔ کئی ماہ کی آنکھ مچولی کے بعد اس نے نیچے سے ا وپر ہر طرح ہر سطح پر روابط مکمل کر لئے تو اسے کہا گیا کہ ہماری ناک کا مسئلہ ہے، اسے کٹنے سے بچائیں یوں اس خاتون نے اپنی گرفتاری پیش کی پھر چند روزہ نمائشی کارروائی کے بعد اسے ضمانت پر رہائی مل گئی، جب سے اب تک اس کی کوئی خبر ہے نہ اس کے مقدمے کا کوئی اتاپتہ ہے،فائلوں میں زندہ ہے یا سرے سے عدم ثبوت یا ثبوت ختم کر دینے کے بعد داخل دفتر ہو چکا ہے، اس ایک کیس کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ ایسے ہی مقدمے میں گرفتار کسی خاتون کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی، ان کے لئے بس یہی سزا ہے کہ وہ معمول کی سرگرمیوں کیلئے آزاد نہیں، زیر حراست ہیں اور ابھی کچھ عرصہ زیر حراست رہیں گے، باقی رہا معاملہ ماسٹر مائنڈ کا تو اسلام آباد والے چاہتے ہیں راولپنڈی والے اسے سزا دیں جبکہ راولپنڈی والے چاہتے ہیں وہ اسلام آباد والوں کے کھاتے پڑ جائے کیونکہ ان کے کھاتے میں پہلے ہی بہت کچھ ہے، وہ سمجھتے ہیں اب مزید کی گنجائش نہیں، ’’ماسٹرمائنڈ‘‘ کے حوالے سے ایک اور بھی اطلاع ہے وہ یہ کہ کچھ لوگ اب اسے اپنا اثاثہ سمجھ رہے ہیں، ان کے مطابق اگر اسے انجام کو پہنچا دیا گیا تو پھر مرزا یار صرف گلیوں میں نہیں پھرے، گلیاں بازار شہر گائوں سب اجاڑ کے رکھ دے گا پس اس خیال کے تحت ایک سوچ ہے کہ معاملات کو یونہی لٹکائے رکھو تاکہ چیک اینڈ بیلنس میں آسانی رہے، سب اپنی اوقات میں رہیں جو کوئی اپنی اوقات سے باہر ہونا چاہتا ہے، اس کا نام ای سی ایل میں تو ہے نہیں وہ جب چاہے باہر جا سکتا ہے، اب یہ اس کی مرضی ہے کاروبار کیلئے جائے یا علاج کیلئے، چارٹر طیارہ منگوانے کی راہ میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں۔
سرحدوں کے ساتھ ساتھ تخریب کاروں کو جواب دینے کی جنگ پھیلی تو آبادیوں تک پھیل گئی، محاذ وسیع ہو گیا، تخریب کاروں کے سہولت کار ہر جگہ نظر آئے، اب وہ نشانے پر ہیں، ملکی بقا کا سوال ہے، تخریب کاروں اور ان کے سہولت کاروں کا قلع قمع بہت ضروری ہے۔ میدان سیاست بھی میدان کارزار کا نقشہ پیش کر رہا ہے، عدالتیں ہوں یا جلسہ گاہیں ایک جیسا ہی سماں ہے، پارلیمنٹ میں لفظوں کی جنگ اور لفظوں کی گولہ باری ہر زمانے میں ہوتی رہی ، جانے کس نے سوچا کہ یہاں بھی اب مختلف انداز میں معرکہ آرائی ہونا چاہئے ، پس اس کا انتظام ہنگامی بنیادوں پر کیا گیا، نقاب پوش آئے انہوں نے یلغار کر دی، وہ پارلیمنٹ آئے اور چلتے ہوئے ٹی وی کیمروں کے سامنے بے نقابوں کو گرفتار کر کے لے گئے، یہ منظر پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھا گیا، عجلت کا فیصلہ تھا، بھونڈے انداز میں ایک خواہش کو عملی جامہ پہنایا گیا، کچھ توقف کیا جاتا تو وہ سب جنہیں گرفتار کرنا مقصد تھا اپنے اپنے گھروں، اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جاتے تو انہیں زیادہ سہل انداز میں گرفتار کیا جا سکتا تھا، سپیکر قومی اسمبلی نے اس وقت خود درست فیصلہ کیا یا غلطی کرنے والوں نے احساس ہونے کے بعد ان سے درخواست کی کہ تمام ممبران قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کر کے انہیں رہا کرایا جائے، سب رہا ہو کر پارلیمنٹ ہائوس پہنچے تو سب نے حکومت کے خوب لتے لئے، جو کل تک جارح تھے آج مظلوم ٹھہرے، اگلا معرکہ بھی پارلیمنٹ ہائوس میں درپیش ہے، حکومت ترامیم کرنے جا رہی تھی کہ اکثریت کے لالے پڑے تھے، رہی سہی کسر سپریم کورٹ کے فیصلے نے پوری کر دی بروقت فیصلے کی ٹائمنگ پر سرکار حیران ہے، حکومت کو ’’انوکی لاک‘‘ لگ گیا ہے جوابی دائو کا انتظار ہے، منظر واضح نہیں ہو گا مزید الجھے گا۔
تبصرے بند ہیں.