آخری جلسہ، باغیانہ تقریریں، کریک ڈائون

20

اسلام آباد سے 25 کلو میٹر دور سنگجانی کے مویشی منڈی گرائونڈ میں پندرہ سولہ ہزار انسان گھس آئے۔ رویہ مویشیوں جیسا تھا۔ کہنے کو پی ٹی آئی کا جلسہ تھا جس کی اجازت بڑی مشکل سے ملی تھی۔ اجازت نامہ میں 30 نکاتی ایس او پیز کا پابند بنایا گیا تھا کہ جلسہ 4 بجے شروع ہو کر 7 بجے ختم ہوجائے گا۔ اشتعال انگیز اور نفرت آمیز تقریریں نہیں ہوں گی۔ ایس او پیز پر عمل کیسے ہوتا، ساڑھے چار بجے جلسہ شروع ہوا تو گرائونڈ میں گنتی کے 150 افراد موجود تھے۔ ان سے زیادہ میڈیا کے لوگ، مقررین کمر باندھے تیار بیٹھے تھے مگر سننے کے لیے لوگ نہیں آئے تھے۔ دور مرگلہ کے پہاڑوں پر شام اتری اندھیرا چھایا تو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور دو ہزار سے زائد گاڑیوں میں دس بارہ ہزار بندے ہنکا کر لے آئے۔ گنڈا پور ’’ترنگ‘‘ میں تھے۔ ’’دیسی شہد‘‘ رنگ دکھا رہا تھا۔ گرائونڈ جتنا بھرنا تھا بھر گیا۔ پنجاب سندھ بلوچستان کے ’’حامی و ناصر یوتھیا‘‘ غیر حاضر، اسلام آباد 29 مقامات پر بند تھا۔ اس لیے اسلام آباد والے ان کے مغلظات سننے سے محروم رہے۔ جلسہ سات بجے کے بجائے دس بجے تک جاری رہا۔ ادھر سے 7 بجے یاد دلایا گیا ادھر سے پتھرائو شروع ہوگیا۔ پولیس نے آنسو گیس کے گولے پھینکے ایک بھی یوتھیا زخمی نہ ہوا البتہ پتھرائو سے ایس پی سیف سٹی سمیت 12 اہلکار زخمی ہوگئے۔ ایس پی کے سر پر 21 ٹانکے لگے۔ محمود خان اچکزئی، ’’بھیڑ بکریوں‘‘ کے ریوڑ سے ناراض تھے۔ انہوں نے مجمع کو جرائم پیشہ افراد کا ہجوم قرار دیتے ہوئے کہا کہ سٹیج پر چڑھتے ہوئے کپڑے پھٹ گئے جیبیں کٹ گئیں۔ خان کی محبت اپنی جگہ لیکن غیر منظم لوگ انقلاب نہیں لا سکتے۔ گلگت بلتستان کے جعلی ڈگری ہولڈر سابق وزیر اعلیٰ خالد خورشید نے دو ہفتے میں جیل توڑنے کا الٹی میٹم دیا مراد سعید کا آگ کی تپش لیے ہوئے پیغام سنایا گیا۔ جبکہ علی امین گنڈا پور کی تقریر نے آگ بھڑکا دی۔ بالغ نظر سیاستدانوں نے رائے دی کہ گنڈا پور نے ما شاء اللہ پوری پارٹی کو دفن کردیا۔ خان سمیت پوری پارٹی کو پھنسا دیا۔ گنڈا پور اور دیگر لیڈروں نے خان کا کھیل ہی ختم کردیا۔ اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری دوسروں کی قبریں کھود ڈالیں۔ کیا کوئی ذی ہوش سیاستدان ان کی بیک وقت 6 اداروں پر آتشیں گولہ باری کو سیاسی دور اندیشی سے تعبیر کرے گا؟ انہوں نے اپنی ہی فوج اور دہشتگردی کے خلاف اس کی پالیسیوں پر تنقید کے درے برسائے اور افغان طالبان کی دہشتگرد کارروائیوں کی حمایت کر کے صریحاً ملک دشمنی کا ثبوت فراہم کیا کہا کہ خان کو کسی کا باپ اور اس کا باپ بھی فوج کی تحویل میں نہیں دے سکتا۔ 22 ستمبر کو لاہور میں جلسہ کریں گے مریم نواز کا بد تمیزی سے نام لیتے ہوئے دھمکی دی کہ جلسہ کی اجازت نہ دی تو ہم پٹھان لوگ ڈھول باجوں کے ساتھ بارات بھی لے کر آتے ہیں۔ جیل توڑنے کی دھمکی دی کہا پہلی گولی میںکھائوں گا۔ (فصل تیار ہوئی تو شاید وہی گولی کھائیں گے) صحافیوں خصوصاً خواتین صحافیوں کو گالیاں دیں۔ پوری تقریر کو خان نے بہترین قرار دیا گویا وہ کہہ رہے تھے ’’زبان میری ہے بات ان کی ان ہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں‘‘ خان اس ہرزہ سرائی پر پھولے نہ سمائے جن لیڈروں نے گنڈا پور کی تقریر کی مذمت کی انہیں بزدل قرار دیتے ہوئے پارٹی سے نکال دینے کی دھمکی دی۔ (پانچ پیارے تو گئے کام سے وکالت چلی نہ سیاست ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے) خان نے واضح کردیا کہ آئندہ اسٹیبلشمنٹ سے کوئی رابطہ نہیں ہوگا (تین طلاقیں چند دن بعد پشیمان ہو کر رجوع کی کوشش کریں گے) فضول سی دھمکی اس سے پہلے بھی یکطرفہ محبت تھی ادھر سے رابطوں کی کوشش ادھر سے فون بند، اسد قیصر اور سلمان اکرم راجہ نے ملک گیر شٹر ڈائون کی کال دی، کیا کامیاب رہی؟ پتا نہیں عوام کو بھی پتا نہیں۔

خان اور اسٹیبلشمنٹ میں تنائو ملکی تاریخ کا طویل ترین بحران بن گیا۔ کب ختم ہوگا کسی کو علم نہیں، ٹائمز آف اسرائیل کے مضمون سے تو لگتا ہے کہ کسی کا سر لے کر جائے گا۔ کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ مختلف آراء خان فرسٹریشن کے بعد انتہا پسندی پر اتر آئے ہیں۔ گنڈا پور نے کس کے حکم پر شعلے برساتی تقریر کی اور پی ٹی آئی کا کریا کرم کرنے کا جواز فراہم کردیا۔ جلسہ کے فوری بعد کریک ڈائون شروع ہوگیا۔ نو دس ارکان اسمبلی پکڑے گئے، بیشتر کے نام فہرستوں میں شامل، ایک دو پیشیوں میں ضمانت پر رہا ہوجائیں گے۔ لیکن سر پر تلوار لٹکی رہے گی۔ علی امین گنڈا پور کا کیا حشر بلکہ نشر ہوا، تقریر کے بعد جھوتے جھاتے پشاور جا رہے تھے۔ ایک فون کال نے واپسی پر مجبور کردیا۔ رات گئے آفس میں طلبی، تمام فون بند، 9 گھنٹے ایک ہی کمرے میں بٹھائے رکھا گیا۔ ممتاز صحافی اعزاز سید کے مطابق خاطر تواضح سے تقریر کا اثر زائل ہوا تو جنرل (ر) فیض حمید سے رابطوں اور ارشد شریف قتل کے بارے میں پوچھ گچھ ہوئی۔ فرفر بولے خاموشی کی گنجائش کہاں تھی۔ پھر کہا گیا کہ آپ نے جو زبان استعمال کی ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوا تو جانے کی اجازت ملی۔ معافی تلافی کے بعد باہر نکلے تو بدلا ہوا زمانہ تھا۔ دھڑکنیں تیز، غلطی کے ازالہ کی یقین دہانی کے بعد واپسی ہوئی واپسی پر مکمل خاموشی، دادا کہتے ہیں چپیڑیں پڑیں۔ نشانات مٹیں تو منظر عام پر آئیں۔ حکومتی ترجمان نے پوچھا۔ ’’چن کتھاں گزاری آئی رات وے‘‘ جواب دیا میٹنگ میں تھا ٹیلیفون بند تھے۔ رابطہ نہ ہوسکا علی امین گالیاں دے کر بھاگ گئے۔ پارٹی حیران کھڑی ہے جیل سے باہر والے لیڈر کدھر جائیں، فیصل واوڈا کو یقین ہے کہ گنڈا پور کے دن گنے جا چکے ہیں پارٹی بند گلی میں کسی خوفناک حادثہ کی منتظر ہے۔ یقین کرلینا چاہیے کہ خان کے لیے کسی کے دل میں جگہ نہیں وہ شیخ مجیب کا تابوت اٹھا کر چل رہے ہیں۔ جبکہ بنگلہ دیش کے 90 فیصد عوام نے پاکستانی فوج کے اقدامات کی حمایت کردی ہے۔ دو باتیں طے ہیں۔ مویشی منڈی کا جلسہ آخری جلسہ تھا اب کہیں بھی ’’بھیڑ بکریاں‘‘ جمع کر کے گولہ باری کی اجازت نہیں دی جائے گی جبکہ خان کا جیل سے نکلنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوگیا۔ خواجہ آصف نے کائونٹ ڈائون شروع کردیا۔ اتنے دن رہ گئے گنڈا پور اٹک کا پل کراس کر کے دکھائیں۔ ایک سوال ذہنوں میں کلبلا رہا ہے کہ پی ٹی آئی والوں کو اچانک جلسوں کا بخار کیوں ہوگیا؟ جواب اور کیا کریں ملک میں عدم استحکام کے لیے یہی واحد طریقہ ہے۔ پارلیمنٹ میں گالم گلوچ سے کام نہیں چلا۔ عوام نے 16 کالوں پر توجہ نہیں دی، سڑکوں پر نہیں آئے حکومت نے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی جس کے بعد آئین کے آرٹیکل 176 سے212 تک عدلیہ سے متعلق 20 آئینی ترامیم کے بعد سہولت کاری کا خاتمہ ہوسکے گا۔ سیکرٹری سپریم کورٹ کی وضاحت کے بعد توسیع کے معاملات بڑی حد تک کلیئر ہوگئے۔
سیدھی سچی بات خان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اقتدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اہم فیصلوں پر عملدرآمد شروع ہوگیا۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی برداشت جواب دے گئی۔ مہینوں میں ہونے والے فیصلے ہفتوں میں اور ہفتوں کے فیصلے دنوں میں کیے جا رہے ہیں۔ گیم آخری مرحلے میں داخل ہوگئی۔ بہت سی ان ہونیاں ہوں گی۔

تبصرے بند ہیں.