شائد کچھ لوگ اس سے متفق نہ ہوں لیکن میں اس فلسفے بالکل درست مانتا ہوں کہ امن ایک مسکراہٹ سے شروع ہوتا ہے اور پھر اگلی سٹیج پر یہی امن مختلف ممالک یا علاقوں میں اقتصادی اورسماجی ترقی کا سبب بنتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج امن کو اپنی ترجیح بنانے والے معاشرے ہی مضبوط انفرا سٹرکچر، تگڑی آمدنی، مضبوط کرنسیوں اور اعلیٰ غیر ملکی سرمایہ کاری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ایک اور سوچ معاشی استحکام کو عالمی امن کی بنیاد خیال کرتی ہے۔ ایسا سوچنے والوں کا کہنا ہے کہ تاریخ نے یہ بات ثابت کی ہے کہ خوشحال قومیں، جہاں شہریوں کو بنیادی سہولیات باآسانی میسر ہوں، زیادہ پرامن اور مستحکم ہوتی ہیں۔غرض ان دونوں سوچوں کہ امن کی وجہ سے اقتصادی ترقی ہے یا اقتصادی ترقی کی وجہ سے امن ہے کا فیصلہ اسی طرح ممکن نہیں جس طرح آج تک اس بات کا فیصلہ نہیں ہو سکا کہ دنیا میں مرغی پہلے آئی تھی یا انڈ؟۔ ہمارے لیے یہ بحث اس لیے بھی کم اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ہمارے ہاں امن واماں کنٹرول میں ہے اور نا ہی اقتصادی صورتحال۔
بہرکیف یہ ایک حقیقت ہے کہ مضبوط معاشرے کے قیام کے لیے امن اور اقتصادی استحکام دونوں ہی لازم و ملزوم ہیں۔ ایک صحت مند معیشت روزگار اور مواقع پیدا کرتی ہے، جس سے جرائم اور تشدد کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ اقتصادی ترقی ایک ایسے ماحول کو فروغ دیتی ہے جہاں لوگ اپنے معاشرے میں سرمایہ کاری محسوس کرتے ہیں، اس طرح بغاوتوں اور بغاوتوں کے محرکات کو کم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس،بیروزگاری اور غربت اکثر بنیاد پرست نظریات اور تنازعات کی افزائش گاہ کے طور پر کام کرتی ہے۔
اس تناظر میں اگر پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ 242.8 ملین سے زائد آبادی والے اس ملک کو مسلسل اقتصادی چیلنجوں کا سامنا ہے اور شائد یہی معاملات یہاں ہر قسم کے غلط عناصر کی پیدائش اور فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔ اندرونی استحکام کو قابو میں کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے اور اسی صورتحال کی وجہ سے پڑوسی ممالک بھی مسلسل ایک جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔پاکستان کی معیشت بیرونی قرضوں، سیاسی عدم استحکام اور مہنگائی کے امتزاج کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار ہے اور ملک کا بجٹ بنانے اور روٹین کے اقتصادی معاملات کو رواں دواں رکھنے کے لیے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ زندگی گزارنے کے معاملات، خاص طور پر مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے زیادہ ہونے کے باعث، عام پاکستانیوں کا جینا دوبھر ہوچکا ہے اور یہ چیلنج عوام میں بڑے پیمانے پرعدم اطمینان کا باعث بن رہے ہیں۔
چونکہ مسائل کا تانا بانا تو ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہوتا ہے اسی لیے اگر یہ کہا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا کہ معاشی مشکلات نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک مشکل صورتحال میں صرف اور صرف ملک کی بہتری کو مدنظر رکھ کر ایک مشترکہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کے بجائے کچھ سیاسی پارٹیوں(بالخصوص پاکستان تحریک انصاف )نے کچھ اچھا کردار ادا نہیں کیا اور بگڑتی ہوئی اقتصادی اور امن واماں کی صورتحال کو مزید بگاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال نے امریکہ اور چین جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ بھی تعلقات کو کسی نہ کسی طور متاثر کیا ہے۔ پاکستان ایک طویل عرصے سے اپنی معیشت کو سنبھالنے کے لیے غیر ملکی امداد اور قرضوں پر انحصار کررہا ہے۔ تاہم اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بیرونی امداد پر انحصار کسی ملک کی خودمختاری کو محدود کردیتا ہے اور اسے مشکل سفارتی فیصلے کرنا پڑتے ہیں ، بعض اوقات اس کی قیمت اس کااندرونی امن بھی ہوتا ہے۔ اب اگر سی پیک کی ہی مثال لی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ یہ منصوبہ، اگر فعال ہو جائے تو، پاکستان کی معاشی ترقی میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے لیکن پاکستان کو اس کی قیمت امریکہ اور بھارت کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ کشیدگی صرف سرحدی شرانگیزی کی حد تک محدود نہیں بلکہ حکومتوں کی تبدیلی اور من پسند لوگوں کو اقتدار میں لانے کی پلاننگ کر کے سی پیک پر ہونے والے کاموں کو متاثر کرنا تک اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔
ریاست کے معاملات کو کنٹرول کرنا تو خیر بہت بڑی بات ہے ، کسی عام سے منصوبے کو رواں رکھنے میں بھی بے شمار مشکلات ، پریشانیوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ضرورت تو اس بات کی ہے کہ نا صرف سیاسی قوتیں بلکہ اہم ریاستی ادارے ملک میں پائیدار امن کے حصول اور معاشی بحالی اور ترقی کے مسئلہ ایک پیج پر موجود رہیں اور ملکی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے بھر پور کردار ادا کریں۔ اگرچہ تجزیہ کار پاکستان میں امن و اماں کی صورتحال کو کافی زیادہ تشویشناک قرار دیتے ہیں لیکن عالمی اداروں بالخصوص گلوبل پیس انڈیکس کی جانب سے جاری کردہ مختلف رپورٹس اور سروے کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں پر گزشتہ چار سال میں معاملات میں بہت زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ بہتری تو ضرور آئی ہے۔ گلوبل پیس انڈیکس کے مطابق دنیا کے 163 ممالک میں سے امن کے حوالہ سے سال 2020 میں پاکستان کی رینکنگ 151ویں نمبر پر تھی، سال2021 میں بھی پاکستان کی وہی پوزیشن برقرار رہی لیکن سال 2022 میں یہ پوزیشن قدرے بہتر ہو کر 148ویں نمبر پر آ گئی، سال 2023 میں اس کی پوزیشن میں مزید بہتری آئی اور یہ 146 ویں نمبر پر چلی گئی اور رواں برس اس کی پوزیشن 140 ویں نمبر پر ہے۔
بین الاقوامی معیار کے مطابق اگرچہ پاکستان میں امن کی صورتحال میں بہتری آئی ہے لیکن 163 ممالک میں سے 140 واں نمبر ہونا کسی بھی طور ایک اطمینان بخش بات نہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے حکمرانوں کے لیے ایک اور بات سوچنے کی ہے کہ آبادی کے لحاظ سے ہم سے کہیں زیادہ بڑا ملک بھارت جہاں غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری بھی یقینا پاکستان سے زیادہ ہی ہو گی گلوبل پیس انڈیکس میں 116ویں پوزیشن پرقبضہ جمائے بیٹھا ہے۔
ویسے تو جہاں بات امن کی ہو تو پاکستان کو دنیا کے کسی بھی ملک سے پیچھے نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر ہم ہر وقت ایٹمی ہتھیاروں، میزائل ٹیکنالوجی ، اٹیلیجنس نیٹ ورک اور فوجی قوت کے حوالہ سے بھارت سے اپنا موازنہ کرتے رہتے ہیں تو کیا امر مانع ہے کہ ہم امن کے قیام اور اقتصادی ترقی میں بھی اس کا بھر پور انداز میں مقابلہ کریں اور اسے پیچھے چھوڑنے کی کوشش کریں۔
تبصرے بند ہیں.