پنجاب کے احساس محرومی پر ایک نظر

66

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک ممبر قومی اسمبلی کے استعفے سے ایوان میں زلزلے کی سی کیفیت ہے یہ جناب اختر مینگل ہیں جو دھواں دھار تقریر کرنے کے بعد کسی نئے سفر پر روانہ ہوا چاہتے ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے آخری خطاب کے لئے جن لفظوں کا چنائو کیا اس نے حکومت اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ قوم کے ہر فرد کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انہوں نے ایوان میں موجود مختلف سیاسی جماعتوں کے معزز ممبران کو مخاطب کیا لیکن ان کا روئے سخن درحقیقت حکومتی اتحاد میں شامل شخصیات تھیں۔ اختر مینگل نے کہا کہ انہوں نے بلوچستان کے حالات دیکھ کر فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے ریاست، صدر اور وزیراعظم پر عدم اعتمادکا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان کے عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکے جب بھی اس مسئلے پر بات کی جائے بلیک آئوٹ کر دیا جاتا ہے۔ ان کے حلقے کے پینسٹھ ہزار ورکر ان سے ناراض ہیں، خضدار این اے 256 سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے والے اختر مینگل نے اپنا استعفیٰ سپیکر قومی اسمبلی کو پیش کرنے کے بعد اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں چارج شیٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی سیاست سے بہتر ہے پکوڑوں کی دکان کھول لوں، بعض سیاسی حلقے اس استعفے کے لئے منتخب وقت کے پیش نظر ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ قومی اسمبلی کے افق پر سیاہ بادل چھا رہے ہیں، ایک استعفے کے بعد کچھ اور شخصیات ان کے نقش قدم پر چلنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں اس رائے کے حق میں گزشتہ دور حکومت کی یاد دلاتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ انصاف حکومت میں بھی بات چند ممبران قومی اسمبلی کی ناراضی سے شروع ہوئی تھی جو آگے چل کر حکومت کے خاتمے تک پہنچی، اختر مینگل کو منانے کے لئے جنگی بنیادوں پر کوششیں شروع کر دی گئی ہیں سپیکر قومی اسمبلی سے کہا گیا کہ ان کا استعفیٰ منظور نہ کیا جائے جبکہ مختلف سطح کے وفود ان سے رابطہ کر کے انہیں منانے کی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں، اب تک جن قابل ذکر شخصیات نے انہیں استعفیٰ واپس لینے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کی ہے وہ لاجواب ہو کر واپس پلٹے ہیں جناب اختر مینگل نے سرکاری محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نواز، شہباز، بلاول اور جناب آصف زرداری کی جھوٹی قسموں اور وعدوں سے تنگ آ کر مستعفی ہو رہے ہیں، ان کے اس فقرے سے وہ نقشہ نظروں میں گھوم جاتا ہے جب اہم منصب پر بیٹھا شکایت کنندہ کو اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کرتا نظر آتا ہے اور کہتا ہے مجھے بس چند روز کا وقت دے دیں، ان شاء اللہ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا، وہ چند دن کبھی ختم نہیں ہوتے نہ ہی شکایت دور کی جاتی ہے، بعض سیاستدانوں کے بارے میں مشہور ہے وہ جب اقتدار میں ہوں تو اپنے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی سے کئی کئی ماہ نہیں ملتے اگر کوئی ملاقات کی خواہش کرے اور وقت مانگے تو کئی ماہ بعد کی تاریخ دی جاتی ہے وہ تاریخ آ جائے تو صاحب بہادر اچانک کسی ضروری کام سے اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں، ملاقات کا متمنی ان کی راہ دیکھتا رہ جاتا ہے، اختر مینگل صاحب کی پریس کانفرنس کے بعد جناب مولانا فضل الرحمن نے ان کے ساتھ مل کر مشترکہ جدوجہد کا اعلان کیا ہے اس سے قبل مولانا صاحب تحریک انصاف کے ساتھ مل کر جدوجہد کا اعلان کر چکے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد اندازہ ہوا ان کی جدوجہد کہیں راہ میں ہی رہ گئی، اب انہوں نے جدوجہد کے لئے نیا پارٹنر چن لیا جبکہ چند روز قبل انہوں نے جناب وزیراعظم پاکستان اور صدر مملکت سے ملاقات میں بندوق کا تحفہ وصول پانے کے بعد تاثر دیا کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر جدوجہد جاری رکھیں گے۔
بلوچستان کے معاملے پر اے پی سی کا مطالبہ سامنے آ رہا ہے جبکہ قومی اسمبلی میں ایک سیاسی جماعت کے علاوہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں لہٰذا جو بات اے پی سی میں بیٹھ کر ہو سکتی ہے وہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں زیادہ بہتر انداز میں ہو سکتی ہے، تحریک انصاف جو کبھی استعفوں کی بات کیا کرتی تھی آج ایوان میں بیٹھ کر بات کرنے کے چلن کی حامی ہے اس کی طرف سے جناب مینگل کو ایوان میں واپس آنے اور اس پلیٹ فارم سے جدوجہد کا مشورہ دیا گیا ہے کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار جناب مولانا فضل الرحمن نے کیا ہے انہوں نے طنز کے تیر اس خوبصورتی سے چلائے کہ وزیراعظم اور صدر پاکستان سے تازہ تازہ ملاقات کے بطن پر کوئی زخم نہ آئے انہوں نے کہا کہ ہم پینتالیس والے ہوں یا سینتالیس والے ہم ایوان میں بیٹھے ہیں اور اپنی بات کر رہے ہیں اے پی سی کے لئے بنا ئی گئی کمیٹی سے جناب اچکزئی کو بہت امیدیں وابستہ ہیں ان کے طرز عمل سے واضح ہوتا ہے وہ کس کے کہنے میں ہیں اور کس ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

جناب اختر مینگل کی قومی اسمبلی میں گفتگو اور مستعفی ہونے کے اعلان کے لئے کی گئی پریس کانفرنس میں جس غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے اس سے کچھ یوں تاثر ملتا ہے جیسے بلوچستان میں مختلف واقعات میں سیکڑوں پنجابیوں کو بسوں سے اتار کر ان کے جسم گولیوں سے چھلنی نہیں کئے گئے بلکہ شاید یہ بلوچ تھے جنہیں پنجاب کے کسی علاقے میں بے دردی سے قتل کیا گیا ہے اس سے قبل بلوچستان میں گزشتہ تیس برس میں جو ڈاکٹر، ٹیچر، وکلا اور سول سوسائٹی کے افراد موت کی نیند سلا دیئے گئے وہ بھی پنجابی نہ تھے بلکہ سب بلوچی تھے جنہیں پنجاب میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا جناب مینگل قومی اسمبلی اور بعد ازاں اپنی پریس کانفرنس میں ان بے گناہ مارے جانے والے سیکڑوں افراد کی تعزیت کرتے ، ان کے لئے فاتحہ پڑھتے، ایسے واقعات پر اظہار افسوس کرتے پھر اپنے دکھوں کی داستان سناتے جن میں مسنگ پرسن کی جب بھی بات ہوتی ہے کسی نہ کسی تخریبی کارروائی کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی مسنگ پرسن اسلحہ اٹھائے یا خودکش جیکٹ پہنے سامنے آ جاتا ہے انہوں نے آج تک پہاڑوں پر چڑھ کر سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں اور افسروں پر حملہ کرنے والے عناصر کو اور معصوم عوام کے لہو سے ہاتھ رنگنے والوں کو اپنی سرگرمیاں ترک کرنے کا نہیں کہا، وہ بلوچستان کی ترقی نہ کرنے کی شکایت تو کرتے ہیں ذرا پوچھ کر بتائیں جنرل مشرف کے زمانے میں ہر ممبر قومی اسمبلی کو سالانہ پچاس کروڑ روپے دس برس تک ملتے رہے یہ رقم ترقیاتی کاموں کے لئے تھی، انہوں نے کیا ترقیاتی کام کرائے، براہ کرم پنجاب کے احساس محرومی پر بھی ایک نظر ڈالیں، پنجاب سے تعلق رکھنے والے دس ہزار افراد مختلف ادوار میں بلوچستان میں قتل ہوئے ہزارہ قبیلے کے شہید اس کے علاوہ ہیں ہم کس کے کاندھے پر سر رکھ کر روئیں۔

تبصرے بند ہیں.