(گزشتہ سے پیوستہ)
سعودی عربین ائیر لائنز (سعودیہ) کا بوئنگ 777/300 طیارہ کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل ائیر پورٹ جدہ پر لینڈنگ کے لیے بلندی کم کر رہا تھا تو صبح پو پھیلنے کے ملگجے اندھیرے میں آس پاس کے مناظر اُبھر کر سامنے آنے لگے۔ ائیر پورٹ کی وسعت اور دور دور تک چمکتی تیز روشنیاں ہی نگاہوں کے سامنے نہیںتھیں بلکہ بڑی تعداد میں سعودیہ اور کچھ دوسری فضائی کمپنیوں کے بڑے بڑے طیارے بھی اِدھر اُدھر کھڑے اور کچھ اُڑانے بھرنے کی تیاری کرتے نظر آرہے تھے ۔ میرے ذہن کے نہاں خانے میں 41 برس قبل کی یادیں اور مناظر تازہ ہونے لگے جب میں اپنی والدہ محترمہ بے جی مرحومہ و مغفورہ کے ہمراہ حج کے لیے سعودی عرب آیا تھا اور جدہ کے حج ٹرمینل پر ہمارا طیارہ اُترا تھا۔ یکم ستمبر 1983ء کو پاکستان سے آخری حج فلائٹس کا پی آئی اے کا ائیر بس طیارہ اُڑا تو یہ کوئی دن ساڑھے 12 یا ایک بجے کا وقت تھا۔ وہ ایک روشن دن تھا اور کراچی سے طیارے کے اُڑنے کے بعد سارے راستے میں کھڑکی سے میں مسلسل زمین کے مناظر دیکھتا آیا تھا۔ کراچی سے کوئی اڑھائی تین گھنٹے کی اُڑان کے بعد طیارہ جب سعودی عرب کے مشرق میں دمام اور دہران کے شہروں کے اُوپر سے گزرتا ہوا سعودی عرب کی فضائی حدود میںداخل ہوا اور جدہ پہنچنے کے لیے اسے مزید دو گھنٹے لگے تھے تو نیچے کے مناظر دیکھتے ہوئے یہی لگ رہا تھا کہ لق و دق صحرا اور ریت کے ٹیلے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ بیچ میں کہیں کوئی آبادی، سبز نخلستان اور لکیر کی مانند نظر آتی شاہراہوں پر بچوں کے کھلونوں کی طرح نظر آتی گاڑیاں رواں دواں دکھائی دے رہی تھیں۔ پھر سہ پہر چار، ساڑھے چار بجے جدہ کے ائیر پورٹ کے اوپر پہنچے تو وہاں بھی آس پاس کے مناظر کچھ ایسے ہی تھے۔ لگتا تھا جیسے ریت کے ٹیلوں اور چھوٹی بڑی چٹانوں کے درمیان رن وے بنا ہوا ہو اور ڈبوں کی طرح عمارات کھڑی کی گئی ہوں۔ البتہ جدہ کا حج ٹرمینل جس پر ہم اُترے تھے دیکھنے کی چیز تھی ۔ یہ اُسی سال مکمل ہوا تھا اور ایک بہت بڑے خیمے کی مانند تھا۔ اس کے وسیع و عریض لائونج، دنیا کی مختلف ائیر لائنز کے کائونٹرز، مسافروں کے آرام کے لیے بنے گوشے یا احاطے غرضیکہ ہر ایک چیز ایک سے ایک بڑھ کر تھی۔ ان کے ساتھ لش پش کرتے واش روم، نماز کی جگہیں اور کھانے کی اشیاء کے سٹالز وغیرہ ہر ایک چیز بلا شبہ اعلیٰ معیار کی تھی۔ غرضیکہ میں انہی سوچوں اور خیالوں میں گم تھا کہ اس دوران ہمارا طیارہ کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل ائیر پورٹ جدہ کے ٹرمینل ون پر لینڈ کر چکا تھا۔
طیارہ اپنی مخصوص جگہ پر رُکا اور مسافروں کے باہر جانے کے لیے ابھی اس کا دروازہ کھلا نہیں تھا کہ ہماری آس پاس کی سیٹوں پر ہلچل شروع ہو گئی۔
مسافروں نے اپنی سیٹیں چھوڑ کر طیارے کی چھت کے ساتھ بنے ریکس میں سے اپنے سامان کے تھیلے اور بیگ وغیرہ نکالنا شروع کر دیئے اور دائیں بائیں راستوں سے طیارے کے دروازے تک پہنچنے کے لیے پیش قدمی شروع کر دی اس طرح ایک طرح کی دھکم پیل بھی شروع ہو گئی۔ ہم نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ طیارے سے باہر نکلنے کے لیے رش کم ہونے کے بعد ہم اپنی سیٹیں چھوڑیں گے۔ بیس ، پچیس منٹ اسی طرح گزر گئے اب طیارے سے باہر نکلنے کے لیے قطار میں مسافروں کا ہجوم کم ہو چکا تھا کہ ہم بھی اللہ کا نام لے کر قطار کے آخری مسافروں میں آن ملے ۔ احرام کی حالت میں دونوں ہاتھوں میں بیگ اُٹھائے اور سفری دستاویزات سنبھالے میرے لیے چلنا کسی حد تک مشکل تھا لیکن اللہ کریم نے ہمت دی ہم آگے بڑھتے گئے، کچھ اور مسافر بھی ہمارے ساتھ تھے۔ باہر جانے کے لیے عربی میں خروج اور انگلش میں Exit کے الفاظ ہماری رہنمائی کر رہے تھے۔ راستے میں واش رومز کے پاس رُکے کہ وضو تازہ بنا لیا جائے لیکن وہاں رش کچھ زیادہ ہی تھا۔ اہلیہ محترمہ کو وضو بنانے کا موقع مل گیا میں نے سوچا کہ آگے چل کر واش روم استعمال کر لیں گے۔ اب اگلا مرحلہ امیگریشن کا تھا۔ امیگریشن کے لیے کئی کائونٹر بنے ہوئے تھے ہر کائونٹر پر پندرہ سے بیس مسافر قطاروں میں لگے ہوئے تھے جو خواتین و حضرات طیارے سے جلدی باہر نکلنے کی کوشش کرتے نظر آئے تھے اُن میں سے بھی کچھ ان قطاروںمیں موجود تھے۔ کائونٹرز پر حجاب یا عبایہ پہنے باوردی سعودی خواتین سفری دستاویزات کی چیکنگ اور بائیو میٹرک کی تکمیل کے بعد پاسپورٹوں پر مہریں لگا کر آگے جانے دے رہی تھیں۔ آخری سرے پر کائونٹر کے سامنے دو قطاروں جن میں سے ایک مردوں کے لیے اوردوسری خواتین کے لیے مخصوص تھی ہم بھی جا کر کھڑے ہوگئے ۔ اتفاق ایسا ہوا کہ میری قطار میں مجھ سے آگے ایک دو بڑی عمر کے بزرگ تھے اور اُن کے ساتھ بزرگ خواتین بھی تھیں۔ ویزے اور پاسپورٹوں کی چیکنگ کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن اُن بزرگوں کا اور میرا بائیو میٹرک بہر کیف ایک مسئلہ بن کر سامنے آیا۔ خدا، خدا کر کے اُن بزرگوں کا بائیو میٹرک مکمل ہوا میری باری آئی تو میں نے انگریزی میں خاتون اہلکار کو اپنی عمر اور بائیو میٹرک میں پیش آنے والی دقت بتانے کی کوشش کی۔ خاتون میری بات کو سُنی اِن سُنی کرتے ہوئے مجھ سے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا یا شہادت کی اُنگلی بائیو میٹرک کے لیے آگے کرنے کے اشارے کرنے لگی دو تین بار بائیو میٹرک کی کوشش کی گئی جو کامیاب نہ ہوسکی میں نے بائیں ہاتھ کا انگوٹھا آگے کرنا چاہا کہ شاید اس سے بائیو میٹرک آسانی سے ہو جائے لیکن سعودی خاتون اہلکار اس پر آمادہ نہ ہوئی۔ اُس نے سپرے کی ایک بوتل اور ٹشو پیپر میری طرف بڑھایا کہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر سپرے کر کے اسے صاف کر لوں۔ اس کے بعد میں نے اپنا انگوٹھا آگے بڑھایا تو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بائیو میٹرک کا عمل مکمل ہو گیا اور میرے پاسپورٹ پر مہر لگادی گئی اور مجھے آگے بڑھنے کا اذن مل گیا۔ میں نے آس پاس دیکھا کسی بھی کائونٹر پر کوئی مسافر نہیں تھا سب آگے جا چکے تھے اب الیکٹرانک ڈور سے گزرنا تھا۔ میں نے سعودی امیگریشن اہلکار کو اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ دل کے ساتھ پیس میکر (Pace Maker) جڑا ہوا ہے تو اُسے میرا اشارہ سمجھ آ گیا اور اُس نے مینوئل میری تلاشی لینے کے بعد مجھے آگے جانے کی اجازت دے دی۔
اب اگلا مرحلہ اسلام آباد ائیر پورٹ سے بُک کرایا گیا اپنا سامان اکٹھا کرنا تھا ۔ ہال میں پہنچے تو جلد ہی ہمیں اپنا سامان مل گیا ۔ بیگز کو ٹرالی پر رکھا اور لائونج سے باہر نکلنے کے لیے آگے بڑھے تو معاً خیال آیا کہ ائیر پورٹ سے ہی موبائل میں نئی سعودی سم ڈلوا لینی چاہیے کہ آگے کام آئے گی۔ میں نے اہلیہ محترمہ کو سامان کی ٹرالی کے پاس چھوڑا ور لفٹ پر فرسٹ فلور پر سم ڈلوانے کے لیے چلا گیا ۔ وہاں JAWWY موبائل نیٹ ورک کے کائونٹر کے سامنے دو قطاریں بنی ہوئی تھیں اور لوگ نئی سمیں لے رہے تھے۔ میں بھی ایک قطار میں کھڑا ہو گیا ۔ نئی سم کے لیے 70 سعودی ریال وصول کیے جا رہے تھے ۔ وہاں ساتھ ہی ایک دوسرے موبائل نیٹ ورک کا کائونٹر بھی بنا ہوا تھا جو بند تھا ۔مجھ سے اگلے مسافر سم جاری کرنے والے مرد سعودی اہلکاروں سے بحث کر رہے تھے کہ دوسرے نیٹ ورک کی نئی سم کے 35 ریال لیے جاتے ہیں جبکہ آپ 70 ریال وصول کر رہے ہیں۔ سعودی اہلکاروں کا ایک ہی جواب تھا کہ ہمارے نیٹ ورک کے GB زیادہ ہیں 70 ریال میں سم لینی ہے تو لیں ورنہ خلاص(جان چھوڑیں) اب قہر درویش بر جان درویش کے مصداق کیا کیا جا سکتا تھا مجبوراً JAWWY نیٹ ورک کی نئی سم کے لیے 70 ریال کی ادائیگی کر دی لیکن اس کے ساتھ سفری دستاویزات کی پڑتال اور بائیو میٹرک ضروری تھا۔ شکر الحمدللہ کہ اب بائیو میٹرک میں زیادہ دیر نہ لگی اور موبائل نیٹ ورک اہلکار نے مجھے سم تھما دی جو میں نے ایک ساتھ کھڑے مسافر کی مدد سے اپنے موبائل میں انسٹال کر لی۔
موبائل سم لینے کا مرحلہ مکمل ہوا تو میں جلدی سے نیچے آیا اہلیہ محترمہ کسی حد تک پریشان کھڑی تھیں سامان کی ٹرالی کھینچ کر ائیر پورٹ سے باہر آ گئے یہ پارکنگ کا وہ حصہ تھا جہاں پہلے ٹیکسیاں اور پھر آگے بسیں کھڑی تھیں ہم نے اپنی بس کی تلاش کرنا تھی سامان لے کر آگے بڑھتے رہے تو آگے عربی لباس پہنے ایک پاکستانی نوجوان آتا ہوا ملا جس نے مجھ سے پوچھا کہ اسلام آباد سے آ رہے ہیں اور کہنے لگا کہ آخری سرے پر آ جائیں وہاں آپ کی بس کھڑی ہے ۔وہاں پہنچے تو جدید ترین ماڈل کی ایک بس مسافروں سے بھری کھڑی تھی ڈرائیور نیچے کھڑا تھا اُس نے ہمارے بیگ بس کے نچلے حصے میں سامان کے لیے مخصوص جگہ پر رکھے ۔ ہم بس میں داخل ہوئے ڈرائیور کے پیچھے دو ہی سیٹیں خالی تھیں ہم اُن پر بیٹھ گئے اور بس جدہ سے مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہو پڑی۔ (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.