گزشتہ روز افواج پاکستان کے سپہ سالار اعلیٰ جنہیں حافظ الملت بھی کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے نوجوانانِ پاکستان کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہیں امید اور یقین کے نسخہ ہائے کیمیا عطا کیے۔ جنرل حافظ عاصم منیر نے اپنے منفرد اور مخصوص انداز میں آیات قرآنی کے حوالے کے ساتھ شاندار گفتگو کی۔ آرمی چیف کی گفتگو کا نقطہ ارتکاز یہ تھا کہ ہم گھبرانے والے نہیں ہیں۔ انسان کو ترقی اور حقیقی کامیابی آزمائش کی کٹھن راہوں سے گزر کر ہی عطا ہوتی ہیں۔ دراصل انہوں نے اپنی پُرعزم گفتگو کے ذریعے آزمائش اور مشکل کو اپنے اُوپر سوار کرنے کے بجائے اس پر سوار ہو کر آگے بلکہ بہت آگے نکل جانے کا ہُنر سکھایا۔ یہ بات بھلا کس کو نہیں معلوم کہ ہمارا پیارا وطن پاکستان ان دنوں جس گرداب اور پیچیدہ صورتحال کا شکار ہے یہ اس سے ذرا مختلف ہے جس نازک دور سے ہم گزشتہ 77 سال سے گزر رہے ہیں۔ پچھلے چند سال سے ہم جن تلخ تجربات سے گزرے ہیں ان کو گمان میں لا کر ہی خوف آنے لگتا ہے۔ کس قدر بے دردی سے ریاست پاکستان اور اس کے مقدس و محترم اداروں کو تختہ مشق بنایا گیا۔ ظلم بالائے ظلم یہ کہ سب کچھ کرنے والے نام حقیقی آزادی کا استعمال کرتے رہے۔ ہنستے بستے ترقی کرتے اہل پاکستان کو حقیقی آزادی کا چکمہ دے کر ان کو گمراہی کے رستے پر ڈال دیا گیا۔ یہ تو بھلا ہو وقت کا کہ وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ لوگ ایک ان دیکھی اور ان سُنی غلامی کے طوق میں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ بیرونی ایجنڈے پر ہیں اور ملک دشمن طاقتوں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیے وقت بہت بے رحم ہوتا ہے۔ وقت کا پہیہ گھومتا ہے تو کچھ بھی خفیہ نہیں رہتا۔ بڑے بڑے ماہرین کی خفیہ کارروائیاں بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ پچھلے ایک عشرے یعنی دس سال کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم پاکستان کی سیاست و معاشرت کی بات کریں تو ہم نے بہت گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ کیا کھویا، کیا پایا کی بنیاد پر تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ نسلوں کی میراث گنوا بیٹھے ہیں۔ سیاست اور صحافت کا طالب علم ہونے کے ناتے میں یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ سیاسی اختلافات اور مقابلے کی فضا تو ویسے ہی جمہوریت کا حصہ اور حسن کہلاتی ہے مگر اس اختلاف کو نفرت و دشمنی کے سانچے میں ڈھال کر طوفان بدتمیزی کی صورت میں رائج کرنے کا فریضہ کب اور کس نے سرانجام دیا ہے۔ اب اس کا تعین ہو جانا چاہیے۔ وہ لمحہ آن پہنچا ہے کہ محب وطن قوتوں کو سرخرو ہونا ہے اور وطن دشمن طاقتوں کو نیست و نابود ہونا ہے۔ ہم نے ابتلا و آزمائش کا طویل دور بھگت لیا ہے۔ جھوٹی اور جعلی آزادی کے اندھے متوالوں نے جو چکر چلائے اس سارے عمل اور گھن چکر سے فائدہ تو معلوم نہیں کس کس نے اٹھایا البتہ ہماری نوجوان نسل کا خاصا نقصان ہو گیا ہے۔ زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ نوجوان بدتمیزی اور بدتہذیبی کو کلمہ حق سمجھنے لگے ہیں۔ سیاست دان ایک دوسرے پر الزامات لگاتے لگاتے اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی ایک بھی سُتھرا اور شفاف نہ رہا۔ سب نے اپنے ہی ہاتھوں سے ایک دوسرے کے منہ پر وہ کالک ملی ہے کہ کوئی بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تعمیر اور تخریب میں ایک واضح لکیر ہونی چاہیے۔ تاریخی طور پر یہ بات ازبر ہونی چاہیے کہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے والے، ملک سے اندھیرے مٹانے والے، ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے پاک کرنے والے اور ملک کو باعزت خودمختار حیثیت دلوانے کیلئے کام کرنے والے انہی اقدامات کی پاداش میں مجرم قرار دئیے گئے اور جعلی عدالتی سرٹیفکیٹ کے ذریعے نام نہاد اور ناتجربہ کار کھلاڑی ملک پر مسلط کر دئیے گئے جنہوں نے ایسا کھلواڑ کیا کہ اب ملک سنبھالے نہیں سنبھالا جا رہا۔ معلوم نہیں کہ یہ کہاں کا شعور ہے کہ اپنے ہی گھر کو آگ لگا کر دشمن سے داد لی جا رہی ہے۔ اپنے وطن کے محافظوں کی شہادتوں اور قربانیوں کا مذاق اڑا کر نہ جانے کس کی سونپی ہوئی ذمہ داری ادا کی جا رہی ہے۔ ایسی تعفن زدہ بدبودار سوچ کا قلع قمع بروقت کرنا وقت کا تقاضا بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔ افواج پاکستان بلا شبہ ہماری سلامتی و استحکام کی ضامن ہیں اور سپہ سالارِ اعلیٰ کی متفکرانہ دلچسپی بھی لازم ہے۔ نوجوانوں کو مخاطب کر کے انہیں یہ یقین دلانا کہ آپ ہی اس وطن کا مستقبل ہیں۔ آپ ہی کے ذریعے تعمیر و ترقی کی منزل کو پایا جا سکتا ہے، آپ ہی کے زور بازو سے دشمن کو نیچا دکھایا جا سکتا ہے اور آپ ہی وہ قوت ہیں جسے خیر کے سانچے میں ڈھال کر شر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ رہی بات فتنوں کی تو اُن کی سرکوبی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اب معافی تلافی کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ جس نے جو کیا ہے اس کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا۔ کھلے عام یا خفیہ کسی بھی طریقے سے قوم، ملک، ریاست اور اداروں کے خلاف زہر اگلنے والے ناہنجاروں کے گرد شکنجہ مزید سخت کیا جائے گا۔ اندرون و بیرون ملک بیٹھے یا چھپے ایسے تمام کرداروں کو بے نقاب کیا جائے گا جو خاکم بدہن پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے یا منصوبے بنا رہے تھے۔
قرائن و شواہد تو یہی خبر دے رہے ہیں کہ ان شاء اللہ پاکستان کا مستقبل محفوظ بھی ہے، خوشحال بھی، فتنوں سے پاک بھی اور روشن بھی۔ شرط صرف یہی ہے کہ ہم سب کو یکجان ہو کر اپنے اپنے حصے کا دیا جلائے رکھنا ہے۔
سپہ سلارِ اعلیٰ کے اس پیغام میں واضح لائحہ عمل ہے کہ
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
تبصرے بند ہیں.