فائنل راؤنڈ شروع ہوگیا، عبرتناک کہانی تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ملکی تاریخی کے پر اسرار کردار، اپنے خان کے مبینہ گاڈ فادر اور سرپرست اعلیٰ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید فوجی تحویل میں لے لئے گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں تفصیلی انکوائری کی گئی، بعد از ریٹائرمنٹ آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں پر ان کے خلاف فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کی گرفتاری، ”بریکنگ نیوز“ بن گئی۔ تبصرے، تجزیے، کہانیوں کا پنڈورا بکس کھل گیا۔ نادان مہاگرو کی ہدایت پر سانحہ 9 مئی کو ایک سال تک فالس فلیگ آپریشن قرار دے کر دل بہلاوے کا سامان کرتے رہے، قضا و قدر کے ”فرشتوں“ نے اس عرصہ میں اپنی توجہ شواہد اکٹھے کرنے پر مرکوز رکھی۔ بغاوت کے تانے بانے ملانے میں بڑا وقت لگ گیا۔ شواہد مکمل ہوتے ہی آتش فشاں پھٹ پڑا۔ 16، 12 کے ویران کمرے میں انکوائری، موبائل فون فرفر بولنے لگا، ریٹائرڈ شخصیت نے بہت کچھ اگل دیا۔ ”اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں“ گرفتاری اچانک نہیں ہوئی، بہت دفعہ سوچا گیا۔ پکے ثبوت، ناقابل تردید شواہد ملنے پر ہاتھ ڈالا گیا۔ ہاؤسنگ سوسائٹی نکتہ آغاز، سوسائٹی کے سی ای او معیز خان کے گھر سے 400 تولے سونا اور نقدی لے جانے کا الزام، پورے ہاؤسنگ پراجیکٹ کو اپنے نام کرانے کی کوشش بعد ازاں 4 کروڑ دینے کا مطالبہ، سیانے کہتے ہیں کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ ایک طرف اغوا برائے تاوان دوسری طرف اپنے ہی محکمے میں بغاوت کی سازش، آرٹیکل 6 کی سزا موت، ملٹری کورٹ تین افسروں پر مشتمل میجر جنرل سربراہ، چارج شیٹ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے دوسرے پیراگراف میں مضمر کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں میں مصروف رہے، تانے بانے خان اور پی ٹی آئی سے جڑے دکھائی دیے۔ چارج شیٹ دس سے بارہ نکات پر مشتمل، بنیادی نکات میں سانحہ 9 مئی، طالبان (فتنہ الخوارج) کی پاکستان میں دوبارہ آباد کاری، عمران پراجیکٹ کی سرپرستی، خان کو دوبارہ برسراقتدار لا کر دس پندرہ سال اپنی اور ان کی بادشاہت کا منصوبہ، 9 مئی کے سانحہ میں 232 فوجی تنصیبات کی نشاندہی، ریٹائرمنٹ کے بعد اڈیالہ جیل کے قیدی نمبر 804 سے بالواسطہ رابطے، ڈھیروں الزامات، طویل عرصہ تک انکوائری، اب پوچھ گچھ بہت کچھ ثابت ہوگیا۔ فیض خان رابطے پکڑے گئے۔ پی ٹی آئی کے ہیڈ آفس پر چھاپے کے دوران بہت سا ریکارڈ برآمد ہوا۔ رؤف حسن، احمد وقاص جنجوعہ اور کومل کی گرفتاری سے بہت کچھ حاصل ہوا۔طوطے فرفر بولنے لگے، موبائل فونز سے ڈیٹا برآمد کیا گیا۔ تین یورپی ممالک کے نمبروں سے واٹس ایپ کا بھی انکشاف ہوا۔ سہولت کاروں کی لمبی فہرست ہاتھ لگی۔ اس کے بعد ہی دو بریگیڈ ایک کرنل تحویل میں لیے گئے۔ اڈیالہ جیل میں سہولت کاروں کا پورا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ جتنی سہولتیں اپنے قیدی کو ملیں اتنی تو آزادوں کو حاصل نہیں ہوتیں، اسی لیے ترنگ میں آکر کہا کرتے تھے۔ ”کونے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے“ مگر قفس پر اچانک بجلی گر گئی۔ موبائل سمیت فائیو اسٹار ہوٹل کی سہولتیں فراہم کرنے والے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، تین وارڈن اور ایک ہیڈ وارڈن اٹھا لیے گئے۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سے بھی پوچھ گچھ، مزید 6 ملازمین 12 اردلی بھی ملوث کیا جیل میں پی ٹی آئی کا ذیلی آفس قائم تھا یا جیل افسران مبینہ طور پر فیض حمید کے زیر اثر تھے۔ یہ کارندے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کی ہدایات، بیانئے، خبریں، تجزیے اور خفیہ معلومات قیدی نمبر 804 کو پہچانتے تھے۔ خان ان رابطوں کے بعد ”ڈٹ کے کھڑا ہوجاتا“ دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ پشت مضبوط تھی۔ فکر کاسے کا نہیں تھا۔ مگر بڑی گرفتاری کی اطلاع ملتے ہی خان صاحب، انڈر پریشر آگئے۔ بلڈ پریشر 180 سے کراس کر گیا۔ ڈان نے حواس پر قابو پایا پہلا رد عمل تھا۔ یہ فوج کا اپنا معاملہ ہے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں۔ خان کا پرانا وتیرہ، بقول خاطر غزنوی ”اک ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے، ہاں مگر اتنا ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے“ بہتوں نے پہچان لیا باقی بھی آئندہ دنوں میں پہچان لیں گے۔ خان نے فیض حمید سے اپنے تعلقات کی تردید کی لیکن رواروی میں کہہ گئے کہ فیض حمید اثاثہ تھے۔ لیکن انہیں ضائع کردیا گیا۔ خواجہ آصف کہاں چوکنے والے تھے بولے خان اثاثے بیچنے کی عادی ہیں۔ خان نے انہیں اثاثہ کیوں قرار دیا۔ موصوف مبینہ طور پر آرمی چیف بننے کے خواہاں تھے۔ خان کو دو تین بار منتخب کرانا چاہتے تھے۔ مگر فیض حمید کی گرفتاری سے خان کی کمر ٹوٹ گئی۔ بقول فیصل واؤڈا گرفتاری کی ٹائمنگ اہم ہے۔ اگست، ستمبر سیاسی طور پر زیادہ گرم ہوں گے۔ خان کے سابق ڈی جی آئی ایس آئی سے تعلقات کا نقصان پی ٹی آئی کو ہوا۔ ان کی گرفتاری کے بعد پوری پارٹی لاوارث اور یتیم ہوگئی۔ کہانی ختم نہیں ہوئی۔ مزید گرفتاریاں ہو رہی ہیں ہوں گی۔ لمبی فہرست تیاری کرلی گئی ہے۔ فیلڈ میں موجود صحافی اور تجزیہ کار اپنی ”معلومات“ کے مطابق انکشافات کر رہے ہیں۔ ابصار عالم نے کہا مزید 52 افراد تحویل میں لیے گئے ہیں۔ کسی نے 78 تعداد بتائی۔ تیسرے نے کہا 100 اٹھا لیے گئے۔ جیل کاپورا عملہ تبدیل کردیا گیا۔ وہ دن گئے جب خلیل خان کی طرح خان صاحب فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ کتنے گرفتار ہوئے۔ آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز سے پتا چل سکے گا۔
فائنل راؤنڈ شروع ہوتے ہی سوشل میڈیا کو جیسے چپ لگ گئی، خان کی ہدایت ہے اہم شخصیت کی گرفتاری پر لب سی لیے جائیں۔ لب سینے سے کیا ہوگا، بات تو چل نکلی ہے۔ اب دیکھیں کہاں تک پہنچے، آئندہ دو ماہ میں کیا ہونے والا ہے؟ خان صاحب نے کہا حکومت کے پاس دو ماہ کا وقت ہے اکتوبر میں حکومت کی چھٹی، کیا الہام ہوا ہے؟ ”سامان دو مہینوں کا پل کی خبر نہیں“ کیسے پتا چلا؟ ان دو ماہ میں تو قسمت کے فیصلے ہوں گے۔ سہولت کاروں کو اپنی فکر پڑی ہے۔ 31 جولائی 2009ء کے فل کورٹ فیصلے کے مطابق آئین قانون سے مطابقت نہ رکھنے والے فیصلہ پر عملدرآمد ضروری نہیں، شاید اسی لیے واقفان حال کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کے نصیب میں نہیں ہیں۔ اس طرح حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی تو توسیع کا مسودہ تیار ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرح عمروں میں 3 سال توسیع بھی کردی گئی تو پچھتاوے کے سوا کیا حاصل ہوگا۔ ایک بڑی گرفتاری کے بعد سے پی ٹی آئی میں استعفوں کا دور چل نکلا ہے۔ علی امین گنڈا پور سے تلخ کلامی کے بعد روپوش حماد اظہر (صدر پی ٹی آئی پنجاب) اور سیکرٹری اصغر گجر مستعفیٰ ہوگئے۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے استعفیٰ دے دیا۔ ہم نہیں کھیلتے جسے چاہو اپوزیشن لیڈر بنا لو، پانچ پیارے اسکرینوں سے غائب، خیبر پختون خوا میں کرپشن کے خلاف خان سے شکایت کرنے پر شکیل خان کو مستعفیٰ ہونا پڑا، دیگر ارکان نے اس کی مذمت کی۔ خان نے ایک اہم افسر کو الیکشن کمشنر کے پاس بھیجا تھا ملاقات کی درخواست کی لیکن انکار کردیا گیا۔ معاملات طے نہ ہوسکے فاصلے بڑھ گئے۔ حافظ صاحب نے وہ کر دکھایا جو بڑے بڑے نہ کرسکے۔ یوتھیا وائرس کی ویکسین تیار کرلی گئی۔ خان نے 13 اور 14 اگست کی رات سڑکوں پر نکلنے کی چودہویں کال دی تی۔ ہم چراغاں دیکھنے شاہراہ دستور تک گئے۔ راولپنڈی اسلام آباد کی ایکسپریس وے جام تھی۔ قومی پرچم آتشبازی جلوس نعرے سبھی کچھ تھا پی ٹی آئی کے صرف دو جھنڈے نظر آئے، اسٹریٹ پاور کے مظاہرے کی کوئی کال کامیاب ثابت ہوتی نظر نہیں آتی۔ اسلام آباد میں محمد علی درانی کے گھر پر خفیہ اجلاس میں محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمان، گوہر علی خان، عمر ایوب سمیت سبھی موجود تھے۔ مولانا سے بات چیت کے لیے پانچ پانچ ارکان کی کمیٹی بن گئی۔ مگر حضرت مولانا کے غیظ و غضب کے باعث مذاکرات کی نوبت نہ آسکی، پی ٹی آئی مایوس خان کا مستقبل مخدوش، لوگ کہنے لگے ہیں کہ عنقریب ملٹری کورٹ کے دروازے سے آواز گونجے گی۔ ”خان حاضر ہو“ ویسے پی ٹی آئی والوں کو یقین ہو چلا ہے کہ خان جلد جیل سے باہر نہیں آئیں گے۔ لفظ جلد نکال دیں، طے ہوگیا کہ خان جیل سے باہر نہیں آئیں گے کوئے یار سے نکلے ہیں پتا نہیں کدھر جائیں گے۔
تبصرے بند ہیں.