ملک کی نازک معاشی صورتحال نے عام شہریوں کیساتھ ساتھ اداروں کوبھی متاثر کیا ہے۔ آپ کسی بھی شخص سے بات کریں، وہ مہنگائی کا رونا ضرور روئے گا۔قومی اداروں کی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے۔ہر دوسرا ادارہ فنڈز کی کمی کی شکار ہے۔ سرکاری جامعات کی مثال لے لیجئے۔ نہایت مشکل سے یہ اپنے اخراجات پورے کرتی ہیں۔ گزشتہ کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ جامعہ پنجاب جیسی نامور یونیورسٹی کیلئے بھی آمدن اور اخراجات میں توازن قائم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اساتذہ کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے لئے خزانہ دار صاحب کو ہر ماہ باقاعدہ جوڑ توڑ کرنا پڑتی ہے۔ ایک مشکل یہ ہے کہ سینکڑوں غریب اور مستحق طالب علم بھی فیس معافی کیلئے انتظامیہ کی طرف دیکھتے ہیں۔جیسے جیسے مہنگائی بڑھ رہی ہے، ایسے طالب علموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری جامعات کی آمدن کا ذریعہ طالب علموں کی فیسیں ہوتی ہیں یا پھر حکومتی فنڈز۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاشی دباو کی شکار وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے فنڈ ز بھی بڑھنے کے بجائے سکڑتے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں جامعات اپنے اخراجات کہاں سے پورے کریں؟ غریب طالب علموں کو کہاں سے وظائف دیں؟ تحقیق اور تعمیراتی کاموں کے خرچے کہاں سے نکالیں؟
اب ذرا دنیا بھر کی نامور جامعات پر نگاہ ڈالیں۔کروڑوں، اربوں ڈالر کے سالانہ بجٹ کی حامل یہ جامعات اپنے اخراجات کیسے پورے کرتی ہیں؟ ایک تو ان کی حکومتیں ہماری حکومتوں کی طرح آئی۔ ایم۔ ایف کی محتاج نہیں ہوتیں۔ لہٰذا طالب علموں کی فیسوں کیسا تھ ساتھ حکومتی فنڈز بھی ان کی آمدن کا ذریعہ ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ دنیا کی معروف جامعات نے اپنے فارغ التحصیل طالب علموں سے ایلومینائی نیٹ ورکس کے ذریعے رابطہ قائم رکھا ہوتا ہے۔ لاکھوں فارغ التحصیل طالب علموں کے ذریعے باقاعدہ امدادی مہمیں چلائی جاتی ہیں۔ نامور جامعات نے بھاری بھرکم رقوم پر مشتمل اینڈوومنٹ فنڈز کے نظام بھی قائم کر رکھے ہیں۔امدادی مہموں سے حاصل ہونے والی اربوں ڈالرز کی امداد انڈوومنٹ فنڈمیں جمع کی جاتی ہے۔
امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی کی مثال لیجئے۔ ہاورڈ یونیورسٹی ایلومینائی ایسوسی ایشن کو دنیا کا سب سے بااثر اور well-funded ایلومینائی نیٹ ورک سمجھا جاتا ہے۔ اس ایسوسی ایشن نے 4 لاکھ فارغ التحصیل طالب علموں سے رابطہ قائم کر رکھا ہے۔ 2013 سے 2018 کے دوران ہاورڈ کمپین کے ذریعے تقریبا 10 ارب ڈالر کی امداد اکھٹی کی گئی۔ دنیا کا سب سے بھاری بھرکم تعلیمی اینڈوومنٹ فنڈ بھی ہاورڈ میں قائم ہے۔ یہ فنڈ 50 ارب ڈالرز کا حامل ہے۔ اسٹین فورڈ یونیورسٹی کی مثال لیجئے۔اس کا اینڈوومنٹ فنڈ 37 ارب ڈالرز پر مشتمل ہے۔ سٹین فورڈ یونیورسٹی ایلومینائی ایسوسی ایشن اپنے 2 لاکھ 30 ہزار فارغ التحصیل طالب علموں پر مشتمل ہے۔ یہ طالب علم اربوں ڈالرز کی امداد حاصل کرنے میں اپنی یونیورسٹی کی مدد کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ایم۔ آئی۔ ٹی 24 ارب ڈالر، کولمبیا یونیورسٹی 15 ارب ڈالر، آکسفورڈ یونیورسٹی 4 ارب پاونڈ، جبکہ کیمبرج یونیورسٹی 3.5 ارب پاونڈ کے انڈوومنٹ فنڈز رکھتی ہے۔ یہ تو خیر چند جامعات کا تذکرہ ہے۔ دنیا کی تمام بڑی جامعات نے انڈوومنٹ فنڈز قائم کر رکھے ہیں۔بیشتر غیر معروف جامعات میں بھی فنڈز قائم ہیں۔ یہ فنڈز غریب اور مستحق طالب علموں کو وظائف عطا کرنے میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحقیقی سرگرمیوں، تعمیراتی کاموں، عالمی اقدامات، اور مختلف تدریسی اسامیوں کے اخرجات بھی اس فنڈ سے نکالے جاتے ہیں۔
یہ باتیں مجھے اس وقت یاد آئیں جب چند دن پہلے اطلاع ملی کہ پنجاب یونیورسٹی نے ایک اینڈومنٹ فنڈ قائم کیا ہے۔پنجاب یونیورسٹی برصغیر بلکہ ایشیاء کی قدیم جامعات میں شمار ہوتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود اس اقدام پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان کے دور میں یہ تاریخی اقدام ہوا ہے۔ ہم اکثر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں قائم انڈوومنٹ فنڈ کے قصے سنا کرتے ہیں۔ اولڈ راوینز سے حاصل ہونے والی کروڑوں روپے کی امداد کی اطلاعات بھی ملتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر خالد محمود کی زبانی معلوم ہوا کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی ایلومینائی ایسوسی ایشن نے اس کالج کے تمام ایم۔بی۔بی۔ایس طالب علموں کی فیس کی ادائیگی اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ اس کے علاوہ کالج میں تحقیق اور تعمیراتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔خیال آتا ہے کہ جامعہ پنجاب کے لاکھوں گریجوایٹس بھی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ رابطہ کیا جائے تو یقینا بہت سے اپنی مادر علمی اور اس کے غریب طالب علموں کی امداد کرنا چاہیں گے۔ اس کام کے لئے خلوص نیت اور بھرپور کاوش درکار ہے۔ جامعہ پنجاب کے فارغ التحصیل طالب علم بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ ملک کے وزراء اعظم تک بنے ہیں۔ بیرون ملک کامیاب زندگیاں گزار رہے ہیں۔ اب اگر کوشش کی جائے گی تو یہ ضرور اپنی مادر علمی کا قرض لوٹانا چاہیں گے۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہم نے اس سوچ کی ترویج ہی نہیں کی کہ دینی مدارس، مساجد اور ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی امداد کرنا بھی عین ثواب ہے۔وگرنہ ہمارے ہاں اہل خیر کی کمی نہیں ہے۔ یہا ں صاحب ثروت اور صاحب توفیق افراد لاکھوں کروڑوں روپے کی امداد کرتے ہیں۔ بڑھ چڑھ کر خیر ات کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل ثروت اور اہل خیر افراد کو باور کروایا جائے کہ اعلیٰ تعلیم کے خواہشمند غریب اور مستحق طالب علموں کی امداد بھی عین کارخیر اور صدقہ جاریہ ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی ایلومینائی ایسوسی ایشن اور انڈومنٹ فنڈکی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں اس فکر کی ترویج کرے۔
دنیا بھر میں یہ رواج بھی ہے کہ فارغ التحصیل طالب علم جب اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہیں تو اپنی مادر علمی کی طرف لوٹتے ہیں۔ اسے کچھ نہ کچھ لوٹاتے ہیں۔امریکہ کی معروف ٹیلی ویژن ہوسٹ اوپیرا وینفرے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انتہائی غربت اور مفلسی کی زندگی گزارنے والی اوپیرا نے Tennessee state university سے تعلیمی وظیفہ لے کر ابلاغیات کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اوپیرا جب کامیاب اور مہنگی ترین ٹیلی ویژن ہوسٹ بن گئی تو تسلسل کے ساتھ اپنی مادر علمی کو لاکھوں ڈالر کی امداد فراہم کرتی رہی۔ ایک چھوٹی سی کافی شاپ چین کو Starbucks میں تبدیل کر دینے والے Howard Schultz کی بھی یہی کہانی ہے۔ نیویارک سٹی کا سابق میئر اور معروف کمپنی بلومبرگ کی بنیاد رکھنے والا مائیکل بلومبرگ بھی اس تعلیمی ادارے کو کروڑوں ڈالر کی امداد دیتا رہا جس نے غربت کے زمانے میں اسے مفت تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا تھا۔ تحقیق کریں تو ایسے نامور افراد کی ایک لمبی فہرست ہے جو اپنے تعلیمی اداروں کو فیاض دلی کے ساتھ امداد فراہم کرتے رہے۔
لازم ہے کہ پاکستان میں بھی ہم لوگوں کو یہ درس دیں کہ جن اداروں سے تعلیم حاصل کرکے آج آپ ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں، ان تعلیمی اداروں کا قرض لوٹانے کے لئے ان اداروں اور طالب علموں پر خرچ کریں۔ جامعہ پنجاب نے اس کام کی داغ بیل ڈالی ہے تو ہمیں اس پروجیکٹ کو کامیاب بنانا چاہیے۔ڈاکٹر خالد محمود صاحب کی گفتگو سے یہ بھی پتہ چلا کہ اس ضمن میں ایک بنک اکاؤنٹ قائم کر دیا گیا ہے۔ پالیسی ہے کہ کیش وصول کرنے کے بجائے امدادی رقم براہ راست اس اکاؤنٹ میں جائے۔ اس فنڈ میں اہل خیر اپنی زکوٰۃ، خیرات، امدادی رقوم عطیہ کر سکتے ہیں۔ حاصل ہونے والی رقم کی سود سے پاک اسلامی بنکاری کے ذریعے سرمایہ کاری کی جائے گی۔ منافع سے غریب اور مستحق طالب علموں کو ایک معاہدے کے تحت قرض حسنہ دیا جائے گا۔طالب علم دس سال کے عرصہ میں یہ قرض حسنہ واپس کر سکے گا۔ دعا ہے کہ یہ منصوبہ ضرور کا میاب ہو۔اس کی کامیابی سے بہت سے غریب لیکن ذہین طالب علموں کے لئے تعلیم حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔
تبصرے بند ہیں.