”بنگلہ دیش کی وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد مستعفی ہونے کے بعد اپنے ملک سے فرار ہو کر بھارت پہنچ گئیں“۔ یہ چیختی چنگھاڑتی سُر خی (ہیڈ لائن) تھی جو پیر 5 اگست کی سہ پہر سے ٹی وی نیوز چینلز کی اہم ترین بریکنگ نیوز کی صورت میں ایسے سامنے آئی کہ دیکھنے، سننے والے ہی دم بخود ہو کر نہ رہ گئے بلکہ ایک دنیا بھی حیران رہ گئی اور میرے جیسے پرانی سوچ کے مالک لوگ جو دسمبر 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ اور پاکستان کے دو لخت ہونے پر پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے ان کا اس بات پر مزید ایمان پختہ ہوا کہ جس کسی نے ”مظلوم پاکستان“ کو اپنے جھوٹ، مکر، فریب اور منفی پروپیگنڈہ کا نشانہ بنا کر اسے اذیت پہنچائی اور اسے دو لخت کرنے اور اسے رسوا کرنے میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا وہ ”حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں“ کا ضرور نشانہ بنا۔ یقینا یہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں ہو گا کہ گزشتہ تقریباً بیس برسوں (2009ء سے اب 2024ء تک لگا تار) بنگلہ دیش کی حکومت اور اقتدار پر براجمان بنگلہ بند ھو شیخ مجیب الرحمان کی سپتنی شیخ حسینہ واجد جیسی ضدی، تنگ نظر اور آمرانہ ذہنیت کی حامل، ملک کے اقتدار اور سیاہ و سفید کی مالک خاتون، اقتدار و اختیار جسے وہ اپنے باپ کی وراثت سمجھ کر اس پر قابض تھی سے اِتنی ذلت، رسوائی اور بے بسی کے سا تھ اقتدار سے محروم ہونا پڑے گاکہ اسے اپنے ملک میں رہنے کے لیے چند گز زمین یا کوئی کوٹھا، کوٹھڑی یا مکان نصیب نہیں ہو گا۔ یقیناً یہ جائے عبرت ہے، یہ مکافات عمل ہے، یہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اور اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں جیسے اقوالِ ذریں کا پر تو ہے۔ ”یہ حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں“ اور ”جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے“ کی عملی صورت ہے کہ اس کے باپ نے جھوٹ، فریب، مکر اور منفی پروپیگنڈہ سے کام لے کر اور بھارت جیسے پاکستان کے ازلی اور ابدی دشمن کا آلہ کار بن کر پاکستان کو دو لخت کرنے اور پاکستانی فوج کو رسوا کرنے میں جو کردار ادا کیا اُس کی سزا اُسے اِس طرح ملی کہ بنگلہ بندھو کہلوانے اور ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہونے کے باوجود اپنے ہی ملک کے فوجیوں نے اس کے گھر گھس کر اس کے اہلِ خانہ سمیت اس طرح گولیوں کا نشانہ بنایا کہ کئی دنوں تک دھان منڈی ڈھاکہ میں اس کے گھر کی سیڑھیوں پر اُس کی لاش بے گور و کفن پڑی رہی۔ یقینا یہ جائے عبرت تھی۔ یہ مظلوم پاکستان کو رسوا کرنے اور بد نا م کرنے کا انتقام تھا جو بنگلہ بندھو (شیخ مجیب الرحمان) کے ایک دور میں اشارہ ابرو پر سر تسلیم خم کرنے والوں کے ہاتھوں سر انجام پایا۔
اب شیخ حسینہ واجد بھی اسی انجام سے دو چار ہوئی ہے۔ ایسا ضرور ہونا چاہیے تھا کہ یہ قانونِ فطرت ہے کہ جب کسی بات کی انتہا ہو جاتی ہے، جب غرور، تکبر، نفرت، ضد، ہٹ دھرمی اور انتہا پسندی حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر مکافاتِ عمل ناگزیر ہو جاتا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کم و بیش بیس برس تک پانچ سال ایک بار اور 2015ء سے2024ء تک لگاتار تین بار کے لیے وزیرِ اعظم رہیں۔ اس دوران انہوں نے اپنے ملک کی ترقی کے لیے یقینا کچھ کام کیے ہوں گے۔ عوام کی بہبود کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کیا ہو گا، تاہم ایک ضدی، مغرور، متکبر، بھارت نواز اور پاکستان دشمن شخصیت کا ان کا روپ نمایاں رہا۔ 1971ء کی خانہ جنگی کے دوران متحدہ پاکستان کے حامی افراد اور طبقات کو ظلم و ستم اور انتقام کا نشانہ بنانا شیخ حسینہ واجد کا طرۂ امتیازرہا۔ جماعت اسلامی کے رہنما اور البدر اور الشمس کے رضا کار جنہیں وہ دہشت گرد قرار دیتی تھیں خاص طور پر نشانہ بنے۔ کتنی ہی بزرگ شخصیات جیلوں میں طویل عرصے تک بند اور پھانسیوں پرلٹکائی گئیں۔ یہاں تفصیل میں جانے کا محل نہیں محض مختصر سا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
شیخ حسینہ واجد 2009ء میں وزیرِ اعظم بنگلہ دیش بنیں تو محترمہ نے جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل (ICT) کے نام سے انتہائی معتصب ٹریبونل قائم کیا۔ اس کے ذریعے1971ء کی خانہ جنگی کے دوران پاکستان کاسبز ہلالی پرچم بلند کرنے اور پاکستان کی سا لمیت کی جنگ لڑنے والے متحدہ پاکستان کے حامیوں کو بطورِ خاص انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں موت کی سزائیں سنائی گئیں۔ ان میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابقہ امیر اور 90سالہ بزرگ رہنما پروفیسر غلام اعظم سمیت عبدالکلام آزاد، دلاور حسین سعیدی، مُلا عبدالقادر شہید، چوہدری معین الدین، اے کے ایم یوسف، مطیع الرحمان نظامی، میر قاسم علی، علی احسن مجاہد، صلاح الدین قادر چوہدری اور دیگر کئی رہنما شامل تھے۔ ان میں پروفیسر غلام اعظم، اے کے یوسف اور کچھ دوسرے رہنما جیل کی کال کوٹھڑیوں میں پھانسی پر لٹکنے کا انتظار کرتے ہوئے اللہ کو پیارے ہو گئے جبکہ دیگر کو مختلف اوقات میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ پاکستان دشمنی اور پاکستان سے نفرت شیخ حسینہ واجد کی سرشت میں شامل تھی۔ وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی جس سے پاکستان سے ضد، دشمنی اور نفرت کا اظہار سامنے آتا ہو۔ بھارت کے گُن گانا اور اس کی پالیسیوں پر عمل کرنا محترمہ کے لیے اعزاز کا باعث تھا۔
2016ء میں پاکستان میں سارک کا نفرنس کا انعقاد ہونا تھا۔ بھارت نے اس میں شرکت سے انکار کیا تو شیخ حسینہ واجد کی سربراہی میں بنگلہ دیش بھی کانفرنس میں شرکت سے انکار کرنے والوں میں پیش پیش تھا۔ اسی دور میں شیخ حسینہ واجد نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوارن پاکستان کے خلاف خوب زہر اُگلا اور ایک اخبار کو انٹر ویو دیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ پاکستان اس کی حکومت سے متحدہ پاکستان کے حامیوں کو پھانسی دینے پر اعتراض کرنے سے باز رہے ورنہ وہ پاکستان سے سفارتی تعلقات منقطع کر سکتی ہے۔ شیخ حسینہ واجد کی طرف سے پاکستان سے نفرت کے اظہار کے ساتھ محترمہ کے آمرانہ مزاج، تکبر، غرور، ضد، نفرت اور انتقام کے جذبات کے تفصیل بہت طویل ہے اس کو نظر انداز کرتے ہیں اور اس کے بجائے محترمہ کے بارے میں موقر اور معتبر تجزیہ نگاروں کی آراء کو سامنے رکھ کر محترمہ کاجو امیج ابھرتا ہے اس کامختصراً حوالہ دیا جاتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کی آراء کے مطابق محترمہ نے بنگلہ دیشی عوام کی خدمت کی بجائے اپنی خواہشات کو پورا کرنا اپنا مقصد بنائے رکھا۔ عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مخالفین کو دبانے اور انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کو ترجیح دی۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر اسے خلافِ قانون قرار دیا اور اس کے رہنماؤں کو موت کی سزا دلوا کر پھانسی پر لٹکایا۔ بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی (BNP) کی رہنما اور سابقہ وزیرِ اعظم خالدہ ضیاء کو جیل میں ڈالے رکھا۔ غرضیکہ ماضی کی تلخیوں کو ہی زندہ نہ کیا بلکہ انتقام کی راہ پر چلنے کو فوقیت دی۔
شیخ حسینہ واجد کے اقدامات اور اس کی منتقم مزاج شخصیت کا تذکرہ مزید جاری رکھا جا سکتا ہے لیکن حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں کہہ کر اس تذکرے کو ختم کر تے ہیں کہ محترمہ مکافاتِ عمل کا شکار بھارت میں محبوس ہو چکی ہے۔
تبصرے بند ہیں.