حکومت کرنے کے حوالے سے جرأت سے مراد ریلیف دینا، بھرپور غور اور فکر کے بعد فیصلہ کرنا، میرٹ، قانون اور آئین کو نافذ کرنا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کا چند سالہ دور آئین سازی، آقا کریمؐ کو آخری نبی نہ ماننے والوں کو غیر مسلم، اسلامی سربراہی کانفرنس، فوج کو وقت سے ہم آہنگ مسلح کرنا، ریلیف کے معاملے میں تو شاید کتابیں کم پڑ جائیں۔ ہر حکومت کا انجام اس کا ایک دن ختم ہونا ہوتا ہے باقی رہ جانے والی اس کی پالیسیاں اس کے اقدامات ہیں اگر ان اقدامات میں حکومت کے سربراہ کے آئین کے مطابق رائے اور افکار شامل نہ ہوں تو پھر حکومت کرنے کا الزام لینے کی کیا ضرورت ہے۔ وطن عزیز یا برصغیر ہی ایسا خطہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ہمارے حکمران طبقوں بیوروکریسی کے نمائندوں سے سب لوگ واقف ہیں، سرکاری ملازم جو بیوروکریسی کا حصہ ہو وہ عوام پر ملازم نہیں حاکم مسلط ہوا کرتا ہے۔ آتے ہیں موضوع کی طرف کہ جرأت کس قدر ضروری ہے۔ بعض دیانتدار جج، آفیسر صرف ریلیف نہ دینا دیانتداری سمجھتے ہیں، میں سیاسی ججوں اور سرکاری افسران کی بات نہیں کر رہا بلکہ خالصتاً آئینی حدود و قیود اور قانون کی پاسداری کی بات کر رہا ہوں جس میں رہتے ہوئے ریلیف دینا نہ دینے سے کہیں زیادہ دیانتداری اور جرأت کا کام ہے۔ مجھے یاد ہے ہمارے دوست سید طاہر شہباز شاہ کہتے تھے کہ ریلیف دینا زیادہ دیانتداری اور جرأت ہے نہ کہ ریلیف نہ دینا۔ جرأت آج کل تلوار تیر چلانے کا نام نہیں، آئین کے دائرے میں کام کرنے کا نام ہے۔ اگر کوئی بیوروکریٹ کسی فائل کو ہاتھ ہی نہ لگائے کہ کہیں کل کو نیب نہ پکڑ لے، ایف آئی اے ڈرے کہ کل کو نیب کا افسر ناراض نہ ہو جائے، آئی بی والے کوئی رپورٹ تیار نہ کر دیں، کوئی اور ادارہ تاک میں نہ ہو۔ تو میں نہیں مانتا وہ شخص دیانتدار، ہمت والا یا اس کو عوام پر مسلط کرنا جائز ہے۔ میں نے اپنے زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر کابینہ کے مشورے سے لگ رہا ہے۔ کیا وزیراعظم اس کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے۔ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ نیا چیئرمین اس بات کی اہلیت نہیں رکھتا کہ ملک کو درپیش معاشی مسائل سے اپنے ادارے کی کارکردگی کی حد تک نکال پائے۔ اگر کوئی آفیسر ریبیٹ دینے، سیلز ٹیکس کے ریلیف، قانون کی عملداری، میرٹ پر ٹرانسفر پوسٹنگ کرنے کی جرأت نہیں رکھتا تو پھر اس کو ادارہ سونپنے کی کیا ضرورت ہے اور اگر وزیراعظم نہیں جانتے تو پھر اپنی سول ایجنسیوں سے رپورٹ لے لیں۔ عام Working Capacity کا پتہ چل جائے گا۔ اس میں کابینہ کا کیا کردار ہے؟ FBR میں میرٹ پر جرأت مندانہ فیصلے کرنا ہونگے، کرپشن کا پیسہ حلق سے نیچے اترنے سے پہلے اس حلق کی سانس بند کرنا ہو گی۔ موجودہ قوانین کو نئے انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے سہارے نئے دور میں داخل کرنا ہو گا۔ موجودہ وزیراعظم جب وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے ایک تاریخ رقم کی۔ شاید وہ اس لیے تھی کہ اوپر بڑے بھائی وزیراعظم یا پھر اتحادی وزیراعظم (سید یوسف رضا گیلانی) تھے۔ جناب وزیراعظم صاحب! کابینہ سے مشورہ نہ کریں اس سے بہتر ہے سنگاپور کے لی کوان یو کی طرح محکمہ کا سربراہ وزیر کو بنائیں، اس کو جوابدہ بنائیں۔ اس کو محکمہ کی سیکرٹری کی محتاجی سے آزاد کرائیں، اس کو سیکرٹری سے نہ کہنا پڑے بلکہ وہ خود رپورٹ منگوا کر افسران کی تعیناتیاں کریں اور ان کے ماتحت عملہ کو ان کی صوابدید پر قانون میں دیئے گئے اختیارات کے مطابق کام کرنے دیں پھر نگرانی کرنے والے محکمے کوئی خرابی پکڑ لیں تو تادیبی کارروائی کریں، میرٹ کو اپنائیں۔
جناب محسن بیگ معروف تجزیہ کار ہیں ان کو سب جانتے ہیں مگر مجھ سے ان کی کوئی واقفیت نہیں ہے۔ ان کے تجزیات سنتا رہتا ہوں اگر وہ حکومت کو کوئی مشورہ دیتے ہیں تو یقین کریں کہ بالکل وقت کی پکار ہو گا۔ جب ان کے گھر عمران نیازی نے تمام احسانات پس پشت ڈال کر ایف آئی اے کا چھاپہ مروایا تھا تو انہوں نے اپنا پسٹل نکال کر سیدھے فائر کیے تھے اور کہا تھا ”عمران تُو تو گیا“۔ وہ انہوں نے کسی سے مشورہ کر کے نہیں کہا تھا ان کے منہ سے کسی سازش کی وجہ سے نہیں نکلا تھا بلکہ ایک بہادر انسان کا اپنے گھر میں گھسانے والے کو اپنی فطرت کے مطابق جواب تھا۔ ان چار الفاظ پر مبنی جملے کی لاج آگے چل کر وہ ذاتی حیثیت میں کیسے رکھتے ان کو معلوم نہ تھا مگر قدرت بھی بزدلوں کو پسند نہیں کرتی۔ اللہ نے اس بہادر شخص کے چار حروف کی لاج رکھی اور تاریخ نے وہ چار حروف عمران پر بھیج دیئے اور پھر مزید چار حروف نے ایک پیج حکومت گیری کا نکاح نامہ ریزہ ریزہ کر دیا۔ جرأت فطرت میں ہوتی ہے، مشکل وقت میں بزدل سے مشورہ کرنا خودکشی ہے، قوم پر یہ مشکل ترین وقت ہے، اس میں محب وطن، جرأت مند اور عقل والے لوگوں سے مشاورت کریں۔ کابینہ سے مشاورت آئینی تقاضوں کے تحت کریں۔ اگر محسن نقوی کا فون سن کر احد چیمہ پر لرزہ طاری ہونا ہے، اگر وزیر خزانہ کے اعصاب پر اسحاق ڈار سوار ہے تو پھر حکومت کا وقار بحال نہیں ہو سکتا۔ جماعت اسلامی کا دھرنا عوامی مطالبات کے ساتھ ہے لہٰذا عوام میں خوب پذیرائی ہے اور حافظ نعیم الرحمان نے کسی کو چور، ڈاکو، ڈیزل نہیں کہا۔ یہ ہے سیاسی دھرنا۔ عمران اپنے منہ مقبول بن رہے ہیں۔ ایک حکایت کی آمد ہے پڑھ لیں۔ دو بھیڑیں تھیں ایک دوسری سے کہتی ہے کہ حوریں کسے کہتے ہیں۔ وہ کہتی ہے چپ رہو، لوگوں کا ہماری طرف ہی دھیان ہے۔ دوسرا عمران جیل سے دھمکیاں، معافیاں نہ جانے کیا کیا ”ایک آدمی کنویں میں گر گیا تو آہ و بکا مچا دی مجھے بچاؤ مجھے بچاؤ۔ آوازیں لندن، امریکہ تک پہنچ گئیں پھر گالیاں دینے لگا۔ بہن…… مجھے بچاؤ اس وقت آؤ گے جب میں کسی طرف منہ کر جاؤں گا؟ بندہ پوچھے کنویں سے کس طرف منہ کرو گے؟ عمران کی جیل سے باہر نہ آنے کی وجہ اس کی زبان اور عمل کی کوئی گارنٹی (اس پارٹی بھی ذمہ داری نہیں لیتی) اب وزیراعظم صاحب کے لیے ایک واقعہ ”گوجرانوالہ کے ایک چوہدری میرے بڑے بھائی پاجی اعظم صاحب کے دوست تھے۔ چوہدری ضلع چیئرمین بھی رہے۔ ان کے ڈیرے پر گئے تو وہ مسلیوں، عیسائیوں، کمیروں نوکروں کے ساتھ بیٹھ کر شراب پی رہے تھے۔ پاجی نے کہا چاچا چوہدری آپ ضلع کے چیئرمین ہیں، ڈی سی، ایس ایس پی، کمشنر، ڈی آئی جی سب آپ کے دوست اور تابعدار ہیں۔ چوہدری نے کمال جواب دیا کہنے لگے۔ ”پتر جی! اگر میں نے شراب پی کر بھی سر سر کرنا ہے تو لعنت ہے شراب پینے پر، یہ مصلی اچھے جو مجھے چوہدری صاحب اور سر سر کرتے ہیں۔“ اگر حکومت لے کر بھی سر سر کرنا ہے تو بہتر ہے اپنے ووٹروں میں واپس آ جائیں اور سر سر کہنے کے بجائے سر کہلوائیں۔ آخر پر یاد رکھئے گا ملک کی ناؤ صرف ایک شخص بچا سکتا ہے وہ سپہ سالار کیونکہ وہ بہادر، بے داغ، باکمال اور محب وطن ہیں۔
تبصرے بند ہیں.