آئینے بیچتا ہوں، اندھوں کے شہر میں

86

توانائی بحران نے پورے ملک کو ایک بہت بڑی تباہی کی شکل میں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری کے ساتھ اب گھر گھر بلوں کے رونے روئے جا رہے ہیں، ہر کوئی پریشان، کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ۔ سب کو ایک ہی فکر کہ بل کیسے ادا کرنا ہے۔ لوگ گھروں کی اشیاء فروخت کرکے بھاری بل اتار رہے ہیں۔ ایک غریب آدمی نے اپنا گدھا فروخت کرکے بجلی کا بل ادا کیا۔ جب بات اس حد تک جا پہنچے تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اب یہ گھر اور یہ ملک رہنے کے قابل نہیں۔ سوچتا رہتا ہوں، سنتا رہتا ہوں، پڑھتا رہتا ہوں۔ ملک ترقی کی راہوں پر چڑھ گیا ہے۔ بڑے ڈالر آ رہے ہیں، فلائی اوور بن رہے ہیں مگر جب بجلی کے ستائے عوام کو دیکھتا ہوں تو وہ وہیں کھڑا ہے جہاں بھوک نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ …بے آرام، ناامید اور اداس اداس چہرے پر مایوسی… دکھ ہے درد ہے … چیخیں ہیں، آہیں ہیں، سسکیاں ہیں۔ کون ان کی مجبوریوں کو ختم کرے گا، حکمرانوں کو فکر نہیں ہے۔ عوام دربدر ہو رہے ہیں۔ ان کے علم میں ہے کہ خلق خدا در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے، خودکشیاں کر رہی ہے، بھوک اور افلاس سے دم توڑ رہی ہے، اغواء ہیں، ڈکیتیاں ہیں، قتل ہیں، غیرت کے نام پر بازار قتل سجایا جا رہا ہے۔ اب کونسا عذاب ہے جو ہم پر طاری نہیں ہوا۔

 

کہیں چاک جاں کا رفو تو نہیں کسی آستین پر لہو تو نہیں
کہ شہید راہ ملال کا نہیں خون بہا اسے بھول جائے

 

میں کچھ کہنا چاہتا ہوں کہہ نہیں پاتا، الفاظ نہیں ملتے، ملتے ہیں تو پکڑائی نہیں دیتے، کس کی سنوں کس کی نہ سنوں۔ کس کو سنائوں کہ یہاں تو اب کوئی سننے والا بھی نہیں ہے۔ ایک طرف ترقی ہی ترقی، خوشحالی ہی خوشحالی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف ہر گھر میں تباہی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ یہاں مظلوم کی دستک پر کوئی در نہیں کھلتا… خلق خدا مر رہی ہے لوگ گردے بیچ رہے ہیں، بیٹیاں فروخت کر رہے ہیں پھر بھی ہمارا دعویٰ ہے ہم ہیں خلق خدا کی آواز… ذرا سی بھی ہمیں شرم و حیا نہیں آتی۔ کیسے لوگ ہیں بہانوں بہانوں سے ایک دوسرے کو لوٹ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے ہاتھوں برباد ہو رہے ہیں اور لوگ ہیں کہ اب وہ تو گندے پانی کو بھی ترس رہے ہیں۔
یہ حکومتیں کیا کر رہی ہیں۔ صرف فارم 45اور فارم 47کی باتیں اسمبلیوں میں ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے کی باتیں ایک دوسرے کو گالیاں دینے کی باتیں، اپوزیشن اقتدار کے حصول کی بات کرتی ہے۔ عوام کی کسی کو فکر نہیں، اسمبلیاں ہماری ڈھنڈورچی کا کردار ادا کر رہی ہیں اور وہ جو ملک کو لوٹ رہے ہیں وہ لیڈر اور وہ جو برگر بیچنے والا، چھولے بیچنے والا، چھابڑی والا، مزدوری کرنے والا، رزق حلال کمانے والا ہم تو اس کا سکون بھی چھین رہے ہیں وہ تو میرے نزدیک عظیم لوگ ہیں وہ رزق کی تلاش کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور حکمران ہیں کہ ان کو مزید ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر رہے ہیں۔

 

یہ حوصلہ بھی بہت ہے کہ ہم نے آنکھوں میں
تمام خواب رکھے، خواب زر نہیں رکھا
کسی کو کاوش زر سے میاں نہیں فرصت
سنانا چاہیں تو کس کو سنائیں غم اپنا

 

حالات کدھر جا رہے ہیں اور ان کا ذمہ دار کون ہے۔ اگر ذمہ داری کی بات کرتے ہیں تو وہ بہت کڑوی لگے گی۔ ذمہ داری کوئی بھی لینے کو تیار نہیں۔ یہی تو بدقسمتی ہے کہ ہم ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں۔ کوئی باہر سے آ کر تو تباہیاں نہیں پھیلا گیا کیا پل بنانے سے ترقی ہو جاتی ہے۔ ترقی تو اس وقت ہوتی ہے جو عوام خوشحال ہوتے ہیں جب ان کو روزگار ملتا ہے جب ملک میں انڈسٹری لگتی ہے۔ انڈسٹری تو آپ نے بند کر رکھی ہے جس ملک میں بجلی، گیس اور نہ پانی ہوگا تو پھر کاروبار کیسے چلیں گے۔ جن اداروں نے عوام کے لیے بہتری لانا ہے وہی ادارے عوام کے لیے تباہی بن چکے ہیں۔

 

کیا پوچھتے ہو حال میرے کاروبار کا
آئینے بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں

 

پہلے ہم روزی کماتے تھے، روٹی کے لیے۔ اب ہم کماتے ہیں بجلی، پانی اور گیس کے بھاری بلوں کے لیے شاید بھوک تو کٹ سکتی ہے مگر بجلی کا بل نہ دیا تو بجلی کٹ جائے گی، میٹر اتار کر لے جائیں گے اور دوبارہ میٹر لگوانے کے لیے رشوت الگ سے دینا پڑے گی۔ جائیں تو جائیں کہاں، نہ مر سکتے ہیں، نہ جی سکتے ہیں، نہ کھا سکتے ہیں، نہ رو سکتے ہیں۔ فریادی بہت مگر یہاں فریاد سننے والا کی بھی نہیں ہے کہ سب اپنی اپنی لگن میں مگن ہیں۔

 

اور آخری بات…
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ اپنی بیٹی سے کہتے ہیں۔ بیٹی پانی لاؤ۔ وقت کے امیر نے تین دفعہ بیٹی کو آواز دی کہ پانی لاؤ لیکن بیٹی پانی لانے نہیں اٹھی۔ بیوی پانی لے کے آئی۔ کہنے لگے یہ پیالہ لے لیں تو حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ ناراض ہو گئے۔ کہنے لگے جسے پانی لانے کو کہا تھا وہ کیوں نہیں لائی تو کیوں آئی ہے، کیا میری بچی نافرمان ہو گئی ہے۔ تو بیوی کہنے لگی اس کا کرتہ پھٹ گیا ہے، دوسرا کرتا پاس نہیں ہے، اس کے وجود کا کچھ حصہ اس کرتے کی وجہ سے نظر آرہا ہے، بیچاری اندر بیٹھ کے سی رہی ہے، میں آئی ہوں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ سے زوجہ کہنے لگی۔ جب سے آپ امیر المومنینؓ بنے ہیں، ہمارے فاقے چلتے ہیں، غربتیں ہیں، بیٹیاں تو سب کی پیاری ہوتی ہیں اور اگر بیٹی کے لیے جوڑا نہ ہو تو پھر بیٹی باہر کیسے آئے؟ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ اٹھے، صحن میں رونے لگے۔ کہنے لگے، مولا شکر ہے عمر کے گھر میں حکومت تو آئی ہے پر دولت نہیں آئی۔ اللہ شکر ہے، عمر کے گھر میں حرام کا مال نہیں آیا، یہ ہمارے حکمران تھے۔ یہ ہمارے لیڈر تھے اور یہی چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی۔

تبصرے بند ہیں.