فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز اور غاصبانہ قبضے کے خلاف ناقابلِ شکست مزاحمت کی علامت اسماعیل ہنیہ کو ایسے حالات میں شہید کر دیا گیا ہے جب وہ جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات میں حماس کے نمائندے تھے اور ایران کے نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے خصوصی دعوت پر بطور مہمان تہران میں بظاہر محفوظ سمجھے جانے والے ایک مہمان خانے میں مقیم تھے جہاں اِس بطلِ حریت کو 31 جولائی رات دو بجے کے قریب محافظ سمیت مار دیا گیا اِس حملے میں استعمال کی گئی ٹیکنالوجی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اِس کے زیادہ تر تجربات افغانستان میں کیے گئے۔ شہادت سے چند گھنٹے قبل تہران کی شاہراہوں پر گھومنے پھرنے کے دوران ہی ہنیہ بھی نظروں میں آئے مذاکراتی نمائندے کی حیثیت سے ایک اہم گروپ کی بین الاقوامی سفارت کاری کا چہرہ اور پھر دنیا بھر کے حکومتی نمائندوں کی موجودگی میں فلسطینی رہنما کو نشانہ بنانا ثابت کرتا ہے کہ اِس طرح اسرائیل نے جان بوجھ کر امن اور جنگ بندی کا راستہ روکا ہے۔ سفاک وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا بدھ کی شام ٹی وی بیان میں ہنیہ کا نام لیے بغیر کہنا کہ اسرائیل نے چاہے دیر سے سہی لیکن ایرانی پراکسیوں بشمول حماس اور حزب اللہ کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے اور یہ کہ اگر اُس پر حملہ کیا گیا توکسی بھی منظر نامے کے لیے تیار اور ہر حملے کا بھرپور جواب دیں گے۔ یہ بیان جنگ سے دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے کرہ ارض پر جنگ کی آگ بڑھکانے جیسی مذموم کارروائیوں پر یقین رکھنے والی صیہونی ریاست کو اگر بروقت روکنے میں اقوامِ عالم نے تساہل سے کام لیا تو مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کا کم اور جنگ و جدل کا امکان بڑھ سکتا ہے اب عالمی طاقتوں پر منحصر ہے یہ طے ہے کہ اسرائیل کی سرپرستی کے ساتھ اُسے جنگ و جدل سے روکنا از حد مشکل ہے۔
کسی آزاد و خود مختار ملک کے اندر کارروائی بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے جس کی کوئی بھی آزاد و خود ملک اجازت نہیں دے سکتا ایران کے دارالحکومت میں ایک مہمان کی قیام گاہ کو نشانہ بنانہ ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل بے لگام ہو چکا ہے اور وہ کسی بھی وقت کسی بھی ملک کی آزادی و خود مختاری پامال کر سکتا ہے قیام سے لیکر مصر، اُردن، لبنان، شام کے علاقے ہتھیانے کے ساتھ وہ پورے فلسطین پر قابض ہو چکا ہے وہ کئی ممالک میں سائنسدانوں کو مارنے میں ملوث رہا ہے ایسے حالات میں جب عالمی عدالتِ انصاف اسرائیل کو ناجائز ریاست اور غزہ پر جاری حملوں کو فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دے چکی اسرائیل کی دیدہ دلیری بہت حیران کُن ہے ظاہر ہے یہ سب کچھ عالمی طاقتوں کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں اب تو وہ ہمسایہ ممالک کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کے ساتھ دہشت گردی کوبھی بطور ہتھیار استعمال کرنے لگا ہے جس سے خطے کا امن تہہ بالا ہونے کا خدشہ ہے اِس میں کوئی دورائے نہیں کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کھلم کھلا دہشت گردی ہے کاش عالمی طاقتیں اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کریں اور عرب خطے کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی غاصب ریاست کی غلط طرفداری نہ کریں۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے پیدا ہونے والے خطرات و اثرات غیر معمولی ہو سکتے ہیں اِس واقعہ سے غزہ جنگ بندی سوالیہ نشان بن گئی ہے قطری وزیرِ اعظم عبدالرحمن الثانی نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے صاف کہہ دیا ہے کہ جب مذاکرات کار کو ہی قتل کر دیا جائے تو ثالثی کیسے کامیاب ہو سکتی ہے امریکہ نے بظاہر کارروائی سے لاتعلقی ظاہر کی ہے لیکن ساتھ یہ عزم دہرایا ہے کہ اسرائیل کا دفاع کریں گے ایران اور لبنا ن میں حملوں سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے تناظر میں اُس نے چار ہزار تازہ دم فوجیوں اور چھ لڑاکا طیاروں کے ساتھ جنگی بحری بیڑا خلیج فارس بھیج دیا ہے اسرائیلی دیدہ دلیری امریکی تھپکی کے بغیر ممکن نہیں اسرائیل تو عرصہ سے امریکی اعانت سے خطے میں نئے محاذ کھولنے، ہمسایہ ممالک کی آزادی و خود مختاری پامال کرنے اور اپنی حدود کو وسعت دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایرانی سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای نے ہنیہ حملے پر کہہ دیا ہے کہ ہم خون کا بدلہ لینا اپنا فرض سمجھتے ہیں نو منتخب صدر مسعود پیزشکیان کا کہنا ہے صیہونی رجیم اپنی بزدلانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتائج جلد دیکھیں گے حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز کی طر ف سے بھی کہا گیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل جنگ کو نئی سطح پر لے جائے گا اسرائیل کی طرح ایران، حماس، حزب اللہ اور حوثیوں کی طرف سے جوابی کارروائی کے اعلانات نے خطے کو درپیش خطرات کو یک دم بڑھا دیا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اسرائیل کا دفاع کرنے کے بجائے عالمی طاقتیں اُسے عالمی قوانین کا پابند بنائیں تاکہ خطے میں امن رہے۔
کوئی لاکھ اختلاف کرے مگر غزہ کے موجودہ حالات کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں بلکہ کئی ہیں، اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے جو کسی عالمی ضابطے کی پاسداری پر یقین نہیں رکھتی مگر یہ بھی سچ ہے کہ غزہ حالات کے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے حماس کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے جس نے بغیر تیاری اور ممکنہ صورتحال کا ادراک کیے بغیر احمقانہ کارروائی سے فلسطینیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا اگر حملے نہ کیے جاتے تو اسرائیل کو غزہ پر حملوں کا ہرگز جواز نہ ملتا اب تو امریکی بھی یہ اعتراف کرنے لگے ہیں کہ غزہ پر دس ماہ سے جاری فضائی حملوں میں پچاسی ہزار ٹن بارود برسا کر اب تک ایک لاکھ کے قریب فلسطینی شہید کر دئیے گئے ہیں جبکہ نوے فیصد ہسپتال، رہائشی عمارتیں اور سکول تباہ کردئیے گئے ہیں مظلوم اور نہتے غزہ مکینوں کو پناہ گزین کیمپوں میں بھی فضائی حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے پانی اور خوراک کی قلت سے الگ انسانی المیہ جنم لے چکا اگر حماس بے وقوفی نہ کرتی تو آج حالات مختلف ہوتے اور اسرائیل ہمسایہ ممالک کی خود مختاری پامال نہ کر رہا ہوتا ایک محدود کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے سارے غزہ کو کھنڈرات بنا دیا ہے جنگ چھیڑنا آسان ہے البتہ روکنا مشکل ہو جاتا ہے کاش حماس کے ذمہ داران کارروائی سے قبل اِس نکتے کو ذہن میں رکھتے۔
اسماعیل ہنیہ کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو جنگجوکے بجائے ادیب، سیاستدان اور کھلاڑی زیادہ محسوس ہوتے ہیں وہ 29 جنوری 1962 کو غزہ کی پٹی پر واقع الشطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے یہاں 1948 میں اُن کے والدین فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے دوران عسقلان سے آ کر آباد ہوئے ابتدائی تعلیم اقوامِ متحدہ کے بنائے اِداروں سے حاصل کی غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے عربی ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی لی وہ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے معاون مقرر ہوئے اُن کا یونیورسٹی کے بہترین فٹ بالرز میں شمار ہوتا تھا حماس میں آنے سے قبل کچھ عرصہ اخوان المسلمون کی ایک طلبا کونسل کے سربراہ بھی رہے اُنہیں کئی بار قید اور جلا وطنی کا بھی سامنا کرنا پڑا 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی پر فلسطینی اتھارٹی کے وزیرِ اعظم رہے لیکن جلد ہی صدر محمود عباس نے عہدے سے ہٹا دیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ محمود عباس نے یہ فیصلہ اسرائیلی ایما پر کیا انہوں نے 2017 میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہی سنبھالی اسی برس انہیں امریکہ کی طرف سے عالمی دہشت گرد قرار دے دیا گیا آجکل بھی جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے تمام تر سختیوں کے باوجود ثابت قدم رہے انہوں نے اپنی زندگی فلسطینیوں کے لیے وقف کر رکھی تھی خاندان کے ساٹھ افراد کی شہادت کے امین اسماعیل ہنیہ خود بھی شہید ہو گئے۔ آج سارا عالمِ اسلام اُن کی وفات پر سوگوار ہے، اللہ غریقِ رحمت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
تبصرے بند ہیں.