بجلی بحران میں منفی ہتھکنڈے

49

فارم45 فارم47 فروری کے الیکشن میں دھاندلی، بانی تحریک انصاف کی رہائی، ڈالر کا ریٹ اوپر جا رہا ہے کہ نیچے آ رہا ہے۔ سب باتیں بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں اگر کسی کا ذکر ہے تو وہ بجلی کی قیمتوں کے خلاف دھرنے کا ہے۔ اس وقت راولپنڈی میں جماعت اسلامی کا دھرنا جاری ہے اور کب تک رہے گا یہ بھی کوئی پتا نہیں اور یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ یہ دھرنا صرف راولپنڈی تک ہی محدود رہے گا یا پورے ملک میں پھیل جائے گا۔ بات صرف دھرنے کی بھی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے ہی سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر اس حوالے سے کھپ پڑ چکی تھی اور مختلف اطراف سے اس حوالے سے پریس کانفرنسز بھی ہو رہی تھیں اور ہنوز ہو رہی ہیں کہ جن میں آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے عوام دشمن معاہدوں کی تفصیلات بتائی جا رہی ہیں اور ان پر عمل درآمد کے نتیجہ میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ارب روپے جو ان پاور کمپنیوں کی جیب میں جا رہے ہیں ان کی بھی تفصیل میڈیا پر آ رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کہ جس نے کبھی جنرل الیکشن میں ساڑھے چار پانچ فیصد ووٹوں سے زیادہ حاصل نہیں کیا آج وہ عوام کی نمائندہ بن کر راولپنڈی میں دھرنا دئیے بیٹھی ہے اور کوئی جماعت اسلامی کا حامی ہے یا مخالف لیکن وہ دھرنے کے مقاصد سے اختلاف نہیں کر سکتا حتیٰ کہ خود حکمران جماعت کے رہنما بھی اس سے اتفاق کرنے پر مجبور ہیں اور میاں نواز شریف سے لے کر وزیر اعظم تک اور پاکستان پیپلز پارٹی سے لے کر متحدہ تک تمام اتحادی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ جو دھرنے والے کہہ رہے ہیں۔ ایک لمحہ کے لئے سوچیں کہ اگر ملک میں بجلی کی قیمتوں کا مسئلہ نہ ہو تو دہشت گردی کے علاوہ ملک میں کوئی اور ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس سے حکومت کو کوئی پریشانی ہو لیکن ایک طرف یہ سب مشکلات ہیں تو دوسری جانب حکومت سولر انرجی سے اس کا حل نکالنے کی جو کوشش کر رہی ہے اس پر واپڈا کا عملہ اپنے ذاتی مقاصد کے لئے منفی ہتھکنڈوں سے پوری طرح پانی پھیرنے پر تلا ہوا ہے۔

پنجاب اور سندھ کی حکومتیں عوام کو سولر پینل اسی لئے دے رہی ہیں کہ عوام کی بھاری بلوں سے جان چھوٹ جائے لیکن جو لوگ اپنے جیب سے پیسے خرچ کر کے یا یہ کہہ لیں کہ اپنی ضروریات کا گلہ گھونٹ کر اپنے گھر میں سولر پینل لگوا رہے ہیں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے بجائے انھیں ذلیل کیا جا رہا ہے حالانکہ جو صارف بھی اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے اپنے گھر سولر پینل لگواتا ہے وہ ایک قسم کی حکومت کی مدد کرتا ہے اور اس کا بوجھ کم کرتا ہے لیکن پہلے تو بجٹ کے موقع پر سولر پینل لگانے والوں پر ٹیکس کا اتنا شور ہوا کہ وزیر اعظم کو اس کی تردید کرنا پڑی اور ملک میں سارا شور ہی بجلی کے بلوں پر ہے لیکن واپڈا اہلکاروں کے حوصلے دیکھیں کہ جب عوام بجلی کے بلوں کی وجہ سے بلبلا رہے ہیں اس صورت حال میں بھی زیادہ بل بھیجنے سے باز نہیں آ رہے اور وزیر اعظم کو اس حوالے سے مداخلت کرنا پڑ ی لیکن اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ لوگوں کو زیادہ بل آ رہے ہیں بلکہ جن لوگوں نے سولر پینل لگوائے ہوئے ہیں ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں وہ ایک الگ ہی داستان ہے کہ جس کے متعلق بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ”سنتا جا اور شرماتا جا“ لیکن جو اہلکار یہ سب کر رہے ہیں انھیں اپنے ذاتی فائدے سے ہٹ کر کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔ سولر پینل کے لئے نیٹ میٹرنگ واپڈا کی اجازت سے ہوتی ہے لیکن اس میں کچھ اس طرح کے منفی ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں کہ صارف توبہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہمارے ایک ذاتی جاننے والے ہیں انھیں ستر ہزار کا بل بھیج دیا۔ وہ پریشان ہو گئے کہ جب سولر پینل لگوا رکھا ہے اور ان کے سولر پینل جتنے یونٹ بناتے ہیں اس سے کم بجلی خرچ ہوتی ہے تو پھر اتنا زیادہ بل کیسے آ گیا۔ اب ایک بات ذہن میں ر کھ لیں کہ اس طرح کے بکھیڑوں سے نمٹنے کے لئے آپ کے دو چار دن تو ضائع ہوتے ہی ہیں تو ملازمت پیشہ انسان کیا کرے۔ یہ ایک اور مسئلہ ہے۔ خیر وہ واپڈا کے دفتر گئے اور انھوں نے جب میٹر کی تصاویر دکھائی تو واپڈا اہل کار کے لئے انکار ممکن نہیں تھا لیکن بل جمعرات کو آیاتھا وہ بھی آن لائن تو دوسرے دن جب جمعہ کے بعد دفتر سے چھٹی لے کر واپڈا کے دفتر پہنچے تو متعلقہ اہل کار موجود نہیں تھا اور اس کے بعد ہفتہ اور اتوار چھٹی تھی اور پیر بل ادا کرنے کی آخری تاریخ تھی یعنی یہ سب کام پوری منصوبہ بندی سے ہو رہا ہے۔ جب پیر کو دفتر گئے تو انھوں نے واپڈا اور جس سولر کمپنی نے یہ سسٹم لگایا تھا اس کے دفتر کے اس شدید گرمی میں چکر لگوانا شروع کر دیئے اور جب تمام اعتراضات ختم ہو گئے تو اس کی چھٹی کا وقت ہو چکا تھا لہٰذا مجبوری میں انھیں ستر ہزار روپے کا ناجائز بل آن لائن ادا کرنا پڑا۔

بل کی درستی کے چکر میں ان پر یہ بھی انکشاف ہوا کہ ان کا جو سولر پینل کا میٹر لگا ہوا ہے اس میں چھ سات گھنٹے وقت کا فرق ہے۔ اب اس سے کیا ہوتا ہے کہ دن میں تین بجے سولر پینل سے یونٹ بن رہے ہیں لیکن میٹر میں رات کے نو یا دس بجے ہیں تو تین چار ماہ بعد آپ کو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کا بل آ سکتا ہے کہ جناب سورج غروب ہونے کے بعد آپ کا میٹر کس طرح یونٹ بنا سکتا ہے لہٰذا یقینا آپ نے کوئی گڑبڑ کی ہے۔ اب میٹر اتنا پیچیدہ ہے کہ عام بندہ اس سے وقت نہیں دیکھ سکتا تو حکومت سے گذارش ہے کہ خدارا واپڈا اہل کاروں کے اس قسم کے منفی ہتھکنڈوں سے عوام کی جان چھڑائیں تاکہ عوام کے اندر اس حوالے سے جو شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اس میں کچھ کمی ہو سکے اور بجلی کے بلوں کو لے کر ملک میں جو بحران ہے اس کے خاتمہ میں مدد مل سکے۔

تبصرے بند ہیں.