حقا کہ بنائے لاالٰہ است حسینؓ

97

بڑے کاموں کے لیے بڑے انسانوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ امام حسینؓ جس خانوادے سے ہیں، وہی بجا طور پر اس لائق تھا کہ تحفّظِ دین کے لیے انتخاب کیا جاتا۔ یہ شان صرف نبیؐ اور علیؓ کے گھرانے کی ہے۔ جہاں سے دین کی اشاعت ہوئی، وہیں سے اِس کا تحفّظ بھی مطلوب تھا۔ امام حسینؓ حضرت علی بن ابی طالبؓ کے نورِ عین ہیں، سیّدۃ النّساء حضرت فاطمہؓ کے دل کے چین ہیں۔ آپؓ خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰؐ کے نواسے ہیں، اور جنابِ ابو طالبؓ کے پوتے ہیں۔

رسولِ کریمؐ کا ارشادِ گرامی ہے: ”حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں“۔ یہاں ”میں حسینؓ سے ہوں“ سے مراد یہ ہے کہ پیغامِ رسالتؐ کی بقا اور زندگی حسینؓ کے دم سے ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے اسی نکتے کو اپنی رباعی میں ان الفاظ کے ساتھ یوں بیان کیا ہے:
شاہ است حسینؓ، پادشاہ است حسینؓ
دیں است حسینؓ، دیں پناہ است حسینؓ
سر داد، نہ داد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لاالٰہ است حسینؓ

(شاہ بھی حسینؓ ہیں اور بادشاہ بھی حسینؓ ہیں۔ دین حسینؓ سے ہے اور دین کی پناہ بھی حسینؓ سے ہے۔ آپؓ نے سر دے دیا، لیکن یزید کے ہاتھ میں بیعت کے لیے اپنا ہاتھ نہیں دیا، سچ تو یہ ہے کلمہ ِ لا الٰہ کی بنیاد حسینؓ ہیں)
اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ اولی الامر کی اطاعت کا حکم موجود ہے۔ اُولی الامر کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ اولی الامر وہی ہے جو اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کو روح و بدن پر نافذ کرتا ہے۔ ملوکیت کے علمبردار وقت کے بادشاہوں کو ”اولی الامر“ قرار دیتے ہیں، تا آن کہ وہ اپنی موروثی بادشاہت کو ایک دینی جواز مہیا کر سکیں۔ اُولی الامر کے متعلق حضرت واصف علی واصفؒ نے کیا خوب فرمایا ہے، ایک ہی جملے میں ایک مکمل مضمون کا سامان موجود ہے: ”کربلا کے میدان میں فیصلہ ہو گیا تھا کہ اُولی الامر کون ہوتا ہے“۔ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرنے والے اُولی الامر کو پہچان گئے اور اپنے امامؓ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ زور و زر کے پجاری، امامؓ کے مقابلے پر کھڑے تھے۔

یہ اقتدار کی جنگ ہرگز نہ تھی۔ اگر اقتدار مطلوب ہوتا تو امام عالی مقامؓ مدینہ منورہ ہی میں قیام فرماتے، یہیں رہ کر لوگوں کو اپنی بیعت کی دعوت دیتے اور ایک لشکرِ جرار اکٹھا کرتے۔ آپؓ خطہ ِحجاز کی سلطنت اپنے نام کر سکتے تھے …… لیکن ایسی صورت میں اسلام دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا، ایک شامی اسلام کہلاتا اور دوسرا مدنی۔ آپؓ کے پیشِ نظر وحدتِ اُمّت تھی۔ آپؓ نے وحدتِ دین کے لیے قربانی دینے کا فیصلہ کیا۔ آپؓ کی جد و جہد، صعوبت اور کرب و بلا کا سارا سفر اقتدار کے لیے نہیں، تحفظِ اقدار کے لیے تھا۔ دینی اقدار کا تحفظ قربانی مانگ رہا تھا، اور آپؓ بصد تسلیم و رضا یہ قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ علامہ اقبالؒ نے کس عمدگی سے اس عظیم قربانی کا ذکر قرآنی آیت کی روشنی میں کیا ہے:
آں امامِ عاشقاں پُورِ بتُولؓ
سَروِ آزادے زِبُستانِ رسُولؐ
اللہ اللہ بائے بِسم اللہ پِدرؓ
معنیئ ذبحِ عظیم آمد پِسرؓ

(وہ عاشقوں کے اِمام (امام حسینؓ) حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے فرزند اور رسولِ کریمؐ کے باغ کے ایک سروِ آزاد ہیں۔ سبحان اللہ، کیا کہنے، باپ (حضرت علیؓ) بسم اللہ کی باء ہیں تو بیٹا ذبح عظیم کی شرح ہے)۔ ذبح عظیم قرآنی تلمیح ہے۔کربلا کی جانب سفر اس عزم کا اظہار تھا کہ اگر دین ان بہتر نفوسِ قدسیہ کی قربانی سے بچ جاتا ہے تو ابوطالبؓ کا کنبہ یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔

حسین کریمؓ کے نانا، رسولِ کریمؐ کا ارشادِ گرامی ہے: ”افضل ترین جہاد جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے“۔ اس ارشاد پر عمل پیرا ہونے والا ہی امام حسینؓ کا صحیح معنوں میں پیروکار ہے۔ حسینی کردار کے بغیر ہم امام حسینؓ سے محبت کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔ وقت کے یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو امام حسینؓ کا نام لینے کا حق کیونکر ہو سکتا ہے! درحقیقت قرب، قربِ کردار کا نام ہے۔

کربلا کا پیغام ہمہ جہت ہے۔ دین اور دینی اقدار کا تحفظ اسلام اور اہلِ اسلام کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ کل عالمِ انسانیت کے لیے بھی کربلا کی زمین سے ایک پیغام مسلسل نشر ہو رہا ہے …… اور یہ پیغام، پیغامِ حریت ہے۔ آزادی کا ہر قافلہ کربلا سے انسپائریشن لیتا ہے …… آزادی کا ہر متوالا اہلِ کربلا سے ایک روحانی فیضان کشید کرتا نظر آتا ہے۔ کربلا کا قافلہ رکا نہیں، یہ قافلہ ابھی تک رواں دواں ہے۔ درحقیقت یہ ایک فکری قافلہ ہے …… روحِ دین کو اپنے اندر سموئے ہوئے رواں دواں قافلہ! ہم چودہ سو برس کے فاصلے پر ہیں، لیکن فکری اعتبار سے ہمارے امام، امام عالی مقامؓ ہیں۔ اِس قافلہ حریت کے ادنیٰ ستائش گذاروں کی حیثیت سے ہمارے اجتماعی ضمیر نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ ہم کسی ظالم اور جابر حکمران کے جبر و استبداد کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ہمارے جسم خواہ شکستہ و بریدہ ہو جائیں، ہمارا فکر جبر کے ہتھیار سے شکست نہیں کھائے گا۔ امامِ عالی مقامؓ کے ادنیٰ پیرو کار ہونے کا فیض ہے کہ ہم کسی جابر کی بالادستی قبول نہیں کرتے …… کسی بالادست کی کج فکری کو اپنے دینی فکر میں رائج نہیں ہونے دیتے۔ حسینؓ آسمانِ حریت کا دمکتا ہوا ستارہ ہے …… راہنمائی کرنے والا ایک قطبی ستارہ …… ہمیشہ کے لیے روشن استعارہ! اس جہان میں جہاں جہاں انسانیت کا جوہر موجود ہے، وہاں وہاں ذکرِ حسینؓ بھی موجود ہے۔ تاریخ یا حال زمانہ گواہ ہے، حسینیت سے اعراض دراصل انسانیت سے اعراض ہے۔ نامِ حسینؓ سعادت اور شقاوت کے درمیان ایک فرقان ہے۔ یہ نام ہی انسان اور غیر انسان کے درمیان ایک حجت ہے۔

ذکر اور فکر باہم لازم و ملزوم ہیں۔ ذکر فکر کی راہیں ہموار کرتا ہے اور فکر آمادہِ ذکر کرتا ہے۔ ذکر اور فکر باہم ملتے ہیں تو بامعنی عمل کی راہ ملتی ہے۔ فکرِ حسینؓ کی خوشبو پانے کے لیے ذکرِ حسینؓ بھی لازم ہے۔ اس فکر کو پہنچنے والے خود قابلِ ذکر ہو جاتے ہیں …… اور یوں یہ ذکر سلسلہ در سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ذکرِ حسینؓ اور فکرِ حسینؓ تاقیامت جاری و ساری ہے۔ اگر قلب سلیم ہو اور روح لطیف تو امام حسینؓ کا ذکر ہی روح کو تقویت دینے کے لیے کافی ہے۔

اے حسین ابن علی ابنِ ابی طالبؓ! ہم اِس قابل کہاں کہ اہل کربلا کی اقتدا میں آپؓ کی فکر اپنے وجود پر نافذ کر سکیں۔ ہم چودہ سو برس کی مسافت پر حالات و واقعات کے جبر میں گھرے ہوئے ناتواں لوگ ہیں …… ذکر پر اکتفا کرنے والے لوگ! آپؓ اپنی بارگاہ میں ہمارا ذکر قبول فرما لیں …… اپنے ناناؐ کے ہاں ہماری سفارش کر دیں …… ہمیں اس شفاعت گاہ میں داخل ہونے کا اذن عطا فرما دیں جہاں داخل ہونے کے بعد کوئی اِس جہانِ نفس میں …… جہانِ نشاطِ رنگ و بُو میں …… لوٹ کر نہیں آتا۔ ہمارے حال پر لطف و کرم کی اک نظر فرمایئے …… ہمارا سفینہِ خیال کثافت کے بوجھ تلے ڈوبا چاہتا ہے۔ آپؓ اور آپؓ کے اہلِ خانہ سفینہِ نجات ہیں۔ ہمیں اپنے سفینہِ نجات اور حیات میں جگہ مرحمت فرمایئے!

تبصرے بند ہیں.