السلام علیکم! وعلیکم السلام، کیسے ہیں آپ؟، میں ٹھیک تم کیسے ہو؟ خیریت سے ہوں آپ کی دعا ہے، مگر میں نے تو تمھارے لیے دعا نہیں کی۔ یہ وہ مکالمے تھے، جو ہمارے ایک مہربان ڈینٹل سرجن دوست کے اپنے ملنے والوں کے ساتھ اکثر ہوتے تھے۔ یاد ان کی یوں آئی کہ پچھلے دنوں دنیا بھر کی طرح ہمارے یہاں بھی فادر ڈے منایا گیا۔ سوشل میڈیا اس وقت ایک اہم ذریعہ ہے اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کا۔ فادر ڈے کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر احباب، جن کے والد وفات پا چکے تھے انہوں نے مغفرت کی دعاؤں کی درخواست کی اور جن پر والد کا سایہ سلامت تھا انہوں نے ان کی لمبی عمر کی دعاؤں کی درخواست کی۔
تقریباً سب ہی نے اپنے والد کی خصوصیات اور غیر معمولی صلاحیتوں کا ذکر بھی کیا۔ مگر کچھ تیرگی پسندوں نے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار یوں بھی کیا کہ اگر سب کے والد اتنی عمدہ شخصیات تھے تو یہ دنیا ویران کیوں ہے؟ اگر یہ والد اتنے ہی اعلی اخلاق کے تھے تو یہ ایسا کیوں ہے؟ اور وہ ویسا کیوں ہے؟ مگر یہ قنوطیت پسند احباب اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ ہمارے بزرگوں کی جو شخصیت ہمارے سامنے آتی ہے وہ زمانے کے حوادث اور زندگی کے اچھے برے تجربات سے گزر کر تشکیل پائی ہوتی ہے، اور وہ اپنے تجربات کی روشنی میں اپنی اولادوں کی تربیت کرتے ہیں۔
طالب علم کو یاد نہیں آ رہا کہ یہ خوبصورت بات کہاں پڑھی تھی کہ ”بچوں کو بزرگوں کی عزت کرنی چاہیے کہ ان کی نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں اور بزرگوں کو بچوں کی عزت کرنی چاہیے کہ ان کے گناہ کم ہوتے ہیں۔ فادر ڈے کے باب میں طالب علم کا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ مغرب جہاں کسی ایک مخصوص دن پر ہی بزرگوں سے ملا اور یاد کیا جاتا ہے، اس کی نقل میں ہم نے بھی یہ روش اختیار کر لی ہے اور والد، ماں، استاد، عورت، کتاب، ارتھ ڈے اور مختلف حوالوں سے اسی قسم کے درجنوں دن منانا شروع کر دیئے ہیں۔ والدین ہوں، اساتذہ ہوں یا کتابیں، کیا ان کا احترام اور یاد فقط ایک دن کے لیے ہے؟ وہ ہستیاں جنھوں نے ہمیں زمانے کے سرد و گرم سے محفوظ رکھا، جن کا نام اور تربیت ہمارا اثاثہ عظیم ہے، ان کی یاد کسی ایک دن کی نہیں بلکہ یہ تو ہر روز اور ہر لمحے یاد رکھنے والی ہستیاں ہیں۔
ہمارے یہاں نام نہاد جدیدیت پسندوں نے کچھ خود ساختہ ”معیارات“ طے کر رکھے ہیں۔ ان کے نزدیک جدیدیت کا ”علم بردار“ بننے کے لیے ضروری ہے کہ مذہب کی مخالفت کی جائے، نہ صرف مخالفت کی جائے بلکہ بعض تو ٹھٹھے اور مذاق کا رویہ بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ عید قرباں پر یہ مصحفی غلام ہمدانی کا یہ شعر ضرور پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتے ہیں کہ ”عجب یہ رسم دیکھی مجھے روز عید قرباں / وہی ذبح بھی کرے وہی لے ثواب الٹا۔ منکر نکیروں کا ذکر ہو تو بھی یہ شعر پڑھ ڈالیں کہ تو اگر خود ہے خدایا میری شہ رگ کے قریب/ پھر یہ شانوں پہ فرشتوں کا تکلف کیسا۔
اسی طرح لاہور کے ایک شاعر سائیں اختر مرحوم نے اپنی طویل پنجابی نظم میں موضوع تو معاشرے کے جبر اور استحصال کو بنایا مگر خدا سے مطالبہ بھی کیا کہ اللہ میاں تھلے آ اپنی دنیاں ویہندا جا / یا آسمانوں رزق ودھا / یا پھر کر جا مک مکا۔ یہاں یہ ایک اہم بات عام طور پر فراموش کر دی جاتی ہے کہ اس عالم کے خالق نے اپنی مخلوق کی رہنمائی کے لیے قرآن مجید کو برہان بنا کر نازل کیا ہے کہ اس پر عمل کرو گے تو دنیا اور آخرت کی فلاح پاؤ گے اور اس کی تعلیمات کو فراموش کرو گے تو خوف ہو حزن کا شکار ہو گے۔ اب کرنا کرانا کچھ ہو نہ او ر خالق سے مطالبہ ہو کے وہ ہی زمین پر آ کر ہمارے مسئلے حل کرے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ شاعری ہو یا نثر اس میں قنوطیت کا پہلو ہمیشہ رہا ہے
ہمارے یہاں ”جدیدیت۔“ کا ایک معیار خود کو آزادی نسواں یا حقوق نسواں کا علمبردار بھی ثابت کرنا ہے۔ مہنگے ریستورانوں اور بڑی سوسائٹیوں کے گھروں کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اور دہن بگاڑ بگاڑ کر کہ I am the Feminist کہتے مردوں کو حقوق نسواں کا حامی خود عورتوں سے بڑھ کر پایا ہے، یعنی بقول غالبؔ کہ سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا۔ ہمارے بعض ترقی پسند تو اس قدر حقوق نسواں کے علمبردار ہیں کہ ابھی کچھ عرصہ قبل ایک گلوکارہ نے ایک مرد گلوکار و اداکار پر ہراسانی کا الزام لگایا اور ہمارے نام نہاد ترقی پسندوں نے حقیقت جانے بغیر اس مرد گلوکار اور اداکار کے خلاف سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی کہ گلوکارہ ایک مرحوم کمیونسٹ ادیب کی نواسی تھیں۔ اسی طرح ملالہ یوسف زئی جیسی متنازع شخصیت کی ہر بات کا دفاع بھی ہماری ”جدیدیت“ کا ایک لازمی جز ہے، جس کے بغیر ترقی پسندیت اور جدیدیت بے معنی ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ مغرب کی تقلید میں انسانی حقوق کے معاملے کو بھی تقسیم کر کے نہایت چالاکی کے ساتھ حقوق نسواں سے متعلق کر دیا گیا ہے۔
جدیدیت ضرور اختیار کیجیے، معاشرے کے منفی پہلوؤں کی ضرور نشاندہی کیجیے مگر سماج کی مذہبی، سماجی اور اخلاقی روایات کو یکسر مسترد کرنے کے بجائے اصلاح کا رویہ اختیار کریں۔ جدیدیت کے چکر میں معاشرے کو قنوطیت (مایوسی اور نا امیدی) زدہ نہ کریں۔
تبصرے بند ہیں.