گر قبول افتد ……

82

7اکتوبر 2023ء سے غزہ کی 23لاکھ آبادی پر اسرائیل کی وحشت انگیز کارپٹ بمباریوں، ٹینکوں کی گولہ باریوں سے دیکھتے ہی دیکھتے شہر ملبہ زار کھنڈروں میں دبی لاشیں لیے قبرستانوں میں ڈھل گئے۔ وحشی اسرائیلیوں نے قبرستان ادھیڑنے، لاشیں لاد لے جانے اور پھر بوجوہ اعضاء نوچ نکال کر واپس لا پھینکنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ یہ سب رات کی تاریکی یا گھپ اندھیرے میں جنگلوں میں نہ تھا، دنیا کے بیچ دن دیہاڑے تمام کالی سکرینوں پر پوری انسانی آبادی کے سامنے ہوا۔ باقی مناظر کی ہولناکی میں عورتوں، بچوں کی خونچکاں ہلاکتوں، دربدریوں، زخموں سے چور معصوم شہریوں سے بھرے ہسپتالوں نے سیاہی بھر رکھی تھی۔ اب امتحان تھا بہ چشم سر ان مناظر کو دیکھنے والوں کے ضمیر کا۔ ضمیروں کے قبرستان بھی بھرنے لگے۔ ہر خطہئ زمین نے اپنا ردعمل دیا۔ تمام مغربی ممالک کے بڑے شہروں میں شدید ترین ردعمل نوجوانوں نے دیا جنہیں اصطلاحاً Generation-Zیا ’جَین زی‘ کہا جاتا ہے۔ 1995ء تا 2010ء میں پیدا ہونیو الی وہ نسل ہے جو انٹرنیٹ دور میں پروان چڑھی۔ Z، ’زوم‘ کا ہے یعنی وہ جن کی انگلیاں نیٹ کی دنیا میں مہارت سے اطلاعات، نشریات، علوم، روابط پر رواں دواں رہتی ہیں۔ متعصب اور مخصوص مقاصد اور ایجنڈوں کے لیے کام کرنے والے میڈیا پر یہ شدید ناقد رہتے ہیں۔ ڈیجیٹل ذرائع پر مہارت کی بنا پر یہ اصل حقائق کھود نکالتے اور انہیں پھیلا دیتے ہیں۔ غزہ جنگ پر غضب ناک اس نوجوان نسل نے اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے جھوٹ، فریب ڈھونڈ نکالے۔ حقائق، بھید سب کھل گئے۔ یہ ٹِک ٹاک، یوٹیوب سے ان کے ہمہ نوع راز فاش کرتے رہے۔ مختلف سروے بتاتے رہے کہ اس نسل کی بھرپور ہمدردی، حقوق انسانی کے لیے حساسیت کی بنا پر اہلِ غزہ سے رہی۔
دنیا کے 150معتبر ترین تعلیمی اداروں میں نوجوان ان تھک، دیوانہ وار غزہ کی بے پناہ مظلومیت پر آتش زیرپا، مسلسل ہمہ نوع تحریکیں اٹھا رہے ہیں۔ جنگ کے خاتمے، انسانی ضروریات کی فراہمی، فلسطین کی مکمل آزادی، قتلِ عام میں سرمایہ کاری کرنے والے اداروں کا مکمل بائیکاٹ۔ انہی تحریکوں کی بدولت یہ راز افشا ہوئے کہ طلباء سے بھاری رقوم وصول کرکے، قوم کے ٹیکس سمیٹ کر حکومتیں، یونیورسٹیاں، امریکی ریاستیں تجارتی ادارے سبھی اسرائیل کی جنگی مشین کو اسلحہ، گولہ بارود فراہم کرتے ہیں۔ یہ سب غزہ کی بے گناہ آبادی کے قتلِ عام کے دیدہ دانستہ شراکت کار، سہولت کار ہیں۔ پوری دنیا میں نوجوانوں کے نعروں نے ہر یونیورسٹی سے نکل پھیل کر آگہی دی اور مجرم مغرب کے لیے نفرت کی فضا بنا دی۔
مثلاً ’اسرائیل بمباری کرتا ہے ہارورڈ اس کی ادائیگی کرتا ہے۔‘ ’ہارورڈ، غزہ میں قتلِ عام کا سرمایہ فراہم کرتا ہے۔‘ ’ہارورڈ، قتلِ عام کو قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔‘ ’(سرمایہ کاری کے) راز کھولو، سرمایہ کاری (اسرائیل میں) ختم کرو۔‘ بینروں پہ لکھے یہ نعرے، ہارورڈ کے مایہ ناز طالب علم گریجویشن کی تقریب میں سرعام بینروں پر لہرا رہے ہیں! ہمارے ہاں ہوتے تو کچل دیئے جاتے! قوم دم سادھے تماشا دیکھتی۔
! Disclose,Divest۔ یہ دو نعرے امریکا یورپ کے لیے جگر سوز ہیں جن کا سامنا ’جین زی‘ کے ہاتھوں ہر گلی کے موڑ، ہر ایوان میں انہیں کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی نوجوان غزہ میں قیامت کا لمحہ لمحہ سوشل میڈیا پر لاکر امریکا اسرائیل کے قدموں تلے سے زمین سرکا چکے ہیں۔ زیتون سے ایک غم سے پھٹتے نوجوان کا دلسوز مرثیہ امت پر فرد جرم عائد کر رہا ہے۔ اگرچہ غزہ پر قیامت ٹوٹتے 8ماہ ہونے کو ہیں۔ امت محمد بن قاسمؒ، معتصم باللہ یا صلاح الدین ایوبی سے خالی ہے۔شہادتیں 36ہزار، زخمی 81ہزار ہوگئے۔ موت کے گھنگھور گھٹا سے بادلوں تلے ہلکان ہوچکے۔ یہ نوجوان کہتا ہے: میں غزہ کے دل کی گہرائی سے بات کر رہا ہوں۔ ایک جلی کٹی روح اور ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ۔ کل غزہ کے علاقے زیتون میں انہوں نے بچے، خاندان دیکھے ہیں اپنے گھروں میں دبے، گلتے، سڑتے، اعضاء بکھرتے! بچے یتیم ہوگئے۔ ایک بچہ کہتا ہے۔ ’میری ماں مجھے واپس مل جائے میں صرف 5منٹ کے لیے اس کے سینے سے لگنا، اس کا لمس چاہتا ہوں۔ گال پیٹتا ہے نوجوان، بے قرار ہوکر! اٹھو کھڑے ہو! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کیا تم خوش ہو کہ ہم پر یہ بیت رہی ہے؟ عرب ضمیر کہاں ہے!…… میرا پورا خاندان ملبے تلے دبا ہے…… میرے اندر کا جوار بھاٹا محسوس کرو…… میں اللہ کو بتاؤں گا کہ تم میری طرف خاموش (دم سادھے) تکا کیے۔ تم نے مجھے بولتے روتے چلاتے دیکھا اور تم نے میرے لیے کچھ نہ کیا!‘ امت کی بے حسی اور اہلِ غزہ کی کس مپرسی پر وحشت زدہ نوجوان حقائق سے لاعلم ہے! شہداء کی لاشوں سے تو پھر بھی مشک کی خوشبو اٹھی ہے۔ ڈالروں تلے دبی، کچلی غلاموں کی مردہ ضمیری کتنی متعفن کتنی بدبودار ہوتی ہے! تم کیا جانو! مسلم ممالک کے دروبام سے یہ سڑاند اٹھ رہی ہے۔ تم لُٹ کٹ پِٹ کر بھی صبر وثبات، شجاعت وعزیمت کے پیکر ان خوشحال ممالک کے پردھانوں سے زیادہ پرعظمت اور شوکت ووقار کے حامل ہو۔ یہ سب اسرائیل کے حامی، دجال کے لشکری ہیں۔ صرف امریکا یورپ کی پولیس اور عسکری، موساد کے تربیت یافتہ نہیں، یہی تربیت مصری ودیگر مسلم ممالک کے حصے آئی۔ ماسٹر ٹرینر اسرائیلی درندگی سکھاتے رہے۔
گزشتہ 20سالہ جنگوں میں مسلم نوجوانوں کو ان کی اسلام پسندی پر نشانہئ عبرت بنایا جاتا رہا۔ زندانوں میں جوانیاں گل گئیں۔ تم سے پہلے افغانستان کو پوری امت نے تنہا چھوڑا تھا۔ اللہ کی نصرت تمام فوجوں کے مقابل اسے کافی ہوگئی۔ آج میدانِ امتحان میں تم ہو! ہمت نہ ہارو۔ تمہاری استقامت وپامردی پوری دنیا کے تاج وتخت اکھاڑنے اچھالنے کا سماں پیدا کر رہی ہے۔ استعماری طاقتوں کی نوجوان نسل ان کے بخیے ادھیڑ رہی انہیں ذلیل ورسوا کر رہی ہے۔ رفح پر تازہ ترین حملوں میں ممنوعہ آتش گیر مواد سے محفوظ قرار دیئے علاقے پر آگ سے جھلسی 45لاشوں پر دنیا چیخ اٹھی ہے۔ معصوم بچوں کے کٹے سروں والی لاشوں نے حساس انسانوں کو دیوانہ کر دیا ہے۔ اداکارہ کینڈیس کنگ روتی چلاتی اسے سرخ لکیر قرار دے رہی ہے۔اے ابنِ غزہ! مسلمانوں نے اسرائیل امریکا سے نتھی معاشی مفادات کی خاطر تم سے منہ پھیر لیا، مغرب فلسطینی پرچموں اور نعروں کی گونج سے لہلہا اور تھرتھرا رہا ہے! ڈنمارک کے بادشاہ نے فلسطینی پرچم لہرایا تھا۔ اٹلی میں سیاسی رہنما نے پارلیمنٹ کی بلڈنگ پر فلسطینی پرچم لہرا دیئے! ہمارے ہاں اقصیٰ/ فلسطین سے اہم تر پارٹی پرچم ہیں! امت کے حکمرانوں کی غداری سے دل برداشتہ نہ ہو، یہ ترک مجاہد کا ولولہ انگیز جنازہ دیکھو، جس نے اقصیٰ میں تمہارا بدلہ اسرائیلی فوجی کی جان لے کر چکایا۔ تم ایٹمی پاکستان سے توقع نہ رکھو، تم یہاں بے قرار سجدوں میں تمہاری محبت میں آہ وزاری کرنے والوں کو دیکھو۔ ان سب کی دعائیں اور محبتیں تمہارے صبر وثبات کا سامان فراہم کر رہی ہیں۔ یہ دیکھو نوجوان رومان شہید کو اور عبدِ تقی، خفی، غنی شیخ عمران کو! یہ غزہ کے ملبوں کھنڈروں میں اسرائیلی بمباری سے تار تارنہیں ہوئے۔ یہ 60سالہ شیخ عمران، بوڑھی متاعِ جان لیے غزہ بچاؤ مہم ڈی چوک اسلام آباد میں جا بیٹھ کر اللہ کے ہاں حاضری لگوا رہا تھا تم سے اظہار محبت ویکجہتی اور قبلہئ اول کے تحفظ کی سپاہ میں نام لکھوانے کو۔ مگر حکومتی مجبوریاں تم کیا جانو! امریکا ان کا آقا وسرپرست ہے کشکولی مجبوری کی بنا پر۔ اور اسرائیل اس کا لے پالک۔ ہم تو اسرائیل تسلیم کرچکے ہوتے اگر 7اکتوبر آڑے نہ آتا! شیخ عمران کا سر گاڑی نے وحشی اسرائیلی کی طرح کچل ڈالا۔ دو دن شناخت میں لگ گئے! میڈیا نے بھی پولیس کی طرح منہ موڑے رکھا گویا چڑیا مری ہو۔ منہ زور انگریزی اخبار؟ ان میں سے ایک تو وہ ہے جو ہمیں آج بھی برطانوی رعایا سمجھتا ہے۔ بلاناغہ سال بھر شاہی خاندان کے تمام قصے صفحہئ اول پر لازم ہوتے ہیں! دیسی کہانیاں نہیں چھپتیں! یہ شہادتیں اور دبے گھٹے سسکتے جذبات امت کے، غزہ کے شہداء کے لیے ہی ہیں۔ گر قبول افتد زہے عز وشرف!

تبصرے بند ہیں.