چاہت کے چاہنے اور ڈیجیٹل ٹیررازم والے؟

99

محلے میں اِک آدھ بزرگ یا سادہ دل شخص ایسا ہوتا تھا جو بچوں، بڑوں کو ایسا مذاق کرتا، لوگ بے اختیار ہنس پڑتے، کچھ تو اس ہلکے پھلکے مذاق کو انجوائے کرتے مگر کچھ گلے پڑ جاتے۔ جو مذاق کو مذاق نہیں تذلیل سمجھتے ان کا سمجھ لیں برا وقت آ گیا۔ ایسے لوگوں کو خوب شرارتی لڑکوں کے ہاتھوں گلی محلے میں مذاق کرنے والی مشین سمجھ لیا جاتا۔ اک بار آپ ایسے مذاق کا شکار ہو تو جائیں پھر جان نہیں چھوٹے گی، لوگ وقت بے وقت شرارت کریں گے، موقع بہ موقع تنگ کریں گے اور آپ علاقے میں جان جائیں گے۔ اس وقت ملکی سطح پر کچھ نئے لوگ متعارف ہوئے ہیں، پچھلے دنوں راحت فتح علی خان نے اک ملازم کو پیٹ ڈالا…… ”نکال میری بوتل“ کہتے ہوئے دوستوں میں دشمن ہوتے ہیں۔ کسی نے سوشل میڈیا پر چلا دی۔ پھر تو ہر طرف شور مچ گیا…… ”نکال میری بوتل؟“ بے چارے نے معافی مانگی، وضاحت کی، ہاتھ جوڑے مگر کون معافی دیتا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ وقت ہی ہے جو ایسے زخموں کو مندمل کرتا ہے، دوسری طرف ایک ایسے ہی معاملے میں اک صاحب خود نمودار ہوئے…… ”آؤ ہمیں چھیڑو……؟“ اور لوگ پہلے تو ہکا بکا رہ گئے۔ یہ ”توپ“ کہاں سے نمودار ہو گئی……؟ یہ کیا ہے…… یہ بڑے سے پیٹ والا منہ سے مزاح کے گولے برساتا ہے۔ اس نے نام بھی خوب چنا اور کام تو مت پوچھیں۔ میرے خیال میں خود ہی گانے لکھتا ہے خود ہی پرانی دھنیں چوری کرتا ہے یا توڑ مروڑ کر کسی مشہور دھن میں الفاظ ڈالتا ہے اور پھر جھومتا جھامتا سڑک پہ آ جاتا ہے جو ہماری زبان نہیں بھی جانتے وہ بھی اس کے گانے گنگناتے ہیں، مستی کرتے ہیں اور تلخی کے اس دور میں خوب ہنسنے کا یہ موقع مفت میں انجوائے کرتے ہیں۔ زندہ دل ایسے لوگوں ایسی حرکات و سکنات والوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس کی مثال پنجاب بھر میں ہونے والے تھیٹر ہیں، اسٹیج ڈرامے ہیں جہاں ہم نے ”ہاؤس فل“ دیکھے۔ مجھے مشہور آرٹسٹ جناب سہیل احمد کی وہ تاریخی بات یاد آ گئی۔
سہیل احمد نے بتایا کہ ملتان میں ہم ایک سٹیج ڈرامہ کر رہے تھے کہ فیملی قسم کے ڈرامے کو دیکھنے پڑھے لکھے لوگ بڑی تعداد میں خاندان موجود تھے۔ انہوں نے بتایا…… ”ابھی ڈرامے کا پہلا حصہ ختم ہونے میں دس، بارہ منٹ رہتے تھے کہ سامنے والی سیٹ سے ایک فیملی جس میں خواتین زیادہ تھیں اُٹھ کر چل دیں۔ ”ہم نے ڈرامہ روک دیا“…… ”شاید ان معزز خواتین کو کوئی ہماری یا کسی فنکار کی کوئی بات بری لگی تھی جو بھریا میلہ چھوڑ کر چل دیں“۔ میں نے اس قدر جلدی میں جب قہقہوں پے قہقہے چل رہے تھے اُٹھ کر جانے پر اُن خواتین کو معذرت کرتے ہوئے اس ”رخصتی“ کی وجہ پوچھی۔ التجا کے سے انداز میں …… تو وہ خواتین بے ساختہ بول اُٹھیں …… ”ہنس ہنس کے پیٹ میں بل پڑ گئے ہیں اور ہنسنے کی سکت نہیں ہی“ واہ یہ اک بہت بڑا TRIBUTE تھا ان فنکاروں کو جو وہ ڈرامہ کر رہے تھے۔ کبھی کبھی بے ہودگی کی شکایات بھی آتی ہیں مگر اکثر لوگ ان فنکاروں کو خوب انجوائے ہی کرتے ہیں اور داد بھی دیتے ہیں۔
تو بات ہو رہی تھی چاہت فتح علی خان کی اور اس کے انداز کی۔ یہ گفتگو یا جملوں سے تو مزاح پیدا کرتے ہی ہیں۔ انہوں نے پرانے مشہور گانوں کا انداز بدل کر خود کو مرحوم اداکار ننھا کے سے انداز میں پیش کیا اور عوام کو اپنی ان حرکتوں سے گدگدایا…… خوب ہنسایا اور اک ایسا مقام بنا لیا کہ لوگ چاہت فتح کے دیوانے ہو گئے۔ کل سوشل میڈیا پر ہمارے پیارے طارق ضیاء کی اک پوسٹ لگی…… کہ ”یہ بے ہودہ گانے گانے والا چاہت فتح علی خان اپنے ہی مرے گانوں سے ملین ویوز لے چکا ہے۔ وہ کہنا چاہ رہے تھے کہ عوام سنجیدہ ادبی چیزیں چھوڑ کر ایسے بے بہرے لوگوں کو پسند کرنے لگے ہیں۔“
میں نے سوشل میڈیا پر طارق ضیاء کے اس سوال کا جواب دے ڈالا…… شاید اس کو بُرا لگا ہو؟
طارق بھائی…… یہ اک سادہ دل فنکار ہے، بے ہودگی نہیں کرتا۔ نہ کسی کو گالی دیتا ہے، نہ کسی سے حسد اور نہ کوئی اس سے حسد کرتا ہے نہ یہ کسی کو کافر اور نہ کوئی اس کو کافر کہتا ہے۔ یہ نا فرقہ پھیلانے، منفی سیاست کرنے یا اک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے جیسا کام کر رہا ہے نا یہ بڑے بڑے شعراء کی طرح ان مشاعروں میں اپنا کلام بنانے سے انکاری ہے کہ پہلے جونیئر شاعر کلام سنائے گا پھر سینئر…… وغیرہ وغیرہ۔
ادھر ملکی حالات سیاسی طور پر جوں کے توں ہیں۔ سوشل میڈیا پر قومی اداروں کے خلاف بدزبانی کا سلسلہ جاری ہے۔ لوگ اک گروہ کی حرکات و سکنات سے بے حد پریشان ہیں جنہیں جنرل عاصم منیر DIGITAL TERRORISM قرار دے چکے ہیں۔ اگر ادارے سنجیدہ قدم اٹھائیں گے تو ملک سے باہر بیٹھے معید پیرزادے بکواس کرنے لگیں گے…… اور پھر سوشل میڈیا پر ہم جیسے محب وطن لوگوں کو وضاحت کرنا پڑتی ہے اور اس معید زادے کو وہ دن یاد کرانا پڑتے ہیں جب اس نے اپنے مرحوم باپ کے دبئی میں مردہ حالت میں انگوٹھے لگوانے کی کوشش کی پکڑا گیا مگر ذلیل تو ہوا، شرمندہ نہ ہوا۔ چھوڑیں ان منفی لوگوں کو ان کے منفی ہتھکنڈوں کو ان کے ذلیل ہونے کو…… انجوائے کریں چاہت فتح خان کو اور میرا یہ شعر ملاحظہ کریں۔
آج کچھ دعا مانگی آج کچھ اثر دیکھا
آج پھر دیا پانی آج پھر ثمر دیکھا

تبصرے بند ہیں.