گندم کے کاشتکار عدم تحفظ کا شکار ہیں

34

کہنے کو تو پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی اکانومی کا دارومدار زراعت پر ہے لیکن یہاں قائم ہونے والی حکومتوں کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے زمیندار اور کسان کی سرپرستی کرنے کو تیار نہیں۔ بلکہ معاملہ تو کافی حد تک الٹ ہے یعنی ہمارے ہاں زمیندار اور کسان کے استحصال میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی۔
بازار میں چینی لینے جائو تو اس کی قیمت آسمان سے باتیں کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن جب گنے کی فصل تیار ہوتی ہے تو شوگر مل مالکان کاشتکار کو ادائیگیوں کے سلسلہ میں اس قدر پریشان کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ شائد اس قسم کے حربوں کے پیچھے مقصد یہ ہوتا ہے کہ کاشتکار کو اس قدر زچ کیا جائے کہ وہ اپنی فصل حکومت کے مقرر کردہ نرخوں سے بھی کم پر فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے۔
جس طرح ہم نے کچھ دن پہلے دیکھا کہ ایک بڑے مولوی صاحب اپنے ایک بچے سے زیادتی کرنے کی کوشش کرنے والے اپنے ایک ساتھی مولوی کی مدد کو لاہور سے تاندلیاں والا جا پہنچے اور قانون کے تمام تر تقاضوں کو بالائے تاک رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ انہوں نے تفتیش کر لی ہے اور ملزم مولوی کو بے گناہ پایاہے۔ اپنے اسی فیصلہ کی روشنی میں انہوں نے مدعی مقدمہ سے بیان دلوا کر ملزم کو تھانہ سے رہائی دلوا دی۔ اس معاملہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس ساری کاروائی کے دوران پولیس اور قانون پوری بے بسی سے ہاتھ باندھے تماشہ دیکھتے رہے ، عدلیہ نے بھی اس معاملہ پر چپ سادھے رکھی اور حکومت نے تو خیرکیا ہی ایکشن لینا تھا۔ یعنی کسی نے یہ تک پوچھنے کی زحمت گوارا تک نہیں کی کہ بھائی صاحب آپ کس قانون کے تحت تفتیشیں کرتے اور لوگوں کے گناہ گار یا بے گناہ ہونے کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں ٹھیک اسی طرح حکومتیں مہنگائی اور استحصال کے خلاف لمبے لمبے بھاشن تو دیتی ہیں لیکن مجال ہے کہ انہیں کاشتکاروں کے استحصال پر ایکشن لینے کی کوئی توفیق ہوئی ہو۔ بلکہ شائد معاملہ اس کے الٹ ہی ہوتا ہے یعنی شوگر مل مالکان تو ہمیشہ حکومت کا حصہ ہی ہوتے ہیں اس لیے ان کے خلاف ایکشن کیا ہوگا بلکہ اگر بیچارے کاشتکار کوئی آواز اٹھانے کی کوشش کریں تو ان کو ڈنڈے ضرور پڑ جاتے ہیں۔
گندم پاکستان کی اہم ترین فصل ہے لیکن اس کے کاشتکار کو بھی خوش کم ہی دیکھا گیا ہے۔ کبھی جعلی بیج اور کھادوں کی شکایت، کبھی بے وقت کی بارش، کبھی باردانہ کہ عدم دستیابی ، کبھی مناسب ریٹ کا نہ ملنا اور اگر کبھی بمپر فصل پیدا ہوئی ہو، جیسا کہ رواں برس ہوئی ہے، تو اس کی خریداری کے لالے پڑے رہنا۔ یعنی گندم کا کاشتکار کسی بھی لمحے سکون نہیں پاتا۔
جو گندم آج تین ہزار سے پینتیس سو روپے من پر بھی کوئی نہیں خرید رہا ہم دیکھیں کہ چند ہی ماہ میں اس کی قیمتیں کہاں ہوں گی۔ لیکن افسوس اس صورتحال کا رتی بھر فائدہ بھی کاشتکار کو نہیں پہنچے گا۔
گندم، جو دنیا بھر میں لوگوں کی غذا ہے، صرف ایک فصل نہیں ہے۔ یہ معیشتوں کا سنگ بنیاد اور رزق کا ذریعہ ہے۔ تاہم، سنہری کھیتوں کے پیچھے استحصال کی ایک کہانی ہے، جہاں حکومتی پالیسیاں اکثر ان کاشتکاروں کو نقصان پہنچاتی ہیں جو اس اہم اجناس کی کاشت کرتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری پر اجارہ دارانہ کنٹرول برقرار رکھنے کا مقصد ظاہری طور پر خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانا اور منڈیوں کو مستحکم کرنا ہے لیکن درحقیقت یہ کاروائی استحصالی طریقوں کا باعث بن رہی ہے۔ کاشتکار اپنی پیداوار سرکاری اداروں کو حکام کی طرف سے مقرر کردہ قیمتوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں، جو اکثر مارکیٹ کی قیمتوں سے کم ہوتی ہیں۔ یہ اجارہ داری کنٹرول مسابقت کو روک رہا ہے اور کاشتکارکو اس کی محنت اور سرمایہ کاری کے منصفانہ منافع سے محروم کر رہا ہے۔ مزید برآں، نوکر شاہی کی نااہلیاں اور سرخ فیتہ ادائیگیوں میں تاخیر اور کاشتکاروں کی مالی پریشانیوں کو بڑھارہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غذائی تحفظ اور زرعی پائیداری کے لیے اہم ہونے کے باوجود، گندم کے کاشتکاروں کو اکثر حکومتوں کی جانب سے ناکافی مدد ملتی ہے۔حکومتوں کی طرف سے گندم کے کاشتکاروں کا استحصال ایک کثیر جہتی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہمہ گیر نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو کاشتکاروں کے حقوق، معاش اور فلاح و بہبود کو ترجیح دیتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دے سکے۔
پاکستان میں گندم کے کاشتکاروں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے لے کر حکومتی رویوں اور مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ تک مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ کاشتکاروں کے تحفظ اور گندم کی پیداوار کی پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں جدید زرعی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ، موسم کی پیشن گوئی، فصل کی نگرانی، اور کیڑوں کے انتظام کے لیے موبائل ایپس مہیا کی جائیں۔
خشک سالی برداشت کرنے والی گندم کی اقسام اور آبپاشی کی جدید تکنیکوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ موسم کی خرابی کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ گندم کے کاشتکاروں کو موسم کے منفی اثرات کے علاوہ کیڑوں اور بیماریوں سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لیے فصلوں کی انشورنس سکیم متعارف کرائی جائے۔ بہتر بیجوں، کھادوں اور مشینری میں سرمایہ کاری کے لیے رعایتی قرض کی سہولیات اور گرانٹس مہیا کی جائیں ۔ فارم ٹو مارکیٹ سڑکیں (جن پر شہباز شریف کی سابقہ حکومت میں خصوصی توجہ دی گئی تھی)، ذخیرہ کرنے کی سہولیات، اور بازار کے روابط پر خصوصی توجہ دی جائے۔ خاص طور پر خشک سالی کے شکار علاقوں میںآبپاشی کے نظام اور پانی کے انتظام کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کیا جائے تاکہ آبپاشی کے لیے پانی تک قابل اعتماد رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ گندم کے کاشتکاروں کو قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے بچانے اور ان کی پیداوار کے منصفانہ منافع کو یقینی بنانے کے لیے قیمتوں میں استحکام کے طریقہ کار کو نافذ کیا جائے۔
ماحولیاتی تحفظ کی اہمیت کے بارے میں گندم کے کاشتکاروں میں بیداری پیدا کی جائے اور ماحولیات پر زراعت کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے ماحول دوست کاشتکاری کی تکنیکوں کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس کے علاوہ سولر زرعی ٹیوویلز کے لیے آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں۔ حکومت پر یہ لازم ہے کہ وہ کاشتکاروں کے ساتھ سوتیلوں والا سلوک بند کرے اور انہیں مطمئن کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے، اور اس بات کو سمجھے کہ اگر ہمارے کاشتکار عدم تحفظ کا شکار رہیں گے اور انہیں اپنے بنیادی حقوق کے لیے بھی سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑے گا اور دھرنے دینے پڑیں گے تو پھر شائد آنے والے دنوں میں اتنی بڑی آبادی کے لیے خوراک کے انتظامات حکومت کے لیے وبال جان بن جائیں۔

تبصرے بند ہیں.